Friday 28 September 2018

ستائیس سال پردیس میں ہو چکے تھے۔


پیارے ابو جان اور امی جان​ مجھے آج ملک سے باہر پانچ سال ہو گئے اور میں اگلے ماہ اپنے وطن واپسی کا ارداہ کر رہا ہوں، میں نے اپنے ویزا کے لیے جو قرض لیا تھا وہ ادا کر چکا ہوں اور کچھ اخراجات پچھلی چھٹی پر ہو گئے تھے۔ تحفے تحائف لینے میں اور کچھ دیگر اخراجات۔ اب میرے پاس کوئی بڑی رقم موجود نہیں لیکن میری صحت ابھی ٹھیک ہے اور میں خود کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ پاکستان جا کر کوئی بھی اچھی نوکری کر سکوں اور گھر کے اخراجات چلا سکوں۔ یہ جگہ مجھے پسند نہیں ہے میں اپنے گھر رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں​ آپکا پیارا – جمال​
پیارے بیٹے جمال​ تمھارا خط ملا اور ہمیں تمھاری چھٹی کے بارے میں پڑھ کر خوشی ہوئی۔باقی تمھاری امی کہہ رہی تھی کہ گھر کی حالت بہت خراب ہو رہی ہے اور تم جانتے ہو برسات شروع ہونے والی ہے۔ یہ گھر رہنے کے قابل نہیں ہے۔ گھر چونکہ پرانی اینٹوں اورلکڑیوں سے بنا ہے اس لیے اس کی مرمت پر کافی خرچ آئے گا۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ کنکریٹ اور سیمینٹ سے بنا ہوا گھر ہو تو بہت اچھا ہو۔ ایک اچھا اور نیا گھر وقت کی ضرورت ہے۔ تم جانتے ہو یہاں کے کیا حالات ہیں اگر تم یہاں آ کر کام کرو گے تو اپنی محدود سی کمائی سے گھر کیسے بنا پاؤ گے۔ خیر گھر کا ذکر تو ویسے ہی کر دیا آگے جیسے تمھاری مرضی۔​ تمھاری پیاری امی اور ابو۔​
پیارے ابو جان اور امی جان​ میں حساب لگا رہاتھا آج مجھے پردیس میں دس سال ہو چکے ہیں۔ اب میں اکثر تھکا تھکا رہتا ہوں، گھر کی بہت یاد آتی ہے اور اس ریگستان میں کوئی ساتھی نہیں ہے۔ میں سوچ رہا ہوں اگلے ماہ ملازمت چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے گھر آجاؤں۔ دس سال کے عرصے میں الحمدللہ ہمارا پکا گھر بن چکا ہے اور جو ہمارے اوپر جو قرضے تھے وہ بھی میں اتار چکا ہوں۔ اب چاہتا ہوں کہ اپنے وطن آ کر رہنے لگ جاؤں۔ اب پہلے والی ہمت تو نہیں رہی لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ کر کے ، ٹیکسی چلا کے گھر کا خرچ چلا لوں گا۔ اس ریگستان سے میرا جی بھر گیا ہے۔ اب اپنے بچوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کی کیا رائے ہے۔​ آپکا پیارا – جمال​
پیارے بیٹے جمال​ تمھارا خط ملا اور ہم پچھتا رہے ہیں اس وقت کو جب ہم نے تمھیں باہر جانے دیا، تم ہمارے لیے اپنے لڑکپن سے ہی کام کرنے لگ گئے۔ ایک چھوٹی سے بات کہنی تھی بیٹا۔ تمھاری بہنا زینب اب بڑی ہو گئی ہے ، اس کی عمر ۲۰ سے اوپر ہو گئی۔ اس کی شادی کے لیے کچھ سوچا ، کوئی بچت کر رکھی ہے اس لیے کہ نہیں۔ بیٹا ہماری تو اب یہی خواہش ہے کہ زینب کی شادی ہو جائے اور ہم اطمینان سے مر سکیں۔ بیٹا ناراض مت ہونا ، ہم تم پر کوئی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔​ تمھاری پیاری امی اور ابو۔​
پیارے ابو جان اور امی جان​ آج مجھے پردیس میں چودہ سال ہو گئے۔ یہاں کوئی اپنا نہیں ہے۔ دن رات گدھے کی طرح کام کر کے میں بیزار ہو چکا ہوں، کمھار کا گدھا جب دن بھر کام کرتا رہتا ہے تو رات کو گھر لا کر اس کا مالک اس کے آگے پٹھے ڈال دیتا ہے اور اسے پانی بھی پلاتا ہے پر میرے لیے تو وہ بھی کوئی نہیں کرتا، کھانا پینا بھی مجھے خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ بس اب میں ویزا ختم کروا کر واپس آنے کا سوچ رہا ہوں۔ پچھلے کچھ سالوں میں اللہ کی مدد سے ہم زندگی کی بیشتر آزمائشوں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ زینب بہنا کی شادی ہو چکی ہے اور اب وہ اپنے گھر میں سکھی ہے۔ اس کے سسرال والوں کو خوش رکھنے کے لیے میں اکثر تحفے تحائف بھی بھیج دیتا ہوں۔ اللہ کے کرم سے آپ لوگوں کو میں نے حج بھی کروا دیا اور کوئی قرضہ بھی باقی نہیں ہے۔ بس کچھ بیمار رہنے لگا ہوں، بی پی بڑھا ہوا ہے اور شوگر بھی ہو گئی ہے لیکن جب گھرآؤں گا، گھر کے پرسکون ماحول میں رہوں گا اور گھرکا کھانا کھاؤں گا تو انشاء اللہ اچھا ہو جاؤں گا اور ویسے بھی اگر یہاں مزید رہا تو میری تنخواہ تو دوائی دارو میں چلی جائے گی وہاں آ کر کسی حکیم سے سستی دوائی لے کر کام چلا لوں گا۔ اب بھی مجھ میں اتنی سکت ہے کہ کوئی ہلکا کام جیسے پرائیویٹ گاڑی چلانا کر لوں گا۔​ آپکا پیارا – جمال​
