Monday 25 December 2017

سنہ 2017 میں بالی ووڈ فلموں میں اداکاراؤں کی کمائی۔


بالی ووڈ فلموں میں ہیرو کے مقابلے میں اداکاراؤں کو حاصل ہوتی ہیں۔ 2017 کم کمانے والی اداکاراؤں کا ایک جھلک


فلم’ایم ایس دھونی‘کے ذریعے بالی ووڈ میں ڈیبیو کرنے والی اداکارہ دیشا پٹانی رواں سال معاوضہ حاصل کرنے والی اداکاراؤں میں سب سے پیچھے رہیں انہوں نے 2017 میں صرف ایک کروڑ روپے کمائے۔
دیشا پٹانی:

فلم’ایم ایس دھونی‘کے ذریعے بالی ووڈ میں ڈیبیو کرنے والی اداکارہ دیشا پٹانی رواں سال معاوضہ حاصل کرنے والی اداکاراؤں میں سب سے پیچھے رہیں انہوں نے 2017 میں صرف ایک کروڑ روپے کمائے۔



عالیہ بھٹ:
نامور بالی ووڈ اداکارہ عالیہ بھٹ کا شمار بالی ووڈ کی صف اول کی اداکاراؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے بہت کم وقت میں اپنی اداکاری کا لوہا منوایا۔ عالیہ بھٹ نے 2017 کی پہلی کامیاب فلم ’بدری ناتھ کی دلہنیا‘میں کام کیا  تاہم وہ رواں سال سب سے کم معاوضہ حاصل کرنےو الی اداکاراؤں میں شامل رہیں۔ عالیہ بھٹ کی 2017 کی کمائی محض 4کروڑ50لاکھ تھی۔
سوناکشی سنہا:
سوناکشی سنہا کے ستارے کافی عرصے سے گردش میں ہیں۔ رواں سال انہوں نے ’نور‘اور ’اتفاق‘نامی فلموں میں کام کیا لیکن شائقین کو متاثر کرنے میں ناکام رہیں انہوں نے 2017 میں 3 کروڑ70لاکھ معاوضہ حاصل کیا۔
شردھا کپور:
نامور بالی ووڈ اداکارہ شردھا کپور کے لیے 2017 زیادہ خاص ثابت نہیں ہوا۔ شردھا کی رواں سال تین فلمیں’او کے جانو‘،’ہاف گرل فرینڈ‘اور ’حسینہ پارکر‘ریلیز ہوئیں۔ جن میں سے صرف ’ہاف گرل فرینڈ ‘نے جزوی کامیابی حاصل کی جب کہ باقی دونوں فلمیں باکس آفس پر بری طرح ناکام ہوگئیں ۔ شردھا کپور کی رواں سال کمائی 3 کروڑ50لاکھ رہی۔
سونم کپور:
بھارتی اداکار انیل کپور کی بیٹی اور بالی ووٖڈ کی معروف اداکارہ سونم کپور نے رواں سال 2کروڑ50لاکھ روپے کمائے۔
پرینیتی چوپڑا:
نامور بالی ووڈ اداکارہ پرینیتی چوپڑا رواں سال فلموں سے زیادہ وزن کم کرنے کے باعث خبروں میں رہیں ۔ عشق زادے‘’ہنسی تو پھنسی‘جیسی کامیاب فلمیں دینے والی اداکارہ پرینیتی چوپڑا کی بھی اس سال دو فلمیں’میری پیاری بندو‘اور’گول مال اگین‘ریلیز ہوئیں۔ میری پیاری بندو تو باکس آفس پر ناکام ہوگئی لیکن گول مال اگین نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے۔ پرینتی چوپڑا نے رواں سال اپنی فلموں کے عوض 2 کروڑایک لاکھ کا معاوضہ حاصل کیا۔
الیانا ڈی کروز:
ساؤتھ انڈین فلموں سے مقبولیت حاصل کرنے والی خوبرو اداکارہ الیانا ڈی کروز نے بالی ووڈ میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایاہے۔ الیانا نے ’برفی‘،’میں تیرا ہیرو‘، ’پھٹاپوسٹرنکلاہیرو‘اور’رستم‘جیسی بہترین فلموں میں کام کیا ہے۔ جب کہ رواں سال وہ دو فلموں’مبارکاں‘اور’بادشاہو‘میں نظرآئیں اور ایک کروڑ 60 لاکھ معاوضہ حاصل کیا۔
جیکولین فرنینڈس:
فلم ’کک‘ سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی اداکارہ جیکولین فرنینڈس نے رواں سال ’ڈرائیو‘، ’اے جینٹل مین‘ اور جڑواں2‘میں کام کیا لیکن صرف ’جڑواں2‘ہی کامیاب ہوسکی باقی دونوں فلمیں کب سینما میں لگیں اور کب اترگئیں کسی کو پتہ نہیں چلا۔ انہوں نے 2017 میں ایک کروڑ50 لاکھ روپے کمائے۔

