منظور پشتین کون؟؟
منظور پشتین ولد عبدل ودود قوم محسود گاؤں ریشوارہ جنوبی وزیرستان۔
منظور کے والد سکول ٹیچر تھے۔ منظور کے تین بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ ایک بھائی فوت ہوچکا ہے۔ منظور نے ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی اور گومل یونیورسٹی سے طب حیوانات میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ سادہ الفاظ میں ڈنگر ڈاکٹر۔
منظور کے والد سکول ٹیچر تھے۔ منظور کے تین بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ ایک بھائی فوت ہوچکا ہے۔ منظور نے ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی اور گومل یونیورسٹی سے طب حیوانات میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ سادہ الفاظ میں ڈنگر ڈاکٹر۔
منظور پشتین کا ایک بھائ قاری محسن تحریک طالبان پاکستان کا سرگرم رکن رہا
اور بدنام زمانہ خود کش بمبار تیار کرنے والے قاری حسین کے قریبی ساتھیوں
میں سے ایک تھا۔ قاری محسن آج کل روپوش ہے۔ منظور پشتین خود بھی ٹی ٹی پی
کے کافی قریب رہا ہے اور قاری حسین اور عظمت اللہ جیسے کمانڈروں کے ساتھ اس
کے تعلقات تھے۔ غالباً اسی لیے "پشتون تحفظ موومنٹ" کی سپورٹ کا اعلان
سب سے پہلے ٹی ٹی پی نے کیا تھا۔
پاک فوج کے آپریشنز کے بعد دہشت گرد تتر بتر ہوگئے اور منظور جیسے لوگ بھی خاموش ہوکر ایک کونے میں بیٹھ گئے۔
2014 میں منظور نے پشتون تحفظ مومنٹ بنائی۔ مگر کسی کو علم نہ تھا۔ اسی عرصے میں اس کے سرخوں اور این ڈی ایس کے ساتھ رابطے بنے اور اس کی ساتھیوں کے ساتھ آزاد پشتونستان کے جھنڈے والی تصاویر پشتونستان کی ویب سائیٹ پر نظر آنے لگیں۔
اس کے ایک سال بعد اس کے روابط پشتونستان کے علمبردار اور پاکستان کے بدترین دشمن محمود اچکزئی کے ساتھ قائم ہوگئے۔
منظور پشتین 10 سے 15 دسمبر 2017ء کے درمیان سرحد پار افغانستان گئے جہاں کابل اور جلال آباد میں ان کی ملاقاتیں افغان اینٹلی جنس کے اعلی ترین عہدیداروں میں سے ایک ولی داد قندہاری سمیت کئی لوگوں سے ہوئیں جن میں سے کچھ امریکن سی آئی اے کے اہلکار بھی شامل تھے۔ یہ سارا کام جناب محمود اچکزئی کی معرفت ہوا۔
13 جنوری کو نقیب اللہ کا قتل ہوا۔
اسی وقت میڈیا اور سوشل میڈیا پر محمود اچکزئی دورہ انڈیا کی خبریں آئیں جہاں اس نے مبینہ طور پر نریندر مودی کے علاوہ اسرائیلی وزیراعظم سے بھی ملاقات کی۔
نقیب اللہ کے واقعہ کے بعد اچانک منظور پشتین کی جماعت ابھر کر سامنے آئی۔
اور ان کے مطالبات راؤ انوار کی گرفتاری سے شروع کر نہایت تیزی سے آزاد پشتونستان کے نعروں تک پہنچ گئے۔ افغانستان نے پوری شدت سے ان کی سپورٹ کرنی شروع کر دی۔ وائس آف امریکہ اور بی بی سی نے ان کو مسلسل کوریج دے رہے ہیں۔
پی ٹی ایم نے ریاست پاکستان کے خلاف جعلی اور نفرت انگیز مواد پبلش کرنا شروع کر دیا اور پاک فوج پر الزامات کی بوچھاڑ کردی۔
مثال کے طور پر سوات طالبان میں "قصاب" کے نام سے مشہور ہونے والے اس کمانڈر کی ویڈیو جسے زخمی حالت میں پاک فوج کے دو جوان کھینچ رہے ہیں۔ اس کا نام "قصاب" اس لیے پڑا تھا کہ اس کے ہاتھوں ذبح ہونے والوں کی گنتی سب سے زیادہ تھی۔
شروع میں پی ٹی ایم کے کئی مطالبات مان لیے گئے لیکن ان میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
پی ٹی ایم نے پشتونوں کو اکسایا کہ تمھارے حقوق کے لیے ریاست یا فوج ہم سے بات نہیں کر رہی۔ لیکن جب پاک فوج نے مزاکرات کی پیش کش کی تو پی ٹی ایم نے اس کو حقارت سے ٹھکرا دیا۔
چیک پوسٹوں پر رویہ بہتر کرنے کا مطالبہ بھی بڑھتے بڑھتے بالاآخر فاٹا سے پاک فوج کے انخلاء تک پہنچ گیا۔
سوشل میڈیا پر متحرک بدنام زمانہ گستاخان رسول وقاص گورایا، عاصم سعید، سلمان حیدر اور ناصر جبران جیسے لوگوں نے بھی انکی تحریک کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا۔ وقاص گورایا جیسے ملعون کی علامتی تصاویر پی ٹی ایم کے لاہور جلسے نظر آئیں اور کسی نے ان پر اعتراض نہیں کیا۔
سب سے حیران کن بات اس تحریک میں منظور پشتین کا دست راست محسن داؤڑ نامی لبرل ہے جو آج سے چند سال پہلے تک فاٹا میں آپریشن اور پشتونوں پر ڈرون حملوں کا سب سے بڑا حمایتی تھا۔