پیارے بیٹے جمال​ بیٹا ہم تمھارا خط پڑھ کر کافی دیر روتے رہے۔ اب تم پردیس مت رہنا لیکن تمھاری بیوی زہرہ نے کچھ کہنا تھا تم سے ، اسکی بات بھی سن لو۔​ (بیوی ) پیارے جمال​ میں نے کبھی آپکو کسی کام کے لیے مجبور نہیں کیا اور کسی چیز کے لیے کبھی ضد نہیں کی لیکن اب مجبوری میں کچھ کہنا پڑ رہا ہے مجھے۔ آپکے بھائی جلال کی شادی کے بعد آپ کے والدین تو مکمل طور پر ہمیں بھول چکے ہیں ان کا تمام پیار نئی نویلی دلہن کے لیے ہے ، میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ وہ آبائی گھر جلال کو دینے کا سوچ رہے ہیں۔ ذرا سوچیے اگر آپ یہاں آ گئے اور مستقبل میں کبھی اس بات پر جھگڑا ہو گیا تو ہم اپنے چھوٹے چھوٹے بچے لے کر کہاں جائیں گے۔ اپنا گھر ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ آپ کو پتہ ہے سیمنٹ سریہ کی قیمتیں کتنی ہیں؟ مزدوروں کی دیہاڑی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ یہاں رہ کر ہم کبھی بھی اپنا گھر نہیں بنا سکیں گے۔ لیکن میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ آپ خود سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔​ آپکی پیاری جان۔ زہرہ​
پیاری شریک حیات زہرہ​ انیسواں سال چل رہا ہےپردیس میں، اور بیسواں بھی جلد ہی ہو جائے گا۔ اللہ کے فضل سے ہمارا نیا علیحدہ گھر مکمل ہو چکا ہے۔ اور گھرمیں آج کے دور کی تمام آسائشیں بھی لگ چکی ہیں۔ اب تمام قرضوں کے بوجھ سے کمر سیدھی ہو چکی ہے میری ، اب میرے پاس ریٹائرمنٹ فنڈ کے سوا کچھ نہیں بچا، میری نوکری کی مدت بھی اب ختم ہو گئی ہے۔ اس ماہ کے اختتام پر کمپنی میرا ریٹائرمنٹ فنڈ جو کہ ۲۵۰۰ ہزار ريال  ہےـ جاری کردے گی۔ اتنے لمبے عرصے اپنے گھر والوں سے دور رہنے کے بعد میں بھول ہی گیا ہوں کہ گھر میں رہنا کیسا ہوتا ہے۔بہت سے عزیز دنیا سے کوچ کر چکے ہیں اور بہت سوں کی شکل تک مجھے بھول گئی۔ لیکن میں مطمئن ہوں ، اللہ کے کرم ہے کہ میں گھر والوں کو اچھی زندگی مہیا کر سکا اور اپنوں کے کام آسکا۔ اب بالوں میں چاندی اتر آئی ہے اور طبیعت بھی کچھ اچھی نہیں رہتی۔ ہر ہفتہ ڈیڑھ بعد ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اب میں واپس آکر اپنوں میں رہوں گا۔ اپنی پیاری شریک حیات اور عزیز از جان بچوں کے سامنے۔​ تمھارا شریک سفر – جمال​
پیارے جمال​ آپ کے آنے کا سن کر میں بہت خوش ہوں۔ چاہے پردیس میں کچھ لمبا قیام ہی ہو گیا لیکن یہ اچھی خبر ہے ۔ مجھے تو آپکے آنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن بڑا بیٹا احمد ہے نا، وہ ضد کر رہا ہے کہ یونیورسٹی آف لاہور میں ہی داخلہ لے گا۔ میرٹ تو اس کا بنا نہیں مگر سیلف فنانس سے داخلہ مل ہی جائے گا۔ کہتا ہے کہ جن کے ابو باہر ہوتے ہیں سب یونیورسٹی آف لاہور میں ہی داخلہ لیتے ہیں۔ پہلے سال چار لاکھ فیس ہے اور اگلے تین سال میں ہر سال تین تین لاکھ۔ اور ہم نے پتہ کروایا ہے تو یونیورسٹی والے انسٹالمنٹ میں فیس بھرنے پر راضی ہو گئے ہیں۔ اس ماہ کی ۳۰ تک فیس کی پہلی قسط بھرنی پڑے گی،​ آپکے جواب کی منتطر ، آپکی پیاری جان۔ زہرہ​
اس نے بیٹے کی پڑھائی کے لیے ساری رقم بھیج دی۔ بیٹی کی شادی کے لیے جہیز اور دیگر اخراجات بھیجے۔ مگر اب ستائیس سال ہو چکے تھے۔ وہ خود کو ائر پورٹ کی طرف گھسیٹ رہا تھا۔ شوگر، بلڈ پریشر، السر ،گردے و کمر کا درد اورجھریوں والا سیاہ چہرا اس کی کمائی تھا۔ اسے اچانک اپنی جیب میں کسی چیز کی موجودگی کا احساس ہوا۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر دیکھا تو وہ ایک ان کھلا خط تھا۔​
یہ وہ پہلا خط تھا جو اس نے اپنی پردیس کی زندگی میں نہیں کھولا ۔