Wednesday 20 December 2017

Iqrar-ul-Hassan Bashing Gharida Farooqi For Harassing Domestic Worker

پردیس میں انیسواں سال چل رہا ہے




پیارے ابو جان اور امی جان​ مجھے آج ملک سے باہر پانچ سال ہو گئے اور میں اگلے ماہ اپنے وطن واپسی کا ارداہ کر رہا ہوں، میں نے اپنے ویزا کے لیے جو قرض لیا تھا وہ ادا کر چکا ہوں اور کچھ اخراجات پچھلی چھٹی پر ہو گئے تھے۔ تحفے تحائف لینے میں اور کچھ دیگر اخراجات۔ اب میرے پاس کوئی بڑی رقم موجود نہیں لیکن میری صحت ابھی ٹھیک ہے اور میں خود کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ پاکستان جا کر کوئی بھی اچھی نوکری کر سکوں اور گھر کے اخراجات چلا سکوں۔ یہ جگہ مجھے پسند نہیں ہے میں اپنے گھر رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں​ آپکا پیارا – جمال​
پیارے بیٹے جمال​ تمھارا خط ملا اور ہمیں تمھاری چھٹی کے بارے میں پڑھ کر خوشی ہوئی۔باقی تمھاری امی کہہ رہی تھی کہ گھر کی حالت بہت خراب ہو رہی ہے اور تم جانتے ہو برسات شروع ہونے والی ہے۔ یہ گھر رہنے کے قابل نہیں ہے۔ گھر چونکہ پرانی اینٹوں اورلکڑیوں سے بنا ہے اس لیے اس کی مرمت پر کافی خرچ آئے گا۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ کنکریٹ اور سیمینٹ سے بنا ہوا گھر ہو تو بہت اچھا ہو۔ ایک اچھا اور نیا گھر وقت کی ضرورت ہے۔ تم جانتے ہو یہاں کے کیا حالات ہیں اگر تم یہاں آ کر کام کرو گے تو اپنی محدود سی کمائی سے گھر کیسے بنا پاؤ گے۔ خیر گھر کا ذکر تو ویسے ہی کر دیا آگے جیسے تمھاری مرضی۔​ تمھاری پیاری امی اور ابو۔​
پیارے ابو جان اور امی جان​ میں حساب لگا رہاتھا آج مجھے پردیس میں دس سال ہو چکے ہیں۔ اب میں اکثر تھکا تھکا رہتا ہوں، گھر کی بہت یاد آتی ہے اور اس ریگستان میں کوئی ساتھی نہیں ہے۔ میں سوچ رہا ہوں اگلے ماہ ملازمت چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے گھر آجاؤں۔ دس سال کے عرصے میں الحمدللہ ہمارا پکا گھر بن چکا ہے اور جو ہمارے اوپر جو قرضے تھے وہ بھی میں اتار چکا ہوں۔ اب چاہتا ہوں کہ اپنے وطن آ کر رہنے لگ جاؤں۔ اب پہلے والی ہمت تو نہیں رہی لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ کر کے ، ٹیکسی چلا کے گھر کا خرچ چلا لوں گا۔ اس ریگستان سے میرا جی بھر گیا ہے۔ اب اپنے بچوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کی کیا رائے ہے۔​ آپکا پیارا – جمال​
پیارے بیٹے جمال​ تمھارا خط ملا اور ہم پچھتا رہے ہیں اس وقت کو جب ہم نے تمھیں باہر جانے دیا، تم ہمارے لیے اپنے لڑکپن سے ہی کام کرنے لگ گئے۔ ایک چھوٹی سے بات کہنی تھی بیٹا۔ تمھاری بہنا زینب اب بڑی ہو گئی ہے ، اس کی عمر ۲۰ سے اوپر ہو گئی۔ اس کی شادی کے لیے کچھ سوچا ، کوئی بچت کر رکھی ہے اس لیے کہ نہیں۔ بیٹا ہماری تو اب یہی خواہش ہے کہ زینب کی شادی ہو جائے اور ہم اطمینان سے مر سکیں۔ بیٹا ناراض مت ہونا ، ہم تم پر کوئی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔​ تمھاری پیاری امی اور ابو۔​
پیارے ابو جان اور امی جان​ آج مجھے پردیس میں چودہ سال ہو گئے۔ یہاں کوئی اپنا نہیں ہے۔ دن رات گدھے کی طرح کام کر کے میں بیزار ہو چکا ہوں، کمھار کا گدھا جب دن بھر کام کرتا رہتا ہے تو رات کو گھر لا کر اس کا مالک اس کے آگے پٹھے ڈال دیتا ہے اور اسے پانی بھی پلاتا ہے پر میرے لیے تو وہ بھی کوئی نہیں کرتا، کھانا پینا بھی مجھے خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ بس اب میں ویزا ختم کروا کر واپس آنے کا سوچ رہا ہوں۔ پچھلے کچھ سالوں میں اللہ کی مدد سے ہم زندگی کی بیشتر آزمائشوں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ زینب بہنا کی شادی ہو چکی ہے اور اب وہ اپنے گھر میں سکھی ہے۔ اس کے سسرال والوں کو خوش رکھنے کے لیے میں اکثر تحفے تحائف بھی بھیج دیتا ہوں۔ اللہ کے کرم سے آپ لوگوں کو میں نے حج بھی کروا دیا اور کوئی قرضہ بھی باقی نہیں ہے۔ بس کچھ بیمار رہنے لگا ہوں، بی پی بڑھا ہوا ہے اور شوگر بھی ہو گئی ہے لیکن جب گھرآؤں گا، گھر کے پرسکون ماحول میں رہوں گا اور گھرکا کھانا کھاؤں گا تو انشاء اللہ اچھا ہو جاؤں گا اور ویسے بھی اگر یہاں مزید رہا تو میری تنخواہ تو دوائی دارو میں چلی جائے گی وہاں آ کر کسی حکیم سے سستی دوائی لے کر کام چلا لوں گا۔ اب بھی مجھ میں اتنی سکت ہے کہ کوئی ہلکا کام جیسے پرائیویٹ گاڑی چلانا کر لوں گا۔​ آپکا پیارا – جمال​
پیارے بیٹے جمال​ بیٹا ہم تمھارا خط پڑھ کر کافی دیر روتے رہے۔ اب تم پردیس مت رہنا لیکن تمھاری بیوی زہرہ نے کچھ کہنا تھا تم سے ، اسکی بات بھی سن لو۔​ (بیوی ) پیارے جمال​ میں نے کبھی آپکو کسی کام کے لیے مجبور نہیں کیا اور کسی چیز کے لیے کبھی ضد نہیں کی لیکن اب مجبوری میں کچھ کہنا پڑ رہا ہے مجھے۔ آپکے بھائی جلال کی شادی کے بعد آپ کے والدین تو مکمل طور پر ہمیں بھول چکے ہیں ان کا تمام پیار نئی نویلی دلہن کے لیے ہے ، میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ وہ آبائی گھر جلال کو دینے کا سوچ رہے ہیں۔ ذرا سوچیے اگر آپ یہاں آ گئے اور مستقبل میں کبھی اس بات پر جھگڑا ہو گیا تو ہم اپنے چھوٹے چھوٹے بچے لے کر کہاں جائیں گے۔ اپنا گھر ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ آپ کو پتہ ہے سیمنٹ سریہ کی قیمتیں کتنی ہیں؟ مزدوروں کی دیہاڑی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ یہاں رہ کر ہم کبھی بھی اپنا گھر نہیں بنا سکیں گے۔ لیکن میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ آپ خود سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔​ آپکی پیاری جان۔ زہرہ​
پیاری شریک حیات زہرہ​ انیسواں سال چل رہا ہےپردیس میں، اور بیسواں بھی جلد ہی ہو جائے گا۔ اللہ کے فضل سے ہمارا نیا علیحدہ گھر مکمل ہو چکا ہے۔ اور گھرمیں آج کے دور کی تمام آسائشیں بھی لگ چکی ہیں۔ اب تمام قرضوں کے بوجھ سے کمر سیدھی ہو چکی ہے میری ، اب میرے پاس ریٹائرمنٹ فنڈ کے سوا کچھ نہیں بچا، میری نوکری کی مدت بھی اب ختم ہو گئی ہے۔ اس ماہ کے اختتام پر کمپنی میرا ریٹائرمنٹ فنڈ جو کہ ۲۵۰۰ ہزار ريال  ہےـ جاری کردے گی۔ اتنے لمبے عرصے اپنے گھر والوں سے دور رہنے کے بعد میں بھول ہی گیا ہوں کہ گھر میں رہنا کیسا ہوتا ہے۔بہت سے عزیز دنیا سے کوچ کر چکے ہیں اور بہت سوں کی شکل تک مجھے بھول گئی۔ لیکن میں مطمئن ہوں ، اللہ کے کرم ہے کہ میں گھر والوں کو اچھی زندگی مہیا کر سکا اور اپنوں کے کام آسکا۔ اب بالوں میں چاندی اتر آئی ہے اور طبیعت بھی کچھ اچھی نہیں رہتی۔ ہر ہفتہ ڈیڑھ بعد ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اب میں واپس آکر اپنوں میں رہوں گا۔ اپنی پیاری شریک حیات اور عزیز از جان بچوں کے سامنے۔​ تمھارا شریک سفر – جمال​
پیارے جمال​ آپ کے آنے کا سن کر میں بہت خوش ہوں۔ چاہے پردیس میں کچھ لمبا قیام ہی ہو گیا لیکن یہ اچھی خبر ہے ۔ مجھے تو آپکے آنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن بڑا بیٹا احمد ہے نا، وہ ضد کر رہا ہے کہ یونیورسٹی آف لاہور میں ہی داخلہ لے گا۔ میرٹ تو اس کا بنا نہیں مگر سیلف فنانس سے داخلہ مل ہی جائے گا۔ کہتا ہے کہ جن کے ابو باہر ہوتے ہیں سب یونیورسٹی آف لاہور میں ہی داخلہ لیتے ہیں۔ پہلے سال چار لاکھ فیس ہے اور اگلے تین سال میں ہر سال تین تین لاکھ۔ اور ہم نے پتہ کروایا ہے تو یونیورسٹی والے انسٹالمنٹ میں فیس بھرنے پر راضی ہو گئے ہیں۔ اس ماہ کی ۳۰ تک فیس کی پہلی قسط بھرنی پڑے گی،​ آپکے جواب کی منتطر ، آپکی پیاری جان۔ زہرہ​
اس نے بیٹے کی پڑھائی کے لیے ساری رقم بھیج دی۔ بیٹی کی شادی کے لیے جہیز اور دیگر اخراجات بھیجے۔ مگر اب ستائیس سال ہو چکے تھے۔ وہ خود کو ائر پورٹ کی طرف گھسیٹ رہا تھا۔ شوگر، بلڈ پریشر، السر ،گردے و کمر کا درد اورجھریوں والا سیاہ چہرا اس کی کمائی تھا۔ اسے اچانک اپنی جیب میں کسی چیز کی موجودگی کا احساس ہوا۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر دیکھا تو وہ ایک ان کھلا خط تھا۔​
یہ وہ پہلا خط تھا جو اس نے اپنی پردیس کی زندگی میں نہیں کھولا ۔

Monday 4 December 2017

فری لانسنگ کے لیے بہترین پلیٹ فارمز

Upwork

اس ویب سائٹ کا قیام 2015 میں دو مشہور ویب سائٹس oDesk اور Elance کے اشتراق کے بعد ہوا۔ یہ اس وقت دنیا میں سب سے بڑی ویب سائٹ ہے، کمائی کے اعتبار سے بھی اور کام کے لحاظ سے بھی۔ روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں کلائنٹس (clients) اپنے کام کی تفصیل مہیا کرتے ہیں اور فری لانسرز ان پر اپنے پروپوزلز ارسال کرتے ہیں، جس کا پروپوزل کلائنٹ کو پسند آجائے اسے کام مل جاتا ہے۔
کام کرنے کی نوعیت دو طرح کی ہوتی ہے۔ یا تو پورے کام کی ایک مقررہ قیمت طے کر لیں یا گھنٹوں کے حساب سے پیسے چارج کریں۔ البتہ دونوں صورتوں میں کام کرنے کے پیسے بروقت ملیں گے۔ اگر کسی وجہ سے کلائنٹ پیسے نہیں دیتا تو Upwork اس معاملے میں آپ کو پورا تعاون فراہم کرے گا۔

Fiverr

اس وقت Fiverr دنیا کی دوسری بڑی ویب سائٹ بن چکی ہے. کام ڈھونڈھنے کے اعتبار سے Fiverr ،Upwork سے قدرے مختلف ہے۔ یہاں پر آپ اپنے کام کی ایک سروس بناتے ہیں جسے gig کہا جاتا ہے۔ Gig میں آپ اپنے کام کی نوعیت اور قیمت وغیرہ کی تفصیل بیان کرتے ہیں، ہر gig کی کم سے کم قیمت $5 ہوتی ہے، لیکن اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ آپ اس سے ذیادہ نہیں کما سکتے۔ جتنا بڑا کام ہوگا اس کے پیسے بھی اسی مناسبت سے طے کر لیے جائیں گے۔ یہاں پیسے کے معاملات کی فکر کرنے کی بالکل ضرورت نہیں کیونکہ کام کے آغاز میں ہی Fiverr کلائنٹ سے سارے پیسے وصول کر لے گا اور کام ختم ہونے کے بعد آپ کے پیسے آپ کے اکاؤنٹ میں شامل ہو جائیں گے۔
ان دو ویب سائٹس کے علاوہ فری لانسنگ کےلیے بہترین ویب سائٹس Freelancer.com ،Peopleperhour.com اور Guru.com ہیں۔ ان تینوں ویب سائٹس پر بھی کام وافر مقدار میں موجود ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ اس وقت سینکڑوں فری لانسنگ ویب سائٹس موجود ہیں۔ کسی بھی ویب سائٹ پر کام کرنے سے پہلے بس دو چیزیں مدِنظر رکھیں۔ ایک تو یہ کہ روزانہ کی بنیاد پر کتنی جابس پوسٹ ہوتی ہیں، اور دوسرا کیا کام کے پیسے ملتے ہیں یا نہیں۔ ساتھ ہی اس ویب سائٹ کی Terms of service بھی پڑھنی چاہیے۔ عمومی طور پر کام کرنے کا طریقہ کار تو ایک سا ہوتا ہے لیکن پھر بھی ہر ویب سائٹ کی اپنی پالیسی ہوتی ہے، اگر اس پر عمل نہ کیا جائے تو ویب سائٹ آپ کا اکاؤنٹ بند کرسکتی ہے۔
آخر میں ایک اور غلط فہمی دور کرنا چاہوں گا کہ فری لانسنگ صرف ڈویلپمنٹ (development)، ڈیزائنگ(designing) اور لکھنے (writing) کے کام تک محدود نہیں۔ یقیناً ان کاموں کی ڈیمانڈ اور قیمت زیادہ ہوتی ہے لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے آسان کام ہیں جنہیں کرکے اچھی کمائی کی جا سکتی ہے۔

Sunday 3 December 2017

Salsabeel : ’25 سال قبل صرف بابری مسجد نہیں ٹوٹی بلکہ بہت کچھ ...

