Tuesday 24 April 2018

افغانستان کی " پشتون کارڈ " بچانے کی آخری کوشش

پشتون کارڈ بچانے کی آخری کوشش ۔۔۔۔ !

47ء میں افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف ووٹ دیا۔

47ء میں ہی افغان ایلچی نجیب اللہ نے نوزائیدہ مسلمان ریاست پاکستان کو فاٹا سے دستبردار ہونے اور بصورت دیگر جنگ کرنے کی دھمکی دی۔

48ء میں ایک دفعہ پھر پاکستان کو یو این او کا رکن بنانے کی قرار داد پیش کی گئ تو افغانستان نے پھر اس کی مخالفت کی۔

48ء میں افغانستان میں پاکستان کے خلاف پرنس عبدلکریم بلوچ کے ٹریننگ کمیپ بنے۔

49ء میں افغان لویا جرگہ بلا کر پاکستان کے وجود کا انکار کیا گیا۔

49ء میں ایک افغان مرزا علی خان جو پہلے خان عبدالغفار خان کے ساتھ دیکھا جاتا تھا اور پھر کچھ عرصے کے لئے زیر زمین چلا گیا تھا ، اچانک نمودار ھوا اور اس نے پاکستان کے خلاف مسلح کارروائیاں شروع کر دیں ، اس کی کاروائیاں وزیرستان سے شروع ھو کر کوھاٹ تک تھیں وہ چن چن کر ان عمائدین کو ٹارگٹ کرتا تھا جنہوں نے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں رائے عامہ ہموار کی تھی۔

49ء میں افغانستان نے اپنی پوری فورس اور لوکل ملیشیا کے ساتھ چمن کی طرف سے پاکستان پر بھرپور حملہ کیا۔

50ء میں افغانستان نے انڈیا کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا جس کا ایک نقاطی ایجنڈہ تھا کہ پاکستان کو کسی بھی طرح گھیر کر ختم کرنا ہے۔

55ء میں سردار داؤود وغیرہ نے پاکستان کے بارڈر پر بہت بڑے بڑے کھمبے لگائے جن پر اسپیکر لگا کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا۔

60ء میں افغانوں نے ایک قبائیلی لشکر ترتیب دے کر باجوڑ ایجنسی پر حملہ کیا۔

60ء میں ہی افغانستان میں پاکستان کے خلاف شیر محمد مری کے ٹریننگ کیمپ بنے۔

70ء میں اے این پی والے ناراض ہوئے ان کے اور بلوچوں کے ٹریننگ کیمپس بنے اجمل خٹک اور افراسیاب خٹک بھی ان کیمپس کا حصہ تھے۔
۔

2002ء سے تاحال افغانستان میں پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی، داعش، بی ایل اے اور جماعت الاحرار وغیرہ کے ٹریننگ کیمپس چلائے جا رہے ہیں۔ جبکہ اسی دوران افغانستان چمن، تورخم اور کرم ایجنسی پر تین فوجی حملے بھی کر چکا ہے۔

2018ء میں اچانک اٹھنے والی پاکستان مخالف تحریک " پشتون تحفظ موومنٹ ( پی ٹی ایم ) کا اصل مرکز، کمانڈ اور کنٹرول بھی افغانستان میں ہی ہے۔ تاہم یہ ٹی ٹی پی کی نسبت زیادہ خطرناک تحریک اس لیے ہے کہ اس کو لبرل ازم کے جھنڈے تلے لانچ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک باآسانی اس کی سپورٹ کر سکتے ہیں۔

افغانستان کو ہمیشہ یہ خوش فہمی رہی ہے کہ پاکستان کے پشتون افغانستان میں ضم ہونے کے لیے بے چین ہیں۔ اسی خوش فہمی میں پچھلے ستر سال سے پاکستان کے خلاف " پشتون قوم پرستی" پر مبنی تحریکوں کو سپورٹ کرتا چلا آرہا ہے۔

افغان سرحد کے قریب قائم پشتونوں کے یہ علاقے سینکڑوں سال سے یعنی قیام پاکستان سے پہلے سے لاہور اور کراچی وغیرہ کے مقابلے میں پسماندہ رہے ہیں۔

یہاں کوئی سرحد قائم نہیں تھی جس کی وجہ سے افغانستان کے لیے کسی بھی شکل میں یہاں گھسنا بے حد آسان تھا۔

افغانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان تمام علاقوں میں موجود ہے۔

لیکن دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کی جنگ نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔

اس خطے میں پہلی بار پاک فوج اور آئی ایس آئی کی مستقل موجودگی نے یہاں قائم افغان اینٹلی جنس کے نیٹ ورکس توڑنے شروع کر دئیے۔

افغانیوں کی واپسی کا عمل شروع کیا گیا۔

افغان سرحد پر باڑ لگا کر غیر قانونی آمدورفت کو تقریباً ناممکن بنایا جا رہا ہے۔

اور سب سے بڑھ کا ایک بڑی جنگ کے بعد فاٹا میں شروع ہونے والا تعمیر نو کا عمل آنے والے دنوں میں وزیرستان کو فاٹا کا اسلام آباد بنا سکتا ہے۔

نیز پاک فوج نے فاٹا اصلاحات کے عنوان سے فاٹا کے عوام کے درینہ مسائل کا حل پیش کیا ہے جس کو فلحال نواز حکومت نے نظر انداز کر دیا ہے۔ لیکن خدشہ ہے کہ اگلی حکومت عمران خان کی آئی تو وہ ان پر ضرور عمل درآمد کرائے گا اور فاٹا کو کے پی کے میں ضم کر دے گا۔

جس کے بعد اس خطے کی محرومیاں تقریباً ختم ہوجائینگی اور افغانستان " پشتون کارڈ " سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائیگا۔

یہ وہ خطرہ ہے جس کو محسوس کرتے ہوئے " پشتون تحفظ موومنٹ " کو پوری طاقت سے لانچ کیا گیا ہے اور افغانستان پہلی بار اعلانیہ اور نہایت جارحانہ انداز میں اس کو سپورٹ کر رہا ہے۔

" پشتون تحفظ موومنٹ " یا پی ٹی ایم کی تحریک پشتونوں کو حقوق دلانے کی نہیں بلکہ ان کے حقوق سلب کرنے کی تحریک ہے۔ وہ ہر صورت فاٹا سے پاک فوج کا انخلاء چاہتی ہے، باڑ کی تعمیر روکنا چاہتی ہے، افغانوں کی واپسی روکنا چاہتی ہے، فاٹا کا کے پی کے میں انضمام روکنا چاہتی ہے اور فاٹا میں جاری تعمیر نو کے کام روکنا چاہتی ہے۔

یہ افغانستان کی " پشتون کارڈ " بچانے کی آخری کوشش ہوگی!

تحریر شاہدخان




No comments:

Post a Comment