Wednesday 26 September 2018

نواز شریف کی چار سالہ کارکردگی

نواز شریف کی 4 سالہ کارگردگی ملاحظہ فرمائے
نواز شریف کی چار سالہ
کارکردگی ۔۔۔۔ !

سنا ہے نواز شریف نے چار سالوں میں پاکستان کو کہیں کا کہیں پہنچا دیا۔ آئیے ذرا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
معیشت ۔۔۔۔۔۔۔۔
جون 2013 میں پاکستان پر کل بیرونی قرضہ 48.1 ارب ڈالر تھا۔
جون 2017 میں پاکستان پر کل بیرونی قرضہ 78.1 ارب ڈالر ہے۔
یعنی صرف چار سالوں میں 30 ارب ڈالر کا ریکارڈ قرضہ لیا گیا۔ یہ اتنا زیادہ ہے کہ پاکستان پر عالمی مالیاتی اداروں کا بھروسہ ہی ختم ہوگیا اور تاریخ میں پہلی بار مزید قرضہ حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کے پاس اپنی موٹرویز ،ہوائی اڈے اور ریڈیو پاکستان کی عمارات گروی رکھوانی پڑیں ۔
مالی سال 2012/13 میں پاکستان کا کل تجارتی خسارہ 15 ارب ڈالر تھا۔
مالی سال 2016/17 میں کل تجارتی خسارہ 24 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔
یہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین تجارتی خسارہ ہے۔
2013 میں اندرونی قرضے 14318 ارب روپے تھے
2017 تک کل اندرونی قرضے 20872 ارب روپے ہوچکے ہیں۔
یہ اندرونی قرضوں کی بلند ترین سطح ہے۔
2013 میں پاکستان کی کل برآمدات 21 ارب ڈالر تھیں۔
2017 میں پاکستان کی کل برآمدات کم ہوکر 17 ارب ڈالر ہوگئ ہیں۔
برامدات کم ہونے کا اعتراف خود اسحاق ڈار نے اپنی بجٹ کی تقریر میں کیا ہے۔
2012/13 میں تین بڑے سرکاری اداروں پی آئی اے، پاکستان اسٹیل ملز اور پاکستان ریلوے کا کل خسارہ تقریباً 312 ارب روپے کےلگ بھگ تھا۔
2017 میں تینوں ادارہ کا مجموعی خسارہ 705 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔
یہ خسارہ بھی میاں صاحب کا ایک ریکارڈ ہے۔ اس سے قومی اداروں کی تباہی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
2013 گردشی قرضہ 400 ارب روپیہ
2017 گردشی قرضہ 500 ارب روپیہ
اگر آپ کو لگتا ہے کہ گردشی قرضے میں صرف 100 ارب کا اضافہ ہوا ہے تو آپکو غلط فہمی ہوئی ہے !
2013 میں نواز شریف نے قومی خزانے میں سے میاں منشاء کو نہایت خطرناک انداز میں یکمشت 480 ارب روپے کی ادائیگی کر دی تھی جس کے بعد گردشی قرضہ 0 ہو گیا تھا۔ یعنی 500 ارب کا یہ گردشی قرضہ اس کے بعد صرف ان چار سالوں میں چڑھا ہے۔ ۔۔۔۔ یہ ایک اور ریکارڈ ۔۔۔ :)
روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم ہو کر 92 سے 107 پر پہنچ چکی ہے۔ کچھ ماہرین کے تزدیک یہ 107 پر مصنوعی طور پر روکی گئی ہے درحقیقت یہ 120 تک کم ہوچکی ہے اور اسکا پتہ اچانک چلے گا جب یہ حکومت جائیگی۔