Salsabeel : ’25 سال قبل صرف بابری مسجد نہیں ٹوٹی بلکہ بہت کچھ ...: BBC URDU رام دت ترپاٹھی سینیئر صحافی، انڈیا 25 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود چھ دسمبر کی یاد آتے ہی میں خود کو مان...

’25 سال قبل صرف بابری مسجد نہیں ٹوٹی بلکہ بہت کچھ ٹوٹا‘

25 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود چھ دسمبر کی یاد آتے ہی میں خود کو مانس بھون کی چھت پر پاتا ہوں اور بابری مسجد کے انہدام کا پورا منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔
مانس بھون وہی دھرم شالہ جہاں میں اس واقعے سے دس سال قبل سنہ 1982 میں ایک بار ٹھہرا تھا۔ ایک صحافی دوست نے متنازع بابری مسجد دکھائی تھی جس کے باہری حصے میں ایک چبوترے پر کیرتن بھجن ہوتا تھا اور لوگ ’سیتا رسوئی‘ (سیتا کے کچن) اور رام کے ’کھڑاون‘ کے خیالی مقامات کے سامنے سر جھکاتے تھے۔
اس رام چبوترے پر طویل عرصے سے رامانندی فرقے کے نرموہی اکھاڑے کا قبضہ تھا۔ نرموہی اکھاڑا سوا سو سال سے زائد عرصے سے وہاں مندر کی تعمیر کے لیے قانونی جنگ لڑ رہا تھا۔
مسجد کے اندر سنہ 1949 میں 22 اور 23 دسمبر کی درمیانی شب ضلع مجسٹریٹ کی مدد سے رام کی بچپن کی مورتی رکھی گئی۔
اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے مسجد سے مورتی ہٹانے کا حکم دیا لیکن ضلع مجسٹریٹ نے اس پر عمل کرنے سے انکار کردیا۔
اسی وقت سے عدالت نے مسجد سیل کر کے نگران تعینات کر دیا۔ باہر پولیس کا پہرہ بٹھا دیا گيا اور عدالت کا مقرر کردہ پجاری وہاں پوجا کیا کرتا تھا۔
سنگھ پریوار یعنی ہندوتوا کے نظریات کی حامل جماعتیں طویل عرصے سے ایسے مسئلے کی تلاش میں تھیں جس کے ذریعہ ذات پات میں منقسم ہندو برادری کو یکجا کیا جا سکے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اسی مقصد کے تحت سنہ 1984 میں رام جنم بھومی کی آزادی کی تحریک شروع کی گئی تھی۔
اس مہم کی وجہ سے یکم فروری سنہ 1986 میں عدالت نے متنازع احاطے کے تالے کھلوئے۔ جواب میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔
دریں اثنا معاملہ ضلع عدالت سے نکل کر لکھنؤ ہائی کورٹ تک پہنچ گیا۔
سنہ 1989 کے عام انتخابات سے قبل مصالحت کی امید میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے مسجد سے تقریبا 200 فٹ کے فاصلے پر رام مندر کا سنگ بنیاد رکھوا دیا۔
راجیو گاندھی کو انتخابات میں شکست ہوئی جبکہ وی پی سنگھ اور چندرشیکھر کی حکومت میں بھی مصالحت کی تمام تر کوششیں بے کار ثابت ہوئیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینیئر رہنما لال کرشن اڈوانی نے گجرات کے سومناتھ مندر سے رام مندر کے لیے رتھ یاترا نکال کر سیاسی طوفان کھڑا کر دیا۔
سنہ 1991 میں کانگریس ایک بار پھر دہلی میں بر سر اقتدار آئی اور پی وی نرسمہا راؤ وزیر اعظم بنے لیکن رام مندر کی تحریک کے طفیل انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں پہلی بار کلیان سنگھ کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت بنی۔
کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا کہ وہ مسجد کی حفاظت کریں گے جس کے بعد عدالت نے وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کو علامتی کار سیوا کی اجازت دے دی۔
دوسری جانب وی ایچ پی اور بی جے پی کے رہنماؤں نے ملک بھر میں گھوم گھوم کر لوگوں سے بابری مسجد کو نیست نابود کرنے کی قسم لی تھی۔
ان کی حوصلہ افزائی کے لیے کلیان سنگھ نے اعلان کیا تھا کہ پولیس کار سیوکوں پر فائرنگ نہیں کرے گی۔
اس سے قبل سنہ 1990 میں ملائم سنگھ یادو نے کار سیوکوں پر فائرنگ کرائی تھی اور مسجد کی حفاظت کی تھی۔
کلیان سنگھ حکومت نے متنازع کیمپس کے قریب مجوزہ رام پارک کی تعمیر کے لیے وی ایچ پی کو 42 ایکڑ زمین دے دی تھی۔
اس کے علاوہ سیاحت کے فروغ کے نام پر بہت سے مندروں اور دھرم شالاؤں کی زمین حاصل کرکے اسے ہموار کر دیا گیا تھا اور فیض آباد - ایودھیا شاہراہ سے براہ راست متنازع مقام تک چوڑی سڑک تعمیر کر دی گئی تھی۔
ملک بھر سے آنے والے کارسیوکوں کے قیام کے لیے متازع احاطے سے ملحق شامیانے اور ٹینٹ لگائے گئے تھے۔ انھیں لگانے کے لیے کدال، بیلچے اور رسیاں بھی لائی گئیں جو بعد میں مسجد کے گنبد پر چڑھنے اور اسے توڑنے کے کام میں آئیں۔
مجموعی طور پر متنازع مقام کے آس پاس کے علاقے پر کار سیوکوں کا ہی قبضہ تھا۔ ان لوگوں نے چار پانچ دن قبل ہی بعض قریبی مزاروں کو نقصان پہنچا کر اور مسلمانوں کے مکانوں کو آگ لگا کر اپنی جارحیت کا اظہار کر دیا تھا۔
اس کے باوجود سپریم کورٹ کے مقرر کردہ مبصر ضلعی جج پریم شنکر گپتا کہہ رہے تھے کہ علامتی کار سیوا پر امن طور پر کرانے کے لیے سارے انتظام اچھی طرح سے کیے گئے ہیں۔
ایک دن قبل یعنی پانچ دسمبر کو وی ایچ پی کے رہنما نے باضابطہ یہ اعلان کیا کہ وہاں صرف علامتی کارسیوا (پوجا) ہوگی۔ فیصلے کے مطابق کارسیوک دریائے سرجو سے پانی اور ریت لے کر آئیں گے اور مسجد سے کچھ فاصلے پر سنگ بنیاد کی جگہ اسے نذر کر کے واپس ہو جائیں گے۔
جیسے ہی اس کا اعلان ہوا کار سیوکوں میں غصہ پھیل گیا۔ جب وی ایچ پی کے اعلیٰ رہنما کارسیوک پورم پہنچے تو مشتعل کارسیوکوں نے انھیں گھیر لیا اور بہت بھلا برا کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ رہنما کچھ بھی کہیں وہ اصلی کارسیوا یعنی مسجد کو منہدم کرکے ہی جائيں گے۔
شام تک کارسیوکوں نے کئی ٹی وی رپورٹرز اور کیمرہ مین کے ساتھ مار پیٹ کی۔
دوسری طرف بی جے پی کے رہنما اٹل بہاری واجپئی نے ایک عام اجلاس میں کارسیوکوں کی یہ کہتے ہوئے حوصلہ افزائی کی کہ سپریم کورٹ نے اس کی اجازت دی ہے۔
واجپئی شام کی ٹرین سے دہلی چلے گئے جبکہ ایل کے اڈوانی اور ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی رات میں وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ سے بات چیت کر کے ایودھیا پہنچ گئے۔
چھ دسمبر کی صبح جہاں ایودھیا میں ’جے شری رام‘ کے نعرے گونج رہے تھے وہیں فیض آباد چھاؤنی کے علاقے میں بڑی تعداد میں مرکزی نیم فوجی دستے اس تیاری میں تھے کہ جیسے ہی بلاوا آئے گا وہ ایودھیا کو کوچ کر دیں گے۔ فوج اور فضائيہ بھی نگرانی پر تعینات تھی۔
یہ ایک حقیقت کہ ریاستی حکومت نے ان کی تعیناتی پر اعتراض کیا تھا۔ یعنی ریاستی حکومت کی جانب سے واضح تھا کہ کار سیوکوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔
مانس بھون کی چھت پر جہاں ہم صحافی یکجا تھے مسجد اس کے بالکل سامنے تھی۔ دائیں طرف پر جنم بھومی (مقام پیدائش) کے مندر کی چھت پر کمشنر، ڈی آئی جی اور پولیس کے اعلی افسر تھے۔
اور مانس بھون کی بائیں جانب رام کتھا کنج میں ایک اجلاس عام رکھا گیا تھا جہاں اشوک سنگھل، اڈوانی، جوشی، اوما بھارتی اور دیگر رہنما جمع تھے۔

مسجد اور مانس بھون کے درمیان سنگ بنیاد کے مقام کو پوجا کا مقام بنایا گیا تھا جہاں مہنت رام چندر پرمہنس اور دیگر سادھو سنیاسی جمع تھے۔ اسی جگہ پر گیارہ بجے سے علامتی پوجا ہونی تھی۔
آر ایس ایس کے اراکین سر پر زعفرانی پٹی باندھے حفاظت کے لیے تعینات تھے۔ ان کے پیچھے پولیس رسّہ لے کر تیار تھی تاکہ مخصوص لوگ ہی وہاں تک جا سکیں۔
تقریباً 10:30 بجے ڈاکٹر جوشی اور اڈوانی یگیہ کی جگہ پہنچے۔ ان کے ساتھ بہت سے کارسیوک وہاں داخل ہونے لگے۔ پولیس نے روکا لیکن انھوں نے بات نہیں مانی۔
اس کے بعد زعفرانی پٹی والے رضاکاروں نے ان پر لاٹھی چلانی شروع کر دی جس پر وہاں سخت ہلچل نظر آئی۔ دیکھتے دیکھتے سینکڑوں کارسیوک مسجد کی جانب دوڑتے نظر آئے۔ مسجد کی حفاظت کے لیے چاروں جانب لوہے کا جال لگایا گيا تھا۔
پیچھے سے ایک گروپ نے درخت پر رسّہ پھینک کر مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ وی آئی پی کے لیے تعینات پولیس نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن چند ہی منٹوں میں ایک ایک کرکے بہت سے کارسیوک مسجد کے گنبد پر نظر آنے لگے۔
انھیں دیکھ کر یہ نعرے گونجنے لگے: ’ایک دھکا اور دو، بابری مسجد کو توڑ دو۔‘




جلسہ گاہ سے اشوک سنگھل اور دیگر رہنماؤں نے کار سیوکوں سے نيچے اترنے کی اپیل بھی کی لیکن ان کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
کدال، بیلچہ جس کے ہاتھ جو سامان آیا اسی سے گنبد توڑنے لگا۔ بعض ہاتھوں سے ہی چونے سرخی سے بنی اس عمارت کو توڑنے لگے۔
اور مسجد کی حفاظت پر تعینات مسلح سکیورٹی فورسز کندھے پر رائفلیں لٹکائے باہر نکل آئے۔ سارے افسران لاچار کھڑے تماشائی تھے۔
اسی دوران کارسیوکوں کے ایک گروپ نے آس پاس کے سارے ٹیلی فون تار کاٹ ڈالے۔ ان کا ایک گروپ مانس بھون پر چڑھ آیا اور تصاویر لینے سے منع کرنے لگا۔ میں نے اپنا کیمرہ ایک خاتون صحافی کے بیگ میں چھپا دیا۔
لیکن بہت سے فوٹوگرافروں کے کیمرے کو چھین کر انھیں مارا پیٹا گیا۔
12 بجے تک مسجد توڑنے کا کام اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔
اڈوانی کو یہ خدشہ تھا کہ نیم فوجی مرکزی فورس یا فوج فیض آباد سے آ سکتی ہے۔ لہذا انھوں نے لوگوں سے وہاں سے آنے والی سڑک کو جام کرنے کی اپیل کی۔




کہتے ہیں کہ کلیان سنگھ تک جب یہ خبر پہنچی تو انھوں نے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفی دینے کی پیشکش کی لیکن اڈوانی نے انھیں یہ پیغام دیا کہ جب تک مسجد گر نہ جائے وہ استعفی نہ دیں، کیونکہ استعفی دیتے ہی ریاست مرکز کے کنٹرول میں چلی جائے گی۔
اسی دوران کچھ پجاری رام اور لکشمن کی مورتیاں نکال لائے۔
دیکھتے دیکھتے پانچ بجے تک مسجد کے تینوں گنبد مسمار ہو چکے تھے۔ اس کے بعد ہی کلیان سنگھ نے استعفی پیش کیا۔
شام تک ریاست میں صدر راج نافذ ہو چکا تھا لیکن انتظامیہ کو سمجھ نہیں آیا کہ کیا کرنا ہے؟ بہر حال کارروائی کے خوف سے کارسیوک چپکے چپکے ایودھیا سے نکلنے لگے۔ بعض لوگ بطور نشانی مسجد کی اینٹ اپنے ساتھ لے چلے۔
اڈوانی، جوشی اور واجپئی جیسے بڑے رہنماؤں نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا۔
پولیس نے مسجد منہدم کیے جانے پر ہزاروں نامعلوم کار سیوکوں کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا۔ چند منٹ بعد، بی جے پی اور وی ایچ پی کے آٹھ بڑے رہنماؤں کے اشتعال انگیز تقریر کرنے کا مقدمہ دائر کیا گیا۔
وزیراعظم نرسمہا راؤ دن بھر خاموش تھے لیکن شام کو انھوں نے نہ صرف اس واقعے کی مذمت کی بلکہ مسجد کی دوبارہ تعمیر کی بات بھی کی۔
مرکزی حکومت کی ہدایت پر خصوصی ٹرینیں اور بسیں چلائی گئیں، جس سے کارسیوک اپنے گھروں کو جا سکیں اور انتظامیہ بغیر طاقت کا استعمال کیے متنازع مقام پر کنٹرول کر سکے۔






دوسری جانب منہدم مسجد کے ملبے پر ایک گروپ نے ایک عارضی مندر کی تعمیر شروع کر دی اور وہاں مورتیاں رکھ دی گئیں۔
سات دسمبر کی رات تک یہ جاننے کی کوشش کرتے رہے کہ انتظامیہ کب وہاں اپنا کٹرول قائم کرتی ہے۔ اچانک صبح چار بجے کچھ ہلچل سی نظر آئي۔ جب ایودھ پہنچے تو دیکھا کہ انتظامیہ نے باقی ماندہ چند کارسیوکوں کو بھگا کر عارضی مندر کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔
اور نیم فوجی دستے کے سپاہی عقیدت اور احترام میں رام (کے بچپن کی مورتی) کی زیارت کر رہے ہیں اور آشیرواد لے رہے ہیں۔
ہم نے بھی کچھ تصاویر لیں اور افسروں سے بات کی۔
بی بی سی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ مسجد کے منہدم ہونے اور متنازع مقام پر انتظامیہ کے کنٹرول کی خبر سب سے پہلے اسی نے دی۔
اب اگر آپ چھ دسمبر کے پورے واقعے پر نظر ڈالیں تو آپ پائیں گے کہ اس دن صرف بابری مسجد نہیں توٹی بلکہ اس دن ہندوستان کے آئین کی تینوں شاخ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کی ساکھ بھی ٹوٹ گئی۔
طاقت کو تقسیم کرنے کی وفاق کا مفروضہ ٹوٹا، قانون کی حکمرانی کی بنیاد ٹوٹی، جمہوریت کا چوتھا ستون یعنی میڈیا بھی کارسیوکوں کے حملے کا شکار ہوا اور اس کے ساتھ ہی سنگھ پریوار کا ڈسپلین کا دعوی بھی ٹوٹا۔
ہر چیز کے ٹوٹنے کے باوجود گذشتہ 25 سالوں میں تنازع جوں کا توں ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی ایودھیا کا سرا نظر نہیں آر رہا ہے۔

Wednesday 29 November 2017

Salsabeel : فلم ٹائٹینک میں روز نے جیک کو تختے پر جگہ کیوں نہی...

Salsabeel : فلم ٹائٹینک میں روز نے جیک کو تختے پر جگہ کیوں نہی...: BBC URDU ہالی وڈ کی مقبول فلم 'ٹائٹینک' ایک حقیقی حادثے پر مبنی ایسی فلم ہے جس میں ایک داستان محبت کو پروان چڑھتے دیکھا جا ...

فلم ٹائٹینک میں روز نے جیک کو تختے پر جگہ کیوں نہیں دی؟



BBC URDU
ہالی وڈ کی مقبول فلم 'ٹائٹینک' ایک حقیقی حادثے پر مبنی ایسی فلم ہے جس میں ایک داستان محبت کو پروان چڑھتے دیکھا جا سکتا ہے۔
فلم کا انجام انتہائی دردناک ہے جس میں ہیرو اپنی محبوبہ کو بچانے کے لیے اپنی جان دے دیتا ہے اور محبوبہ اس کی محبت دل میں چھپائے زندگی گزار دیتی ہے۔
یہ فلم 'آر ایم ایس ٹائٹینک' نامی جہاز کی کہانی ہے جو انگلینڈ کے ساؤتھ ایمپٹن سے نیویارک کے پہلے سفر کے دوران 14 اپریل سنہ 1912 کو بحر اوقیانوس میں حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس حادثے میں 1500 سے زائد مرد، خواتین اور بچے ہلاک ہو گئے تھے۔ ٹائٹینک کے غرق ہونے سے قبل گھنٹوں جہاز پر کیا ہوتا رہا اس کے بارے میں بہت سے افسانے اور کہانیاں ہیں۔ لیکن سنہ 1997 میں بننے والی جیمز کیمرون کی فلم سب سے زیادہ مقبول ہوئی۔
فلم کے اختتام پر یہ منظر سامنے آتا ہے کہ جہاز کے غرقاب ہونے کے بعد جیک اور روز کو ایک لکڑی کا تختہ مل جاتا ہے جس پر دونوں سوار ہونے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ سمندر کے یخ بستہ پانی میں زیادہ دیر رہنا موت کو دعوت دینا ہے۔
لیکن جب دونوں تختے پر بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں تو تختہ ڈوبنے لگتا ہے اور دونوں کا وزن ایک ساتھ نہیں اٹھا پاتا ہے۔ بہر حال تختہ اتنا بڑا تھا کہ دونوں اس پر سوار ہو سکتے تھے۔
بہت سے ناظرین کے دل میں یہ سوال پیدا ہوئے کہ کیا واقعی دونوں کی جان نہیں بچ سکتی تھی کیا واقعی وہ تختہ ان دونوں کا وزن اٹھانے لائق نہیں تھا؟
فلم ساز جیمز کیمرون سے کئی بار یہ سوال پوچھا گیا اور اب انھوں نے اس کا جواب دیا ہے۔
وینٹی فيئر کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان سے پوچھا گیا کہ روز نے جیک کو تختے پر جگہ کیوں نہیں دی؟
انھوں نے کہا: ’اس کا سہل سا جواب یہ ہے کہ سکرپٹ کے 147 ویں صفحے پر لکھا گیا تھا کہ جیک مر گیا۔ یہ فنی اعتبار سے کیا جانے والا فیصلہ تھا۔‘
کیمرون نے کہا: 'وہ تختہ صرف اتنا ہی بڑا تھا کہ وہ روز کو سنبھال لے، دونوں کو نہیں۔۔۔ یہ بہت بچگانہ بات ہے کہ فلم کے 20 سال بعد بھی ہم اسی کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ لیکن اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ فلم اس قدر متاثر کن رہی اور جیک لوگوں کو اتنا پیارا لگا کہ ناظرین کو اس کا مر جانا غمزدہ کر گیا۔'
انھوں نے کہا: 'اگر وہ زندہ رہتا تو فلم کا اختتام بے معنی ہو جاتا۔۔۔ یہ فلم موت اور علیحدگی پر مبنی تھی۔ فلم میں جیک کو مرنا ہی تھا۔ اگر اس طرح نہیں مرتا تو اس پر جہاز کا کوئی ٹکڑا گرتا، آخر میں اسے مرنا ہی تھا۔ اسے ہی آرٹ کہتے ہیں اور بعض چیزیں طبعیات کے اصول کے بجائے فنی نقطۂ نظر سے لکھی جاتی ہیں۔‘
ان سے دوسرا سوال کیا گیا جس میں پوچھا گیا کہ آپ طبعیات کے سلسلے میں بہت سنجیدہ ہیں تو پھر ایسا کیوں ہوا۔
انھوں نے جواب دیا: ’ہاں میں ہوں۔ دو دنوں تک میں لکڑی کے اس تختے پر دو لوگوں کو بیٹھا کر دیکھنے کی کوشش کرتا رہا کہ وہ دو لوگوں کا وزن نہ اٹھا سکے جبکہ ایک کا بار اٹھا لے کیونکہ یخبستہ پانی میں روز اس پر بیٹھے اور وہ نہ ڈوبے۔'
انھوں نے کہا: 'جیک کو پتہ نہیں تھا کہ ایک گھنٹے لائف بوٹ اسے بچانے آ جائے گی۔ اس سے قبل وہ مر چکا تھا۔ فلم میں آپ نے جو دیکھا اس کے بارے میں یہ خیال تھا اور آج بھی ہے کہ ایک ہی کو بچنا تھا۔‘


Monday 27 November 2017

Salsabeel : فوج اپنے کام سے کام رکھے : جن فوجیوں کو ریاست کا ش...

Salsabeel : فوج اپنے کام سے کام رکھے : جن فوجیوں کو ریاست کا ش...: دھرنے کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے آج فرمایا: فوج کو کس نے آئینی اختیار دیا کہ وہ...

فوج اپنے کام سے کام رکھے : جن فوجیوں کو ریاست کا شوق ہے وہ فوج چھوڑ کر سیاست میں آجائیں ، جسٹس شوکت عزیز نے فوج کو کھری کھری سنا دیں


دھرنے کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے آج فرمایا:

فوج کو کس نے آئینی اختیار دیا کہ وہ دھرنے والوں اور حکومت کے درمیان ضامن بنے؟


ایجنسیوں نے تیسری مرتبہ اسلام آباد میں دھرنا کروایا - اگر فوج نے سیاست کرنی ہے تو استعفی دے کر سیاست میں آجائے

ختم نبوت ﷺ کیلئے میں نے بھی جیلیں کاٹی ہیں، مجھ سے بڑا عاشق رسول ﷺ کون ہوگا ؟

وجہ تلاش کی جائے کہ اسلام آباد انتظامیہ کیوں ناکام ہوئی اور اسے ناکام بنانے والا کون تھا؟

جسٹس شوکت صدیقی پزل کا وہ آخری ٹکڑا تھا جسے جوڑنے کے بعد تمام منظر بالکل واضح دکھائی دینے لگتا ہے۔

22 دن سے اسلام آباد مفلوج تھا، حکومت کی نااہلی کی وجہ سے پورے ملک میں دھرنے والوں کے حق میں جذبات ہموار ہورہے تھے، پھر چند روز قبل اسی جسٹس شوکت صدیقی نے دھرنے کے خلاف سخت ایکشن لینے کا حکم صادر کردیا۔ اس حکم کا مخاطب وزارت داخلہ ہی تھی کیونکہ اسلام آباد کی انتظامیہ پنجاب حکومت یا پنجاب پولیس کے نیچے نہیں آتی۔

پھر جب اسلام آباد انتظامیہ نے دھرنے کے خلاف آپریشن لانچ کیا تو انتظامیہ کی نااہلی کھل کر سامنے آگئی۔ پورے ملک میں آگ لگ گئی اور حکومتی اراکین کا پبلک میں نکلنا مشکل ہوگیا۔ ن لیگی اراکین نے استعفی دینے شروع کردیئے۔

یہ وہ وقت تھا کہ اگر دھرنے والے اعلان کردیتے کہ عدالتوں اور پارلیمنٹ پر قبضہ کرلو تو یہ جج اس وقت نالہ لئی کے کنارے کسی جھگی میں بیٹھ کر چائے پی رہے ہوتے۔

پلان بالکل واضح تھا۔ انتظامیہ کے زریعے آگ بھڑکائی جائے اور پھر فوج کو بلا کر براہ راست عوام کے سامنے لا کھڑا کردیا جائے۔ جنرل باجوہ پر قادیانی ہونے کا الزام پہلے ہی لگ چکا، جب فوج ختم نبوت ﷺ پر کئے گئے دھرنے کے مظاہرین پر قوت کا استعمال کرتی تو پوری فوج پر قادیانی ہونے کا لیبل لگ جاتا۔ پھر فوجیوں کیلئے اپنی وردی میں باہر نکلنا بھی مشکل ہوجاتا۔ یوں پاکستان ایک ناکام ریاست کا منظر پیش کرتا، غالباً یہی وہ وقت ہوتا جب اقوام متحدہ کے زریعے قرارداد منظور کروا کر پاکستان کے حساس مقامات کی تحفظ کیلئے انٹرنیشنل فوجوں کے دستے تعینات کرنے پر کام شروع ہوجاتا۔

دھرنے والے حکومت پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھے، انہیں کسی کی ضمانت درکار تھی اور اس مقصد کیلئے ان کی واحد شرط فوج تھی۔ چنانچہ اس ساری صورتحال کو ڈی فیوز کرنے کیلئے ایک میجر جنرل صاحب ضمانتی بنے اور دونون کے درمیان معاہدے کی شرائط پر اپنی ضمانت دی جس سے دھرنا ختم ہوا۔

چونکہ سازش ناکام ہوگئی تھی اس لئے جسٹس شوکت صدیقی نے آج بطور جج اپنے کیرئیر میں پانچویں مرتبہ ملکہ جذبات بنتے ہوئے آنسوؤں کی لڑیاں بہاتے ہوئے اوپر بیان کئے گئے الفاظ کو بطور آبزرویشن سماعت کا حصہ بنایا۔

کیا آئین کسی فوج کو اتنظامیہ اور مظاہرین کے درمیان ضامن بننے سے روکتا ہے؟ کوئی ایک ایسی شق جو فاضل جج صاحب بطور ریفرینس بتا سکیں، بڑی عنایت ہوگی۔

دوسری بات جو یہ جج بھول گیا تھا وہ یہ کہ دو دن قبل وزارت داخلہ آئین کے آرٹیکل کے تحت فوج کو اسلام آباد طلب کرچکی تھی اور اس آرٹیکل کے تحت فوج کے پاس وہ تمام انتظامی اختیارات آجاتے ہیں جو پولیس، کمشنرز اور مجسٹریٹس کے پاس ہوتے ہیں۔ ان اختیارات میں صرف گولی یا لاٹھی چارج ہی شامل نہیں ہوتا بلکہ مذاکرات بھی شامل ہوتے ہیں اور انہی کے تحت پاک فوج نے دھرنے کو پرامن طریقے سے ڈی فیوز کروانے میں اپنا کردار ادا کیا۔

اب آجائیں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف۔

موصوف گورڈن کالج سے پڑھے ہیں، جہاں ان کے قریبی عزیز اور نوازشریف کے مشیر جناب عرفان صدیقی بھی غالباً پڑھایا کرتے تھے۔ جج صاحب زمانہ طالبعلمی میں جمیعت کا حصہ رہے اور بعد میں جماعت اسلامی میں شامل ہوکر الیکشن بھی لڑتے رہے اور حسب توفیق ہارتے رہے۔

ابھی چند ماہ گزرے ہیں جب موصوف اپنے آپ کو ناموس رسالت ﷺ کا سب سے بڑا نگہبان ڈیکلئیر کرکے آبزریشن جاری کرچکے کہ ناموس رسالت ﷺ کی خاطر پوری سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ بھی بند کرنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں۔

آج ختم نبوت ﷺ کی خاطر جب مظاہرین نے صرف فیض آباد بند کیا تو یہی جج منہ سے آگ برساتے ہوئے ان مظاہرین کے خلاف پوری شدت سے کاروائی کرنے کا حکم دینے لگ گیا۔

یاد رہے، یہ وہی جج صاحب ہیں جن پر سی ڈی اے کے حکام نے جوڈیشل کمیشن میں کاروائی کی درخواست دی تھی۔ موصوف دو مرتبہ گھر الاٹ کروا چکے، کروڑوں روپوں سے تزئین و آرائش کروا چکے، اپنے دوست کی بیٹی کو لاکھوں روپے تنخواہ پر نوکری دلوا چکے اور اس کے علاوہ پتہ نہیں کہاں کہاں سے مراعات بھی حاصل کرچکے اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہی کیا۔

جج صاحب معمہ کا وہ آخری ٹکڑا ہیں جو اس پورے معاملے کی منظرکشی واضح کردیتا ہے۔ جج صاحب، آپ نے اپنے منصب کا جس طرح استعمال کیا، اس کا جواب آپ سے اللہ ہی لے گا!!! بقلم خود باباکوڈا

Sunday 26 November 2017

Traders shut down major markets in Lahore as ‘anti-blasphemy’ protests intensify

LAHORE – Traders at Lahore’s prominent markets have announced to shut down their business on Monday in the wake of anti-blasphemy protests that have nearly paralysed the whole country.
A complete shutter down strike will be observed in all major markets. These include Auto Market Badami Bagh, Hall Road, Sarafa (gold) Bazaar, Anarkali bazaar, Urdu Bazaar, McLeod Road Market, Bradenth Road, Medicine markets, Hafeez Centre, Bilal Ganj market, Shah Alam Market, Goods Transport Agencies, Ganpat Road paper market, Ichhra Bazaar, Bandhan Road markets, Azam Cloth market, Chungi Amar Sadhu markets, Circular Road, Akbari Mandi and many others.
The announcement follows the deadly clashes in the federal capital on Saturday, where Islamabad Police along with FC troops launched ‘Faizabad Operation’ to uproot a protest sit-in by the demonstrators.
Following the operation, protests were started in major cities of the country. Rangers were called in Punjab to maintain law and order.
The protesters have been blocking the Islamabad expressway, the main road into the capital, since November 8, demanding the resignation of Federal Law Minister Zahid Hamid over a perceived softening of the state’s position on blasphemy.

Army was called in Saturday night to restore order to the capital after clashes between the protesters and police left at least six dead, including a police official, and 200 people injured.

Salsabeel : ختم نبوتﷺپرغیرمشروط ایمان رکھتاہوں

Salsabeel : ختم نبوتﷺپرغیرمشروط ایمان رکھتاہوں: مجهے ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺳﮑﺎﻟﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ .. " ﮬﻤﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﻐﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ' ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﻻﺋﻒ ﺳﭩﺎﺋﻞ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﮬﻮ...

ختم نبوتﷺپرغیرمشروط ایمان رکھتاہوں


مجهے ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺳﮑﺎﻟﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ .. " ﮬﻤﯿﮟ ﮐﭽﮫ
ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﻐﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ '
ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﻻﺋﻒ ﺳﭩﺎﺋﻞ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ' ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﺎﻡ

ﺷﺮﻋﯽ ﻋﯿﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮬﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ ' ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﺍﺳﻼﻡ
ﺍﻭﺭ
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺑﺎﺭﮎ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ
ﺫﮐﺮ ﺁﺗﺎ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﮐﭩﺮ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﮐﮯ ﺭﺩِ
ﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﻮﺗﺎ .. ﮐﯿﻮﮞ .. ؟
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ .. " ﯾﮧ ﻭﮦ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺑﺎﺕ ﮬﮯ ﺟﺴﮯ ﻣﻐﺮﺏ
ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﺳﮑﺘﺎ .. ﯾﮧ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻮﺩﮮ ﮬﻮﺗﮯ
ﮬﯿﮟ ..
ﺍﻭﺭ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻮﺩﮮ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﯿﻮﭘﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ
ﺁﺳﮑﺘﮯ ..
ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺑﺎﺭﮎ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ
ﺫﺍﺕ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻭﮦ ﺣﺴﺎﺱ ﺭﮒ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺑﺮﻑ ﺳﮯ
ﺑﻨﮯ
ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺁﮒ ﮐﺎ ﺑﮕﻮﻟﮧ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ .. ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺩﻧﯿﺎ
ﮐﮯ
ﮬﺮ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﭘﺮ ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﮧ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﮬﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ
ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺑﺎﺭﮎ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﭘﺮ
ﮐﺒﮭﯽ
ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ..
ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺁﮒ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺟﻼﺗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ' ﺍﺳﮯ
ﺑﻨﺎﺗﯽ ﮬﮯ .. ﺍﺳﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺯﻧﺪﮦ ﮐﺮﺗﯽ ﮬﮯ .. ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺍﻭﺭ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ
ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﯿﻔﯿﺖ ' ﺍﺱ ﺳﺮﻭﺭ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ
ﺳﮑﺘﮯ ..
ﺗﻢ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ
ﻭﺁﻟﮧ
ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺑﺎﺭﮎ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﻣﺰﮦ ﭼﮑﮭﺎ ﮬﯽ ﻧﮩﯿﮟ ..

Saturday 25 November 2017

ڈی این اے ٹیسٹ کیا ہے




ہمارے جسم کے ہر ایک سیل میں ڈی این اے موجود ہوتا ہے جو دو کروموسوم پر مشتمل ہوتاہے جن میں ہر شخص کی انفرادی خصوصیات کا مظہر موجود ہوتا ہے اور یہی خصوصیات آئندہ نسل میں بھی منتقل ہوتی ہیں جس کی وجہ سے آئندہ نسل شکل و صورت، قد و کاٹھ اور عادت و اطوار کے لحاظ سے پچھلی نسل سے مشابہت رکھتی ہے۔

حادثات میں ڈی این اے ٹیسٹ ہی وہ واحد طریقہ رہ جاتا ہے جس کے ذریعے لاشوں کو شناخت کر کے لواحقین کے حوالے کیا جاتا ہے جس کے بعد تدفین کا مرحلہ طے پاتا ہے تا ہم اس ٹیسٹ کے پروسیجر میں ایک ہفتہ بھی لگ سکتاہے۔

ڈی این اے میں موجود جینیٹک کوڈ کے تقابلی جانچ سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ دو مختلف اشخاص میں کوئی خونی رشتہ ہے کہ نہیں، اسی لیے جھلسی ہوئی یا ناقابل شناخت لاشوں کے ڈی این اے نمونے لے کر دعوی دار لواحقین کے نمونوں سے ملایا جاتا ہے اگر جینیٹک کوڈ یکساں پائے گئے تو مرنے والے کا لواحقین سے خونی رشتہ ثابت ہو جاتا ہےاور میت ورثاء کے حوالے کر دی جاتی ہے۔

تمام انسانوں میں جینیٹک کوڈ یکساں ہی ہوتا ہے تا ہم معمولی سا فرق ضرور ہوتا ہے جو ایک انسان کی خصوصیات کو دوسرے خاندان سے علیحدہ کرتا ہے اسے جینیٹک مارکر کہا جاتا ہے اسی کی مدد سے لواحقین کا پتہ چلائے جانے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

ڈی این اے چونکہ جسم کے ہر حصے میں پایا جاتا ہے لہذا جلد سے لے کر دل تک اور خون سے لے کر ہڈیوں تک کہیں سے بھی تشخیصی نمونہ لیا جا سکتا ہے۔
تاہم زیادہ تر فرانزک سائنس دان جاں بحق افراد کے ناخن کے نیچے والی جلد سے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونہ حاصل کرتے ہیں اس نمونے کو لواحقین کے لیے گئےخون کے نمونے سے ملایا جاتا ہے اگر جینیٹک کوڈ یکساں آ جائے تو ثابت ہو جاتا ہے کہ جاں بحق ہونے والا شخص اس ہی خاندان کا ممبر تھا۔

جاں بحق افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے لیے گئے نمونے سے پولی میرز طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے ڈی این اے کی سیکڑوں کاپیاں بنا لی جاتی ہیں یہ طریقہ کار نہ صرف یہ کہ قدرتی ہے بلکہ محفوظ ترین بھی ہے جس میں مختلف اینزائمز کے ذریعے جینیٹک کوڈ بنائے جاتے ہیں اور پھر ان جینیٹک کوڈ کا تقابل لواحقین میں سے کسی شخص سے لیے گئے جینیٹک کوڈ سے کیا جاتا ہے اور جینیٹک کوڈ میچ کر جانے پر لاش کو متعلقہ لواحقین کے حوالے کردیا جاتا ہے۔

اس طریقہ کار میں غلطیوں کا اندیشہ نہ ہونے کے برابر ہے تاہم پاکستان میں فرانزک لیب، فرانزک سائنس دان اور ماہر عملے کی کمی کے باعث اس ٹیسٹ کو انجام دینے میں کافی مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور اس کو مکمل ہونے میں ہفتہ بھی لگ جاتا ہے۔

دنیا بھر میں فرانزک لیب میں ڈی این اے ٹیسٹ کی دستیابی ماہر چوروں کی گرفتاری اور عادی مجرم کو پکڑنے میں کار کرگر ثابت ہوتی ہے جب کہ اسی کے ذریعے کئی ایسے مقدمات کی گتھی سلجھائی گئی ہے جو کرائم کی دنیا میں نا قابلِ تفتیش سمجھے جاتے تھے اور اس ٹیسٹ سے قبل داخلِ از دفتر کردیے جاتے تھے۔

شناختی کارڈ کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ لازمی قرار

سعودی عرب میں لاگر کیئے گئے نئے قانون کے مطابق قومی شناختی کارڈ کے حصول کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کرانا لازمی قرار دیدیا گیا ہے ٹیسٹ کے منفی آنے پر شناختی کارڈ جاری نہیں کیا جائے گا۔
بین الااقوامی خبر رساں ایجنسی کے مطابق شناختی کارڈ کے اجراء کو ڈی این اے ٹیسٹ سے مشروط کرنے والا یہ قانون محکمہ احوال مدینہ اور علماء بورڈ نے مشاورت کے بعد ترتیب دیا ہے جو کہ وراثت کے مسائل کو بہ خوبی نمٹنے کے لیے مرتب کیا گیا ہے.
اس ترمیم شدہ لائحہ عمل میں واضح کیا گیا ہے کہ سعودی عرب کے شہری کو والدین کے انتقال کے بعد شناختی کارڈ بنوانے کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ لازمی کرانا ہوگا اس کے بعد ہی وہ وراثت میں حصہ دار ہونے کا دعوی کرسکتا ہے.

اس قانون کے تحت مقررہ عمر تک پہنچنے کے بعد شناختی کارڈ بنوانا لازمی ہو گا اگر 20 سال کی عمر کو پہنچنے کے باوجود شناختی کارڈ نہ بنوایا تو والد اور اگر والد انتقال  ہوچکے ہیں تو بڑے بھائی سے باز پرس کی جائے گا.
تاہم یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ ایسی کسی صورت حال میں قومی شناختی کارڈ اس وقت تک جاری نہیں کیا جائے گا تا وقت یہ کہ وہ ڈی این اے ٹیسٹ نہ کرا لے جس کے بعد ہی شناختی کارڈ جاری کیا جائے گا اور ترکہ کا حق حاصل ہوسکے گا.
ترکہ اور وراثت کے معاملات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ایک طویل نشست میں مشاورت کے بعد علماء بورڈ نے بھی اس قانون کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد یہ قانون آئندہ ہفتے سے نافذ العمل ہوگا.

Black Friday

In the 1980s, the term “Black Friday” began to be used by retailers to refer to the single day of the year when retail companies finally go “into the black” (make a profit) after being "in the red" for much of the year.
But that's not the only theory behind the name.

Rumours have also circulated that the term came from an invented tradition to sell slaves the day after Thanksgiving, while others think its original could be much more recent.

Traffic trouble

According to Joseph P. Barrett, who was police reporter for the Philadelphia Bulletin, the term "Black Friday" came out of the old Philadelphia Police Department's traffic squad.
In an article from 1994, the late journalist wrote that the cops used the term to describe the horrible traffic jams that happened when people poured into town on the Friday after Thanksgiving.

He wrote: "It was the day that Santa Claus took his chair in the department stores and every kid in the city wanted to see him. It was the first day of the Christmas shopping season. Schools were closed. Late in the day, out-of-town visitors began arriving for the Army-Navy football game.

"Every 'Black Friday', no traffic policeman was permitted to take the day off. The division was placed on 12 tours of duty, and even the police band was ordered to Center City."
"Today the term seems lost in antiquity, but it was a traffic cop who started it, the guy who directed traffic with a semaphore while standing on a small wooden platform, in the days before traffic lights."
In the early 1960s, Barrett put together a front-page story for Thanksgiving and appropriated the police term "Black Friday" to describe the terrible traffic conditions.

The name stuck and began spreading across the US, and then the globe.

Black Friday has also been used historically to refer to any awful event that happens on that day.
The first recorded use of Black Friday was applied not to holiday shopping but to the crash of the U.S. gold market on September 24, 1869, caused by two unscrupulous criminals.
Two ruthless Wall Street financiers, Jay Gould and Jim Fisk, worked together to buy up as much as they could of the nation’s gold, to drive the price sky-high and sell it for huge profits.

But on that Friday, the conspiracy collapsed and the market went into free fall and bankrupted everyone from Wall Street bankers to farmers.
Another Black Friday, January 31, 1919, refers to the Battle of George Square in Glasgow - one of the most intense riots in the city's history.
It has also been used to refer to bad days of battle in the Second World War, devastating Australian bush fires and a peaceful protest in Malé, the capital of the Maldives, which saw police firing tear gas on protestors.

Tuesday 21 November 2017

How to Transfer Balance From Zain or STC To Ufone, Telenor, Jazz




Transfer Mobile Balance From Saudi Arabia To Pakistani Mobile Networks




Many of us are living in Saudi Arabia are confused that is it possible to transfer my mobile Balance from KSA to Pakistan. Yeah its totally possible and its very simple to Share balance from your KSA mobile to any of Pakistani mobile network. below are the step by step method.


From Zain to Pakistani mobile number:  dial *111*Pakistani Number*amount#'

you should type 0092 before any pakistani mobile number


For Example: if you want to send 20 riyals to pakistani number.

dial  *111*0092xxxx*20#



From STC Sawa to Pakistani mobile number:
  write 133*pakistani number*1 and send 801500

you will get a confirmation message. reply with Y and the balance will be transfered.


More details:

 - always put 0092 before any pakistani number.

For STC Sawa things are different.

   for amount you choose 1 for 100PKR, 2 for 250 and 3 for 500PKR.
and the prices are as follows.

100 PKR : 5 SAR
250 PKR : 12 SAR
500 PKR : 23 SAR



if you have a question in mind feel free to ask us in the comments below, also share this amazing website with your friends and family, after all sharing is caring.

Thursday 16 November 2017

40سالہ ازدواجی زندگی میں46کاببلو،44کی پشپااور42کاڈبلو

او کون لوگ او تسی یدی دیو کنجرو ؟؟🤔🤔میاں ساب نےآج40سالہ ازدواجی زندگی میں46کاببلو،44کی پشپااور42کاڈبلوپیداکرنےکاانکشاف کرکےمیڈیکل سائنس میں تہلکہ مچادیاہےمیاں ساب نےآج40سالہ ازدواجی زندگی میں46کاببلو،44کی پشپااور42کاڈبلوپیداکرنےکاانکشاف کرکےمیڈیکل سائنس میں تہلکہ مچادیاہے

Thursday 9 November 2017

’’کیوں نکالا ‘‘

رہزن کو سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلہ میں’’کیوں نکالا‘‘ کا تسلی بخش جواب مل گیا اب عالمی لٹیرے جواب دیں کہ پاکستان کو ’’کیوں لوٹا ‘‘۔قوم نے خزانے کی چابیاں دے کر امانت سونپی تھی اس میں خیانت کیوں کی، سپریم کورٹ میں جھوٹے بیا ن حلفی جمع کرانے والوں کو اعلیٰ عدلیہ کے خلاف مہم جوئی پر شرم آنی چاہیے ۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے آئینی اداروں سے 3سوالات کرتے ہوئے کہا کہ نیب اور حکومت جواب دے قومی لٹیروں کو گرفتار کیوں نہیں کیا ؟ای سی ایل پر کیوں نہیں ڈالا؟ جیل کیوں نہیں بھیجا؟ جعلی حلف نامے دینے والوں کو فوری جیل نہ بھیج کر سپریم کورٹ نے بھی نرمی دکھائی ۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ نواز شریف جھوٹ، فراڈ اور بے ایمانی کا دوسرا نام ہے۔سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے بعد نواز شریف کی لوٹ مار کے حوالے سے ہر قسم کا ابہام ختم ہو گیا

Saturday 4 November 2017

.شرمین عبید بد کردار عورت

وطن فروش……….شرمین عبید بد کردار عورتوں کی حرکات سے ملک بدنام ہو رہا ہے – اور ان سے چھٹکارہ بہت مشکل ہے – کیونکه ان کی رسیاں حکومت کے ہاتھ میں ہیں – حکومت اور ان جیسے تمام اداکار ملک بھر میں پھیلے ہوۓ ہیں – اور ان کی تعداد سینکڑوں نہیں , ہزاروں میں ہے – عاصمہ جہانگیر(sold out ) , نجم سیٹھی , جگنو سیٹھی , پرویز ہود بھائی , ماروی سرمد , ایک لمبی لسٹ ہے – ان سب کی منزل اکھنڈ بھارت بنانا ہے – اور ہم لوگوں کو ان کی چالاکی سمجھ نہیں آ رہی – کیونکه یہ بہت ہوشیاری سے ہم لوگوں کو زہر جلیبی میں ڈال کر دے رہے ہیں….
-عریب لاچار تیزاب سے متاثرہ چہرے والی عورت کے چہرے پے کھڑی اس بے غیرت عورت کی شہرت اس نے جو اس غربت کی ماری عورت کے ساتھ جو کیا اللہ کرے اس کے ساتھ وہ ہو جس کا اس نے کھبی سوچا بھی نہ ہو……

