باچاخان/سرحدی گاندھی اک غدار کی سوانح عمری!
افکار.. مارکسیزم، لینن، پرچم، خلق، اشتراکیت
1890ء کو ہشت نگر کے اتمان زئی گاﺅں کی ایک نامور شخصیت خان بہرام خان کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی، جس کا نام انہوں نے خان عبدالغفار خان رکھا۔ دنیا آج اسے باچاخان کے نام سے جانتی ہے۔
خاندانی پس منظر
اگر آپ کو لگتا ہے کہ باچا خان نے انگریز کے خلاف آزادی کے لئے کوئی جدوجہد کی ہے تو آپ آج سے یہ سوچنا بند کر دے.
مال مفت دل بے رحم
انگریز کے بعد سوشلسٹ حکومت کی جدوجہد آخری دم تک کی لیکن کامیابی اس کے میت کو ڈاکٹر نجیب کی حکومت میں ملی..
عبدالغفار خان کے والد بہرام خان کو انگریزوں نے سینکڑوں ایکڑ زمیں دیگر جاگیردار بنایا، 1857 کی جنگ کوناکام بنانے کیلئے اس نے انگریزوں کی مدد کی اور یہاں تک کہ انگریز افسران انہیں چچا کہہ کر پکارتے تھے.
خان غازی کابلی کی ایک کتاب "تحریک خدائی خدمت گار"
ایک اور مصنف ڈاکٹر شیر بہادر خان نے بھی اس واقعہ کی تصدیق اپنی کتاب "دیدہ و شنیدہ" میں کی ہے..
یکم جنوری 1986 کو ہندوستان ٹائمز لکھتا ہے کہ
”خان عبدالغفار خان کے والد بہرام خان اپنے گاﺅں کے مکھیا تھے یعنی نمبردار، 1857ءکی جنگ آزادی میں حریت پسندوں کے خلاف انگریزوں کو مدد دی اور اس کے بدلے میں بہرام خان نے بھاری جاگیر حاصل کی۔“
باچا خان کا بھائی
ڈاکٹر خان انگریز کا خطاب اور نام خان عبدالجبار خان انگریز کا وظیفہ خور تھا اور روشن خیالی میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی. ڈاکٹر خان کی بیٹی مریم کی جب سکھ جسونت سنگھ کے ساتھ شادی کرانے میں مسائل پیش ہوئے تو باچا خان نے کھل کر حمایت کی کتاب خان عبدالغفار خان ، سیاست اور عقائد " میں لکھا ہے کہ باچا خان نے اپنی بھتیجی مریم کی جسونت سنگھ کیساتھ شادی پر کہا کہ تم نے پسند کی شادی کی ہے، میرا آشیرباد تمھارے ساتھ ہے"
باچا خان کا شاعر بیٹا
غنی خان جس کی شاعری مولوی کے بغض سے شروع ہوتی ہے اور گانوں پر ختم ہوتی ہے.
زہ غنی دہ ملا عقل تہ حیران یم
د دوزخ پہ لار روان دے جنت غواړی
اردو
میں غنی مولوی کے عقل پر حیران ہوں
دوزخ کے راستے جا رہا ہے اور جنت مانگ رہا ہے
ماتہ د جنت قیصی ، زان تہ د دُنیا حساب
دا دے عجیبہ انصاف ، دا دے عجیبہ کتاب
زہ پہ مستئ سوُر کافر ، تہ پہ ھوس سپین ملا
ماتہ پہ فتوی' عزاب ، تاتہ پہ دھوکا ثواب
اردو.. گروپ میں پوسٹ موجود ہے.
سپین لباس دا فرشتوں ابلیس اغوستے
جاهلان وائی وارث دا پغمبر دے
اردو..