نواز شریف کے موجودہ دور می عالمی منڈی میں تیل کم ترین قیمت پر دستیاب رہا لیکن اسکا ذرا سا فائدہ بھی عوام تک نہیں پہنچنے دیا گیا اور ان چار سالوں میں اشیائے ضرورت کی قیمتیں جس طرح بڑھی ہیں اس پر الگ سے مضمون لکھنے کی ضورت ہے۔
تاریخ میں پہلی بار پاکستان میں زرعی ییدوار میں اضافے کے بجائے کمی ہوئی ہے اور پہلی بار کسانوں نے پارلیمنٹ ھاؤس کے سامنے احتجاج کیا اور منتخب جمہوری حکومت کے ڈنڈے بھی کھائے۔
پرویز مشرف کے شروع کیے گئے پراجیکٹ گوادر اور سی پیک کے روٹس میں من مانی تبدیلیاں کر کے پہلے اس کو متنازع بنایا گیا۔ اب سنا ہے چین کے ساتھ ایسے معاہدات کیے جا رہے ہیں جن سے خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ سی پیک جیسے عظیم منصوبےسے بھی پاکستان کے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا۔ ان معاہدات کی تفصیلات حکومت چھپا رہی ہے۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ پاک فوج کی اس محنت پر بھی پانی پھیرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
توانائی ۔۔۔۔۔۔۔
2013 بجلی کا شارٹ فال 5000 میگاواٹ
2017 بجلی کا شارٹ فال 7000 میگاواٹ
نہ صرف 2000 میگاواٹ کا شارٹ فال بڑھا ہے بلکہ 2013 میں بجلی کا بحران دور کرنے کے لیے 500 ارب روپے کی خطیر لاگت سے جن منصوبوں پر کام جاری تھا وہ بھی ایک ایک کر کے ناکام ہوگئے۔ ان میں نندی پور، قائداعظم سولر پارک اور نیلم جہلم جیسے منصوبے شامل ہیں۔ اور قوم کے مزید 500 ارب ڈوب گئے۔
دیامیربھاشا ڈیم کے لیے ہر سال 30 ارب روپے مختص کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن پھر وہ رقم کہیں اور ایڈجسٹ کر لی جاتی ہے۔ نتیجے میں دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر تو دور کی بات اب تک اس کے لیے جگہ بھی متعین نہیں کی جا سکی ہے!
نواز شریف کو یہ اعزاز حاصل رہے گا کہ اس کے دور میٰں پہلی بار گرمیوں میں لوڈ شیڈنگ اور پانی کی قلت کی وجہ سے صرف کراچی میں 1200 لوگ مر گئے۔ جبکہ تھرپاکر میں غذائی قلت سے سالانہ سینکڑوں بچے الگ مررہے ہیں۔
سفارت کاری ۔۔۔۔۔۔
پاک فوج نے کل بھوشن کی شکل میں جاسوسی کی تاریخ کی سب سے بڑی گرفتاری کی اور نواز حکومت کو موقع دیا کہ وہ انڈیا کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کرے۔ لیکن نواز شریف نے نہ صرف کل بھوشن کے معاملے میں مکمل طور پر چپ رہتے ہوئے اس تاریخی کامیابی کو مٹی میں ملا دیا بلکہ مبینہ طور پر انڈینز کو کل بھوشن کا معاملہ عالمی عدالت میں لے جانے کے لیے بھی معاونت کی.. 
 