ان کے جلسوں میں پاکستانی جھنڈا لہرانے پر پابندی لگا دی گئی تاہم افغانستان کا جھنڈا وہاں اکثر نظر آجاتا ہے۔
اب اس کے حامی پاکستان کے خلاف اقوام متحدہ، انڈیا اور امریکہ سے مدد طلب کر رہے ہیں اور ریاست کے خلاف اعلان جنگ کر رہے ہیں۔
تاہم منظور پشتین کے کامیابی کے امکانات کم ہیں کیونکہ پشتونوں کی اکثریت اس کو ایک فتنہ سمجھ رہی ہے جو دوبارہ ان کا خون بہانے کے درپے ہے۔
البتہ افغانی پوری دنیا میں اس تحریک کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
پاک فوج کے آپریشنز کے بعد دہشت گرد تتر بتر ہوگئے اور منظور جیسے لوگ بھی خاموش ہوکر ایک کونے میں بیٹھ گئے۔
2014 میں منظور نے پشتون تحفظ مومنٹ بنائی۔ مگر کسی کو علم نہ تھا۔ اسی عرصے میں اس کے سرخوں اور این ڈی ایس کے ساتھ رابطے بنے اور اس کی ساتھیوں کے ساتھ آزاد پشتونستان کے جھنڈے والی تصاویر پشتونستان کی ویب سائیٹ پر نظر آنے لگیں۔
اس کے ایک سال بعد اس کے روابط پشتونستان کے علمبردار اور پاکستان کے بدترین دشمن محمود اچکزئی کے ساتھ قائم ہوگئے۔
منظور پشتین 10 سے 15 دسمبر 2017ء کے درمیان سرحد پار افغانستان گئے جہاں کابل اور جلال آباد میں ان کی ملاقاتیں افغان اینٹلی جنس کے اعلی ترین عہدیداروں میں سے ایک ولی داد قندہاری سمیت کئی لوگوں سے ہوئیں جن میں سے کچھ امریکن سی آئی اے کے اہلکار بھی شامل تھے۔ یہ سارا کام جناب محمود اچکزئی کی معرفت ہوا۔
13 جنوری کو نقیب اللہ کا قتل ہوا۔
اسی وقت میڈیا اور سوشل میڈیا پر محمود اچکزئی دورہ انڈیا کی خبریں آئیں جہاں اس نے مبینہ طور پر نریندر مودی کے علاوہ اسرائیلی وزیراعظم سے بھی ملاقات کی۔
نقیب اللہ کے واقعہ کے بعد اچانک منظور پشتین کی جماعت ابھر کر سامنے آئی۔
اور ان کے مطالبات راؤ انوار کی گرفتاری سے شروع کر نہایت تیزی سے آزاد پشتونستان کے نعروں تک پہنچ گئے۔ افغانستان نے پوری شدت سے ان کی سپورٹ کرنی شروع کر دی۔ وائس آف امریکہ اور بی بی سی نے ان کو مسلسل کوریج دے رہے ہیں۔
پی ٹی ایم نے ریاست پاکستان کے خلاف جعلی اور نفرت انگیز مواد پبلش کرنا شروع کر دیا اور پاک فوج پر الزامات کی بوچھاڑ کردی۔
مثال کے طور پر سوات طالبان میں "قصاب" کے نام سے مشہور ہونے والے اس کمانڈر کی ویڈیو جسے زخمی حالت میں پاک فوج کے دو جوان کھینچ رہے ہیں۔ اس کا نام "قصاب" اس لیے پڑا تھا کہ اس کے ہاتھوں ذبح ہونے والوں کی گنتی سب سے زیادہ تھی۔
شروع میں پی ٹی ایم کے کئی مطالبات مان لیے گئے لیکن ان میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
پی ٹی ایم نے پشتونوں کو اکسایا کہ تمھارے حقوق کے لیے ریاست یا فوج ہم سے بات نہیں کر رہی۔ لیکن جب پاک فوج نے مزاکرات کی پیش کش کی تو پی ٹی ایم نے اس کو حقارت سے ٹھکرا دیا۔
چیک پوسٹوں پر رویہ بہتر کرنے کا مطالبہ بھی بڑھتے بڑھتے بالاآخر فاٹا سے پاک فوج کے انخلاء تک پہنچ گیا۔
سوشل میڈیا پر متحرک بدنام زمانہ گستاخان رسول وقاص گورایا، عاصم سعید، سلمان حیدر اور ناصر جبران جیسے لوگوں نے بھی انکی تحریک کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا۔ وقاص گورایا جیسے ملعون کی علامتی تصاویر پی ٹی ایم کے لاہور جلسے نظر آئیں اور کسی نے ان پر اعتراض نہیں کیا۔
سب سے حیران کن بات اس تحریک میں منظور پشتین کا دست راست محسن داؤڑ نامی لبرل ہے جو آج سے چند سال پہلے تک فاٹا میں آپریشن اور پشتونوں پر ڈرون حملوں کا سب سے بڑا حمایتی تھا۔
ان کے جلسوں میں پاکستانی جھنڈا لہرانے پر پابندی لگا دی گئی تاہم افغانستان کا جھنڈا وہاں اکثر نظر آجاتا ہے۔
اب اس کے حامی پاکستان کے خلاف اقوام متحدہ، انڈیا اور امریکہ سے مدد طلب کر رہے ہیں اور ریاست کے خلاف اعلان جنگ کر رہے ہیں۔
تاہم منظور پشتین کے کامیابی کے امکانات کم ہیں کیونکہ پشتونوں کی اکثریت اس کو ایک فتنہ سمجھ رہی ہے جو دوبارہ ان کا خون بہانے کے درپے ہے۔
البتہ افغانی پوری دنیا میں اس تحریک کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment