Wednesday 6 April 2016

سٹیل کو سونے میں تبدیل کرنے کا بزنس ۔۔۔۔ !!!


سٹیل کو سونے میں تبدیل کرنے کا بزنس ۔۔۔۔ !!!

کچھ عرصہ پہلے کاشف عباسی نے اپنے ایک پروگرام میں چودھری نثار سے نواز شریف کے بیٹے حسن نواز کی لندن میں رئیل اسٹیٹ کے بزنس میں یکلخت 1.2 بلین ڈالر یعنی 1200 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے متعلق سوال کیا کہ یہ رقم کہاں سے آئی تو چودھری نثار کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے!

کچھ دن پہلے نواز شریف کے دوسرے بیٹے حسین نواز نے جاوید چودھری کے پروگرام کل تک میں وضاحت کی کہ میفیر، پارک لین اور لندن ھائٹس کے فلیٹ ان کے ہیں اور اس کے لیے اس نے خود یہ رقم حسن نواز کو دی تھی۔ حسین نواز نے مزید کہا کہ ان کی قیمتیں اس سے کم ہیں جتنی بتائی جا رہی ہیں۔ پروگرام یہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

جہاں تک قمیتوں کی بات ہے تو قارئین صرف لندن ھائٹس کے فلیٹس کی قمتیں آنلائن چیک کرلیں۔ دنیا کے مہنگے ترین ان فلیٹس میں سے ہر ایک کی قیمت کم از کم 200 سے 250 ملین ڈالر ہے۔

حسین نواز کے پاس خود یہ دولت کہاں سے آئی؟؟ اسکی وضاحت اس نے یوں کی کہ " ہم سعودی عرب بلکل خالی ہاتھ گئے تھے۔ وہاں میں نے 2005 میں اپنے کچھ دوستوں اور بینکس سے قرضہ لیا۔ جس پر ایک ایسی مل خریدی جو بند پڑی تھی۔ اس کو میں نے چلایا اور صرف چند سال میں اتنا نفع حاصل کر لیا کہ نہ صرف سارے قرضے چکتا کر لیے بلکہ لندن میں اپنی تین آف شور کمپنیاں کھول لیں اور اپنے بھائی حسن نواز کو رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کے لیے رقم دی۔" ۔۔۔ یہ اس کے بیان کا خلاصہ ہے۔

اب آپ کو کچھ دلچسپ اعدادوشمار پیش کرتےہیں۔
سعودی عرب میں موجود ہل میٹل جس کو حیسن نواز بیچ چکے ہیں کتنا کما سکتی ہے ذرا یہ موازنہ چیک کیجیے۔
دنیا کی سب سے بڑی سٹیل کی کمپنی آرسلر متل کی سالانہ پیدوار 9 کروڑ 81 لاکھ ٹن سالانہ ہے۔ ملازمین کی تعداد 2 لاکھ 22 ہزار ہے۔
دنیا کی 10ویں بڑی کمپنی ٹاٹاسٹیل کی سالانہ پیدوار 2 کروڑ 60 لاکھ ٹن ہے۔ ملازمین کی تعداد 80391 ہے۔
دنیا کی 20 ویں بڑی کمپنی روس کی نوسلیکٹس ہے جس کی سالانہ پیدوار 1 کروڑ 60 لاکھ ٹن اور ملازمین کی تعداد 61700 ہے۔
دنیا کی 30ویں بڑی کمپنی جے ایس ڈبلیو سٹیل کی پیدوار 1 کروڑ 20 لاکھ ٹن سالانہ اور ملازمین کی تعداد 11400 ہے۔

حسن نواز کی سعودی عرب میں قائم کردہ ہل مٹل سٹیل کمپنی دنیا کی 100 بڑی سٹیل کمپنیوں میں بھی شامل نہیں۔ اس کی کل سالانہ پیدوار کمپنی پروفائل کے مطابق 5 سے 10 لاکھ ٹن سالانہ ہے۔ جبکہ کمپنی ملازمین کی تعداد 385 یا اس سے کچھ اوپر ہے۔

حسن نواز نے اگر 1200 ملین ڈالر اپنے بھائی کو دئیے ہیں تو اپنی تین کمپنیوں کے لیے بھی کچھ رکھے ہونگے۔ فرض کریں اپنے پاس 500/600 ملین ڈالر بھی رکھے تو کم از کم دونوں بھائیوں کے پاس 1800 ملین ڈالر کی کل رقم موجود ہے۔
اس کے علاوہ اس نے نہ صرف دوستوں سے لیا گیا سارا قرض واپس کیا بلکہ بینکوں سے لیا گیا قرضہ بمع سود واپس کر دیا۔ صرف چند سال کے اندر اندر !!!