 

Saturday 8 September 2018

Salsabeel : دنیا کی تاریخ میں کس نے سب سے زیادہ قتل کئے ھیں ؟

Salsabeel : دنیا کی تاریخ میں کس نے سب سے زیادہ قتل کئے ھیں ؟: دنیا کی تاریخ میں کس نے سب سے زیادہ قتل کئے ھیں ؟ 1- ھٹلر . آپ جانتے ھیں وہ کون تھا؟ وہ عیسائی تھا ، لیکن میڈیا نی کبھی اسکو عیسائی دھش...

دنیا کی تاریخ میں کس نے سب سے زیادہ قتل کئے ھیں ؟

دنیا کی تاریخ میں کس نے سب سے زیادہ قتل کئے ھیں ؟
1- ھٹلر .
آپ جانتے ھیں وہ کون تھا؟
وہ عیسائی تھا ، لیکن میڈیا نی کبھی اسکو عیسائی دھشت گرد نہیں کہا.
2. جوزف اسٹالن.
اس نے بیس ملین (ایک ملین -دس لاکھ کے برابر) انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا ، جسمیں سے ساڑھے چودہ ملین بھوک سے مرے . کیا وہ مسلم تھا؟
3. ماوزے تنگ.
اس نے چودہ سے بیس ملین انسانوں کو مارا .
کیا وہ مسلم تھا؟
4. مسولینی .
چار لاکھ انسانوں کا قاتل ھے کیا وہ مسلم تھا؟
5. اشوکا .
اس نے کلنگا کی جنگ میں ایک لاکھ انسانوں کو مارا.
کیا وہ مسلم تھا؟
6-جارج بش کی تجارتی پابندیوں کے نتیجے میں صرف عراق میں پانچ لاکھ بچے مرے.
انکو میڈیا کبھی دہشت گرد نھیں کھتا .
چند اور حقائق :
1- پہلی جنگ عظیم میں 17 ملین لوگ مرے اور جنگ کا سبب غیر مسلم تھے .
2-دوسری جنگ عظیم میں 50-55 ملین لوگ مارے گئے اور سبب؟ غیرمسلم .
3-ناگاساکی پر ایٹمی حملے میں 2 لاکھ لوگ مرے اور اسکا سبب؟ غیر مسلم
4. ویتنام کی جنگ میں 500000 اموات کا سبب بھی غیر مسلم .
5-بوسنیا کی جنگ میں بھی پانچ لاکھ موتیں ھوئیں سبب. غیرمسلم .
6-عراقی جنگ میں ابتک ایک کروڑ بیس لاکھ اموات کا سبب بھی غیر مسلم.
7-افغانستان. فلسطین اور برما میں خانہ جنگی کا سبب؟غیرمسلم
8-کمبوڈیا میں تقریبا 300000 موتوں کا سبب بھی غیر مسلم .
خلاصہ یہ کہ :
کوئی بھی دھشت گرد مسلمان نہیں.
اور کوئی مسلمان دھشت گرد نھیں .
اور سب سے اھم بات یہ کہ بڑی تباہی پھیلانے والے کسی بھی ہتھیار کے موجد مسلمان نھیں .
اور آج مبینہ دھشت گردوں کے ھاتھ میں جو ہتھیار ھیں وہ کسی "اسلامی فیکٹری " میں نھیں بنے .