انصاف ہو رہا ہے

دو دن پہلے لندن کے ایک ہسپتال میں
عجیب واقعہ ہوا
میاں نواز شریف اس ہسپتال گئے تو ایک پاکستانی نژاد برطانوی ان پر الفاظ کے ذریعے حملہ آور ہوا ،اور اتنے شدید غصے میں نواز شریف پر چیختا رہا
گو نواز گو ان کے منہ پر کہا ،لووٹر اور جور جیسے الفاظ سے نوازہ ،عجیب
لوگ ہیں یہ کافر بھی ،کوئی دوسرے انسان کو دھکا بھی نہیں دے سکتا ،تھپڑ مارنا تو درکنار ،اور حیرت ہے جو لوگ پاکستان میں پورا ٹبر مروا دیتے ہیں ،وہاں بھیگی بلی بنے ہوتے ہیں ،اور سر جھکا کر بھاگنے کو ترجیح دیتے ہیں
یہاں پولیس مار مار کر بھرکس نکال دیتی ہے ،وہاں پولیس ٹس سے مس نہیں ہوتی
نواز شریف اسحاق ڈار ،احسن اقبال ،فضل الرحمن اور شرجیل میمن کی بھی اسی طرح پاکستانی حوصلہ افزائی کر چکے ہیں ،اور وہ بھی بھاگتے بنے ،
ایک شاپنگ سٹور میں کلثوم نواز اور حسن نواز کے ساتھ یہی ہوا
کچھ عرصہ پہلے ایک عربی نے نواز شریف کو اللہ کا دشمن کہہ کر مخاطب کیا
اور ہر دفعہ نواز شریف کو نہ غصہ آتا ہے ،نہ تھپڑ مارتے ہیں ،حتی کہ گالی تو
پنجابی ویسے ہی دیتے رہتے ہیں ،وہ بھی نہیں ،اور بھاگتے بنے
خانہ کعبہ کا مطاف ہو ،مسجد نبوی کا حرم ہو ،یا کوئی اور جگہ جہاں پاکستانی ہوں
وہ حکمرانوں کو دیکھتے ہی سیخ پا ہو جاتے ہیں ،احتجاج ہم نے پچھلے 50 سال سے دیکھے ہیں ،لیکن یہ ذلت آمیز احتجاج نہیں ،دیکھا ،نواز شریف کے پاس جتنی دولت ہے ،اس کی سات پشتیں لندن میں بیٹھ کر کھا سکتی ہیں ،،لیکن حوس ختم نہیں ہوتی ،اتنی بے عزتی ،ہر روز بے عزتی ،میڈیا ذلیل کرتا ہے ،ہر مسخرہ جگتیں مارتا ہے ،سوشل میڈیا پر گالیاں ،یار کوئی حد ہوتی ہے
انسان اتنا اقتدار کیلئے بھی گر سکتا ہے پہلی دفعہ دیکھا ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے ،آدم کا بیٹا بوڑھا ہوتا ہے اور اس میں دو چیزیں جوان ہوتی ہیں ،حرص علی المال و حرص علی العمر ،یعنی مال کی حرص اور لمبی عمر کی حرص ،اور فرمایا ،اگر کسی کے پاس سونے کی دو وادیاں بھی ہوں تو یہی خواہش کرے گا ،کاش ایک تیسری بھی ہوتی
اقامے نکل رہے ہیں ،گھر کی خادمہ ،اور سیلون حمام کے
یہ کالا دھن چھپانے کے سیلون ہیں ،سرعام دن دیہاڑے جھوٹ بولے جا رہے ہیں
ایک دوسرے کو نا صرف جور کہہ رہے ہیں بلکہ ثابت کر رہے ہیں
اور اب چور قانون بنا رہے ہیں کہ چور جب تک خود نہ مانے کہ وہ چور
اس پر چوری ثابت نہیں کی جا سکتی ،شہزادی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے ،وزیر اعظم لوگوں کے ووٹوں سے آتا ہے ،اسے کسی عدالت کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ، عدالتیں صرف ووٹروں کیلئے ہیں اور جیلیں بھی ،اور تھانے اور پولیس کے ڈنڈے مقدس ووٹروں کیلئے ہیں ،انکی کوئی عزت نہیں ،لیکن انکے ووٹ اتنا مقدس ہے کہ کسی عدالت میں اسے سزا نہیں ہو سکتی
عدالتیں ختم کرو ،نیب ختم کرو ،جیلیں ختم کرو ،اور موج کرو
قتل کرکے قاتل پہلی ہی پیشی پر وکٹری کا نشان بناتے با عزت بری ہو رہے ہیں
مقتول پہلی ہی پیشی پر عدالت یہ ثابت کرتی ہے واپس آ گیا ہے ،لواحقین جھوٹے ہیں
86 ارب ڈالر کہاں گئے ،کوئی پتہ نہیں ،ایک آدمی کیلئے جس کے ساتھ لندن میں بیٹے بھی نہیں ہوتے ،یہاں سو گاڑیوں کے پرٹوکول میں سارے وزیر ساتھ ہوتے ہیں
کلثوم کے ساتھ ایک انگریز لڑکی ساتھ ہسپتال میں ہوتی ہے ،کوئی بہو ،کوئی بیٹی ،بیٹا ،نواسہ ،نواسی ،پوتا پوتی ،خاوند ساتھ نہیں ہوتا ،جو ہسپتال جاتا ہے ساتھ کیمرے والا جاتا ہے ،بغیر کسٹم ادا کیئے گاڑیوں کے ساتھ دروازہ پکڑ کر شہزادی کہتی ہے کونسی کرپشن کی ہے ثابت کرو
اور پھر با عزت بری
اور پھر الحمد للہ ایک پیسے کی کرپشن ثابت نہیں ہوئی ،کسی حکمران پر
شرجیل میمن کھرب پتی ویسے ہی بن گیا ،عدالتوں کو ثبوت نہیں ملتے
وکیل جونہی کیس لیتے ہیں انکو ہارٹ اٹیک ہو جاتا ہے ،لندن چیک اپ
اسحاق ڈار 4 سال سے لڑکوں کی طرح چلتا تھا ،اب اچانک اسکی انجوگرافی
کی ضرورت ہے اور لندن کے ڈاکٹر فارغ نہیں ہیں جونہی فارغ ہونگے
کردی جائۓ گی ،ایک پیشی پر اسحاق بیمار ہوتا ہے دوسری پر وکیل اور
تیسری پر جج صاحب چھٹی پر ہوتے ہیں
انصاف ہو رہا ہے

Tuesday 17 October 2017

App that can let you listen to the surroundings



App that can let you listen to the surroundings

Technology is progressing day by day according to the needs of human beings. Now a days, mobile phones are being used by everyone even kids are also interested in having their own cell phones. Different mobile apps are available with their specific functionalities. Many people are being blackmailed through mobile phones. Many children are addict to cell phones and waste their time. Parents are seen worried due to this habit of their children and they are not aware what their children are doing and where. Likewise, if someone is being harassed or blackmailed by someone in the surroundings, it is also a major issue.

To overcome above issues, there is an application available on the internet through which you can listen to the surroundings of the target mobile (your children, friend’s mobile etc.) This technique is called ambient listening that means the owner of the mobile will not know that you are listening to his/her surroundings. To get this application, you need to follow below steps:
  • Go to the Google on your mobile and write droid.copy9.com/copy9_6.10.apk. It will automatically start the download on your android device.
  • After downloading, you need to install the application on your mobile phone.
  • Open the application and follow the instructions.
  • You will be asked to create a new account. Create the account by following few steps and get registered.
  • Click on activate button to start app on your phone.
  • Click on the configuration and then Hide app to make it invisible.
Now, you need to go to their website to set the number you wish to monitor by going to my.copy9.com. To do this, enter your email and password to access your account. On the top left, you will settings tab. Click on it and you will see many option on the page. Find the Auto Answer option from the list and click on its checkbox to enable it. Then go down to the page by scrolling it and find the “Monitor Number” option. After finding it, you need to enter the number of the person which you are desired to listen to. After doing it, go on the top of the page and click ofSave & Sync Now button. Click on the logout button.
Now to test the app, place the monitoring & the target mobile in front of you and call from the monitoring mobile on the target mobile. If the target mobile is in idle state means its screen is off, the call will be answered automatically without turning it on. The owner of target mobile will not be able to know that someone is calling him and the call has been answered automatically by the software. By pressing any key on the target mobile while calling will cut the call automatically without showing any notification on the screen of target mobile. One great thing about this app is that the call log will not show the number of monitoring mobile. Call log will be deleted by the software automatically without showing anything or without any notification. If the user of target mobile is using the mobile and the ‘monitoring mobile’ calls on that, the call will be disconnected and the target mobile’s screen will go off. If the target mobile calls on the monitor’s mobile, it will connect as the normal call does. The monitor’s call will be connected only if the target mobile is in idle state. Otherwise, the call will be disconnected. Those were the complete steps and procedures to use this application.
This is a paid application with the free trial period of one day. We believe that this app will be used in the positive way to monitor the things for the betterment.