اس نے کمپنی کتنا قرض لے کر کھولی تھی؟؟ جو اس نے نہ صرف لوٹا دیا بلکہ اپنے لیے بھی 2000 یا 1800 ملین ڈالر کے قریب رقم بچا گیا؟؟؟
کیا واقعی انکو کسی نے محض قرضہ حسنہ کے طور پر 1000 سے 2000 ملین ڈالر دے دئیے تھے؟؟
اور اسکی کمپنی آخر کس شرح سے منافع کما رہی تھی جو اس نے چند سال میں یہ حیرتناک کارنامہ کر سرانجام دے ڈالا ؟؟

اوپر بتائی گئی کمپنیوں میں روسی کمپنی کا شرح منافع سال 2014/15 میں سب سے زیادہ رہا۔ اس نے 1 کروڑ 60 لاکھ ٹن سے زائد سٹیل کی پیدوار پر تقریبا 800 ملین ڈالر کا خالص نفع حاصل کیا۔
جو ہر 10 لاکھ ٹن پر 50 ملین ڈالر بنتے ہیں۔ باقی کمپنیوں کا فی 10 لاکھ ٹن 1 سے 10 ملین ڈالر خالص نفع رہا۔ یعنی روسی کمپنی نے صحیح کر کے چھکا مارا ہے ۔۔۔ !

لیکن حسین نواز صاحب کی چھوٹی سی کمپنی نے 6 سال میں کم از کم 2000 ملین ڈالر کا ناقابل یقین منافع حاصل یقینا کوئی نہ کوئی ریکارڈ توڑا ہوگا۔ اوپر بتایا گیا ہے کہ اسکی سالانہ پیدوار 5 سے 10 لاکھ ٹن ہے۔ اس حساب سے اس نے فی 10 لاکھ ٹن کم از کم 350 ملین ڈالر کمائے!!!؟؟؟؟؟
کہیں حسین سٹیل کو سونے میں تو تبدیل نہیں کر رہے تھے ؟؟؟؟؟؟

حسین نواز فرما رہے تھے " سٹیل کے کام میں کہ ہمارا خاندانی تجربہ ہے اور میں نے ایک سکریپ کمپنی خرید کر جو بند پڑی تھی اللہ کے فضل سے چلائی اور یہ منافع حاصل کیا " ۔۔۔
جس باپ سے حسین نواز نے یہ تجربہ حاصل کیا ہے اس کی حکومت میں پاکستان کی قومی سٹیل مل نہ صرف خسارے میں چلی گئی بلکہ اب اسکو اونے پونے داموں بیچنے کی نوبت آگئی ہے۔ اس معاملے میں پتہ نہیں وہ خاندانی تجربہ کہاں گیا ؟؟

یہ لوگ کب تک پاکستانیوں کو بے وقوف بناتے رہینگے؟

آف شور کمپنیاں کیا ہیں

آف شور کمپنیاں کیا ہیں ، ان میں کالے دھن سے سرمایہ کاری کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہو سکتی ہے ؟
پانامہ لیکس نے " آف شور " کمپنیوں کے پیچھے کار فرما بڑے بڑے سیاستدانوں اور شخصیات کا انکشاف کر دیا ہے . یہ آف شور کمپنیاں کیا ہیں ؟ یہ کس قانونی حیثیت کی حامل ہیں ؟ اور ان کے مقاصد کیا ہیں ؟ برطانیہ ، ماریشس اور قبرص سمیت لاطینی امریکہ کے کئی ممالک نے اپنے ساحلوں سے دور جزائر میں بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کے لئے آف شور کمپنیاں قائم کرنے کی اجازت دے رکھی ہے .
ایسی کمپنیوں کے اصل مالکان پس پردہ رہتے ہیں ، ان ممالک نے یہ کمپنیاں ایسے علاقوں یا جزائر میں قائم کرنے کی قانونی اجازت دے رکھی ہے جہاں ان کے ٹیکس کے قوائد و ضوابط اور قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا . دوسرے لفظوں میں آف شور کمپنیوں میں لگایا گیا سرمایہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتا ہے .
آف شور کمپنیاں قانونی ہیں تاہم ان میں لگائے گئے سرمائے کا جائز ہونا ضروری ہے . ان کمپنیوں میں بھی ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی رقم سے سرمایہ کاری نہیں کی جا سکتی . آف شور کمپنیوں کی دستاویزات وکلاء کے پاس ہوتی ہیں اور وکیل ہی تمام ڈاکو منٹیشن کرتے ہیں . جو لوگ کسی وجہ سے اپنا نام چھپانا چاہتے ہیں وہ ایسی کمپنیاں خرید کر سرمایہ کاری کرتے ہیں یا پھر کالے دھن کے ذریعے یہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے . کالے دھن سے آف شور کمپنیوں میں کی گئی سرمایہ کاری کے بارے میں وہ ممالک بھی کارروائی کر سکتے ہیں جن کے جزائر میں یہ کمپنیاں قائم ہوتی ہیں . پاکستانی قانون کے مطابق ان پاکستانیوں سے باز پرس کی جا سکتی ہے جو آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں . آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے لئے رقم کن ذرائع سے حاصل کی گئی ؟ یہ سوال ہر پاکستانی سے کیا جا سکتا ہے ، آف شور کمپنیوں کے مالک عوامی اور سرکاری عہدیدار ہوں تو ان سے قومی احتساب بیورو (نیب) بھی تفتیش کر سکتا ہے اور اگر یہ اثاثے چھپائے گئے ہوں یا پھر ناجائز ذرائع سے حاصل کئے گئے ہوں تو سرکاری اور عوامی عہدیداروں کو قید با مشقت کے علاوہ نااہلی کی سزا بھی دی جا سکتی ہے . جبکہ ٹیکس چھپانے کے جرم میں 3 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے . بیرون ملک آف شور کمپنیوں میں لگانے کے لئے رقم کو جائز ذرائع سے باہر بھیجنا ضروری ہے ، اگر غیر قانونی طور پر سرمایہ باہر بھیجا جائے تو یہ کالا دھن ہو گا جس پر کارروائی ہو سکتی ہے .
آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری وہاں کے قانون کے مطابق درست ہے لیکن ان اثاثوں کا پاکستان میں ظاہر کیا جانا ضروری ہے . جن جزائر میں آف شور کمپنیوں کی اجازت ہے وہاں ان کمپنیوں کے مالکان اور ڈائریکٹروں کے نام پوشیدہ رکھنے کی اجازت ہے تاہم یہ سرمایہ کہاں سے آیا ہے ، اس کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں تاہم یہ ممالک سرمایہ کاری کے حصول کے لالچ میں عملی طور پر اس بات سے نظریں چرا لیتے ہیں . پوری دنیا میں سرمایہ کے وسائل ظاہر کرنا ضروری ہیں ، یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص منشیات فروشی سے رقم حاصل کر کے آف شور کمپنی خرید لے . آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے والے پاکستانیوں سے پاکستانی حکومت یہ سوال کر سکتی ہے کہ اتنا بھاری سرمایہ کہاں سے آیا اور کیا اسے ملک سے باہر منتقل کرتے وقت ٹیکسوں کی ادائیگی سمیت تمام قانونی تقاضے پورے کئے گئے تھے ، اگر ان سوالوں سے حکومت مطمئن نہ ہو سکے تو متعلقہ لوگوں کے خلاف فوجداری اور دیگر قوانین کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے .
لوگ آف شور کمپنیوں کو منی لانڈرنگ کے لئے استعمال کرتے ہیں . ان میں زیادہ تر کالے دھن سے سرمایہ کاری کی جاتی ہے . آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری اگر بالکل صاف شفاف عمل ہے تو پھر پانامہ لیکس کی بنیاد پر یورپی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں تحقیقات کا عمل کیوں شروع ہو گیا ہے . آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری وہاں کے قانون کے مطابق جائز ہے تاہم اس کے لئے رقم کا جائز ذرائع سے حاصل کیا جانا ضروری ہے . جن ممالک کے شہری آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں ان ممالک کو سرمایہ کاروں کے اثاثوں کے بارے میں چھان بین کا اختیار حاصل ہے . آف شور کمپنیوں کے قانونی ہونے کی بنیاد پر کالے دھن اور ناجائز سرمائے کے بارے میں تحقیقات ، تفتیش اور کارروائی نہیں روکی جا سکتی ...