فرشتوں کا سفید لباس ابلیس پہنا ہوا ہے
جہلاء کہتے ہیں کہ پغمبر کا وارث ہے
غنی خان کی دو بیٹیاں شاندانہ بی بی اور زرین بی بی ہندوستان میں کسی کو بیاہی گئی ہے
باچا خان کی ہندوستانی پڑپوتی یاسمین نگار خان
ایک سال پہلے اس نے مودی سے ملنے کی گزارش کی تھی اور اپیل کی تھی کہ پشتونوں کی مدد اس طریقے سے کریں جس طرح اس نے بلوچستان کے رہنے والوں کی مدد کی ہے.
باچا خان کو جب انگریز کے نکلنے پر پختہ یقین ہو گیا تو وہ اس کوشش میں تھے کہ ہندوؤں کے ساتھ ملکر ایک سوشلسٹ ریاست تشکیل دے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی ہر پلیٹ فارم پر مخالفت کی اور کانگریس کا ساتھ دیا اور جب ہندو گانگریس نے بھی اس کے مشورے کو اگنور کیا تو ان سے ان الفاظ میں مخاطب ہوا..
'' تم لوگوں نے ہمیں بھیڑیوں کے سامنے پھینک دیا "
کراس ❌ بیانیہ/ دو قومی نظریہ
ہندوؤں کے ساتھ ایک ہی ریاست ہونی چاہئے
جب پاکستان بننے کا وقت آیا تو
الگ پختونستان بننا چاہئیے
ایک الگ ملک بننے کی سخت مخالفت کی اور ایک ہی سوشلسٹ ملک بننے کا درس دیتا رہا اور انڈین کانگریس کی بھی منت کی لیکن جب ایک اسلامی ملک پاکستان بننے کے آثار قریب ہوئے تو پاکستان کی بجائے اپنے لئے الگ سرخ پختونستان کے حصول کے لئے جتن شروع کئے اور آزادی سے چند ہفتے پہلے قراداد بنوں پیش کیا جس کو رد کر دیا گیا.
اپنے ناپاک بیتی میں ماوزے ٹنگ کی قسم کھا کر لکھتا ہے
”ہم نے اسی وجہ سے مطالبہ کیا کہ ہمارے سامنے اگر کوئی ریفرنڈم کرانے کی تجویز رکھتا ہے تو بسم اللہ وہ میدان میں آئے اور ’پشتونستان اور پاکستان‘ کے موضوع پر ریفرنڈم کر لیا جائے“ (آپ بیتی صفحہ( 671)
باچا خان کو غدار وطن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اس کی وجہ یہی تھی کہ پہلے وجود پاکستان کے خلاف تھے اور وجود آنے کے بعد سازشیں شروع کی. قائد اعظم کو کافر اعظم اور پاکستان کو ناپاکستان کہہ کر پکارتے تھے.
باچا خان نے پوری زندگی تخریبی تحریکوں میں گزاری سوشلزم کی خاطر خدائی خدمتگار تحریک انگریز دور میں شروع کی جس کا بظاہر مقصد پختون قوم کی فلاح تھی اور عدم تشدد کا فلسفہ پڑھا کر قوم کو اپنے ساتھ ملا کر سرخ انقلاب لانا تھا لیکن ناکام رہا.
لکشمی پوجا تحریک میں باچا خان نے اپنی وفاداری نبھائی اور سرحد پار سے گاندھی کے آتما کو شانتی بخشی اور ہندوستان کے سامراج سے دو بار ایوارڈ وصول کئے جس میں جواہر لعل نہرو سب سے بڑا ہندوستانی سول ایوارڈ رتنا شامل ہیں لکشمی پوجا کے عوض بغیر رسیدوں کے کافی سارے پیسے ملے لیکن 25 لاکھ اور 80 لاکھ ہندوستانی روپے ریکارڈ پر شامل ہیں.
وفات
1988ء میں فوت ہوئے اور سوشلزم اور پرچم کے ساتھ محبت کا آخری رشتہ نبھاتے ہوئے ڈاکٹر نجیب اللہ خلقی کے دور حکومت میں جلال آباد میں مدفون ہوئے. یہاں پر واضح ہوتا ہے کہ چونکہ افغانستان میں سوشلزم کی حکومت تھی اگر نہ ہوتی تو روس یا ہندوستان میں دفن ہونے کی وصیت کرتے.
اگر آپ کو لگتا ہے کہ باچا خان نے انگریز کے خلاف آزادی کے لئے کوئی جدوجہد کی ہے تو آپ آج سے یہ سوچنا بند کر دے.
مال مفت دل بے رحم
انگریز کے بعد سوشلسٹ حکومت کی جدوجہد آخری دم تک کی لیکن کامیابی اس کے میت کو ڈاکٹر نجیب کی حکومت میں ملی..
عبدالغفار خان کے والد بہرام خان کو انگریزوں نے سینکڑوں ایکڑ زمیں دیگر جاگیردار بنایا، 1857 کی جنگ کوناکام بنانے کیلئے اس نے انگریزوں کی مدد کی اور یہاں تک کہ انگریز افسران انہیں چچا کہہ کر پکارتے تھے.
خان غازی کابلی کی ایک کتاب "تحریک خدائی خدمت گار"
ایک اور مصنف ڈاکٹر شیر بہادر خان نے بھی اس واقعہ کی تصدیق اپنی کتاب "دیدہ و شنیدہ" میں کی ہے..
یکم جنوری 1986 کو ہندوستان ٹائمز لکھتا ہے کہ
”خان عبدالغفار خان کے والد بہرام خان اپنے گاﺅں کے مکھیا تھے یعنی نمبردار، 1857ءکی جنگ آزادی میں حریت پسندوں کے خلاف انگریزوں کو مدد دی اور اس کے بدلے میں بہرام خان نے بھاری جاگیر حاصل کی۔“
باچا خان کا بھائی
ڈاکٹر خان انگریز کا خطاب اور نام خان عبدالجبار خان انگریز کا وظیفہ خور تھا اور روشن خیالی میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی. ڈاکٹر خان کی بیٹی مریم کی جب سکھ جسونت سنگھ کے ساتھ شادی کرانے میں مسائل پیش ہوئے تو باچا خان نے کھل کر حمایت کی کتاب خان عبدالغفار خان ، سیاست اور عقائد " میں لکھا ہے کہ باچا خان نے اپنی بھتیجی مریم کی جسونت سنگھ کیساتھ شادی پر کہا کہ تم نے پسند کی شادی کی ہے، میرا آشیرباد تمھارے ساتھ ہے"
باچا خان کا شاعر بیٹا
غنی خان جس کی شاعری مولوی کے بغض سے شروع ہوتی ہے اور گانوں پر ختم ہوتی ہے.
زہ غنی دہ ملا عقل تہ حیران یم
د دوزخ پہ لار روان دے جنت غواړی
اردو
میں غنی مولوی کے عقل پر حیران ہوں
دوزخ کے راستے جا رہا ہے اور جنت مانگ رہا ہے
ماتہ د جنت قیصی ، زان تہ د دُنیا حساب
دا دے عجیبہ انصاف ، دا دے عجیبہ کتاب
زہ پہ مستئ سوُر کافر ، تہ پہ ھوس سپین ملا
ماتہ پہ فتوی' عزاب ، تاتہ پہ دھوکا ثواب
اردو.. گروپ میں پوسٹ موجود ہے.
سپین لباس دا فرشتوں ابلیس اغوستے
جاهلان وائی وارث دا پغمبر دے
اردو..
فرشتوں کا سفید لباس ابلیس پہنا ہوا ہے
جہلاء کہتے ہیں کہ پغمبر کا وارث ہے
غنی خان کی دو بیٹیاں شاندانہ بی بی اور زرین بی بی ہندوستان میں کسی کو بیاہی گئی ہے
باچا خان کی ہندوستانی پڑپوتی یاسمین نگار خان
ایک سال پہلے اس نے مودی سے ملنے کی گزارش کی تھی اور اپیل کی تھی کہ پشتونوں کی مدد اس طریقے سے کریں جس طرح اس نے بلوچستان کے رہنے والوں کی مدد کی ہے.
باچا خان کو جب انگریز کے نکلنے پر پختہ یقین ہو گیا تو وہ اس کوشش میں تھے کہ ہندوؤں کے ساتھ ملکر ایک سوشلسٹ ریاست تشکیل دے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی ہر پلیٹ فارم پر مخالفت کی اور کانگریس کا ساتھ دیا اور جب ہندو گانگریس نے بھی اس کے مشورے کو اگنور کیا تو ان سے ان الفاظ میں مخاطب ہوا..
'' تم لوگوں نے ہمیں بھیڑیوں کے سامنے پھینک دیا "
کراس ❌ بیانیہ/ دو قومی نظریہ
ہندوؤں کے ساتھ ایک ہی ریاست ہونی چاہئے
جب پاکستان بننے کا وقت آیا تو
الگ پختونستان بننا چاہئیے
ایک الگ ملک بننے کی سخت مخالفت کی اور ایک ہی سوشلسٹ ملک بننے کا درس دیتا رہا اور انڈین کانگریس کی بھی منت کی لیکن جب ایک اسلامی ملک پاکستان بننے کے آثار قریب ہوئے تو پاکستان کی بجائے اپنے لئے الگ سرخ پختونستان کے حصول کے لئے جتن شروع کئے اور آزادی سے چند ہفتے پہلے قراداد بنوں پیش کیا جس کو رد کر دیا گیا.
اپنے ناپاک بیتی میں ماوزے ٹنگ کی قسم کھا کر لکھتا ہے
”ہم نے اسی وجہ سے مطالبہ کیا کہ ہمارے سامنے اگر کوئی ریفرنڈم کرانے کی تجویز رکھتا ہے تو بسم اللہ وہ میدان میں آئے اور ’پشتونستان اور پاکستان‘ کے موضوع پر ریفرنڈم کر لیا جائے“ (آپ بیتی صفحہ( 671)
باچا خان کو غدار وطن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اس کی وجہ یہی تھی کہ پہلے وجود پاکستان کے خلاف تھے اور وجود آنے کے بعد سازشیں شروع کی. قائد اعظم کو کافر اعظم اور پاکستان کو ناپاکستان کہہ کر پکارتے تھے.
باچا خان نے پوری زندگی تخریبی تحریکوں میں گزاری سوشلزم کی خاطر خدائی خدمتگار تحریک انگریز دور میں شروع کی جس کا بظاہر مقصد پختون قوم کی فلاح تھی اور عدم تشدد کا فلسفہ پڑھا کر قوم کو اپنے ساتھ ملا کر سرخ انقلاب لانا تھا لیکن ناکام رہا.
لکشمی پوجا تحریک میں باچا خان نے اپنی وفاداری نبھائی اور سرحد پار سے گاندھی کے آتما کو شانتی بخشی اور ہندوستان کے سامراج سے دو بار ایوارڈ وصول کئے جس میں جواہر لعل نہرو سب سے بڑا ہندوستانی سول ایوارڈ رتنا شامل ہیں لکشمی پوجا کے عوض بغیر رسیدوں کے کافی سارے پیسے ملے لیکن 25 لاکھ اور 80 لاکھ ہندوستانی روپے ریکارڈ پر شامل ہیں.
وفات
1988ء میں فوت ہوئے اور سوشلزم اور پرچم کے ساتھ محبت کا آخری رشتہ نبھاتے ہوئے ڈاکٹر نجیب اللہ خلقی کے دور حکومت میں جلال آباد میں مدفون ہوئے. یہاں پر واضح ہوتا ہے کہ چونکہ افغانستان میں سوشلزم کی حکومت تھی اگر نہ ہوتی تو روس یا ہندوستان میں دفن ہونے کی وصیت کرتے.
No comments:
Post a Comment