Thursday 19 April 2018

پاک افغان سرحد پر لگائی جانے والی باڑ

امریکی ہیلی کاپٹرز کی واپسی اور پاک افغان سرحد پر لگائی جانے والی باڑ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پاک افغان سرحد پر پاک فوج کی جانب سے لگائی جانے والی باڑ بیک وقت امریکہ، انڈیا اور افغانستان کے لیے درد سر بن رہی ہے۔
پاکستان کے متنازعہ سابق سفیر حسین حقانی نے چند دن پہلے ایک مضمون لکھا جس میں پاک فوج کی ڈیورنڈ لائن پر لگائی جانے والی باڑ کو دیوار برلن سے تشبیہ دی جس نے جرمنی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
حسین حقانی کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ وہ سی آئی اے کی ہدایات پر کام کرتا ہے۔ اور اسکا مذکورہ مضمون دراصل ڈیورنڈ لائن پر لگائے جانے والی باڑ کے بارے میں امریکی موقف واضح کرتا ہے۔
اس باڑ پر مذکورہ ممالک کے علاوہ پاکستان کی قوم پرست جماعتوں اے این پی، اچکزئی کے علاوہ فضل الرحمن کو بھی اعتراض ہے۔
اسکا انکشاف کچھ دن پہلے حامد میر نے اپنے پروگرام میں کیا کہ " درحقیقت فضل الرحمن کے فاٹا کو کے پی کے میں شامل ہونے سے روکنے کی کوشش اس کے پاک افغان سرحد پر لگائی جانے والی باڑ کو روکنے ہی کی کوشش ہے جسکا وہ اعلانیہ اعتراف نہیں کر سکتا۔ "
اس باڑ پر اعتراض کی وجہ تین چیزیں ہیں جنکے راستے کی یہ دیوار بن رہی ہے۔
دہشت گردوں کی نقل حمل
یہ باڑ مکمل ہونے کے بعد افغانستان سے پاکستان دہشت گرد بھیجنا تقریباً ناممکن ہوجائیگا جس کے بعد پاک فوج کے لیے آسان ہوگا کہ ردالفساد میں جن جن دہشت گرد عناصر کی نشاہدہی ہو چکی ہے ان کو ایک بڑے آپریشن کی مدد سے ایک ہی بار میں صاف کر دیا جائے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستانی سیاست میں گھسے دہشت گردوں کے بڑے بڑے سہولت کاروں کے گرد گھیرا تنگ ہو چکا ہے۔
اگر امریکہ کا اصل نشانہ پاکستان ہے تو امریکہ کی 17 سال کی محنت اور ہزاروں ارب ڈالر کا سرمایہ ضائع ہوجائیگا۔ نیز سی پیک بھی مکمل طور محفوظ ہوجائیگا۔
افیون کی کاشت
افغانستان دنیا کی 75 فیصد افیون پیدا کرتا ہے جسکا 90 فیصد امریکہ جاتا ہے جس سے ہیروئین میں تبدیل کر کے امریکن سی آئی اے سالانہ 80 ارب ڈالر کماتی ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان کا کل قرضہ 83 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان کے راستے ہونے والی افیون کی یہ نقل و حمل متاثر ہوگی۔
افغانیوں کی وطن واپسی
باڑ لگنے کے بعد افغانستان بھیجے جانے والے افغانیوں کے چور راستوں سے واپس آنے کا امکان ختم ہوجائیگا۔ یاد رہے کہ پاکستان میں مقیم 60 لاکھ افغانیوں کو انڈیا اور انکی پشت پر امریکہ اپنا اثاثہ خیال کرتا ہے۔
اسی لیے امریکہ نے پاک فوج سے پاک افغان سرحد کی نگرانی کے لیے دئیے جانے والے ہیلی کاپٹرز بھی واپس لے لیے ہیں۔
افغانستان کا انحصار پاکستان پر کم کرنے کے لیے پاکستان سے براستہ واہگہ انڈیا کو افغانستان تک رسائی دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اور امریکہ و انڈیا کے اس مشترکہ مطالبے کی حمایت میں اٹھنے والی سب سے طاقتور آواز مسلم لیگ ن کے "غیر اعلانیہ ترجمان" جاوید ھاشمی کی ہے۔
انڈیا نے پہلی بار براستہ چاہ بہار 11 لاکھ ٹن گندم افغانستان بھیجی ہے۔ اس سلسلے میں افغانستان، ایران اور انڈیا کے سفارت کاروں کو درمیان باقاعدہ کانفرنس کال ہوئی ہے۔
آپ نے سنا ہوگا کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی وزارت خارجہ لندن میں بیٹھ کر نواز شریف کو بچانے کی راہیں ڈھونڈ رہی ہے اچانک پاکستان کے سپاہ سالار جنرل باجوہ نے ایرانی سفیر سے خصوصی ملاقات کی ہے۔
اشرف غنی نے انڈیا میں بیٹھ کر بھڑک ماری ہے کہ اگر انڈیا کو پاکستان نے راستہ نہیں دیا تو ہم پاکستان کا وسطی ایشیائی ریاستوں سے رابطہ کاٹ دینگے۔
یہ ایک ایسی شخص کی بھڑک ہے جس کا کابل پر بھی کنٹرول نہیں ہے باقی افغانستان میں یہ خود نقل و حرکت نہیں کر سکتے تو کسی اور کا راستہ کیا روکیں گے؟؟








No comments:

Post a Comment