دھرنے کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے آج فرمایا:
فوج کو کس نے آئینی اختیار دیا کہ وہ دھرنے والوں اور حکومت کے درمیان ضامن بنے؟
ایجنسیوں نے تیسری مرتبہ اسلام آباد میں دھرنا کروایا - اگر فوج نے سیاست کرنی ہے تو استعفی دے کر سیاست میں آجائے
ختم نبوت ﷺ کیلئے میں نے بھی جیلیں کاٹی ہیں، مجھ سے بڑا عاشق رسول ﷺ کون ہوگا ؟
وجہ تلاش کی جائے کہ اسلام آباد انتظامیہ کیوں ناکام ہوئی اور اسے ناکام بنانے والا کون تھا؟
جسٹس شوکت صدیقی پزل کا وہ آخری ٹکڑا تھا جسے جوڑنے کے بعد تمام منظر بالکل واضح دکھائی دینے لگتا ہے۔
22 دن سے اسلام آباد مفلوج تھا، حکومت کی نااہلی کی وجہ سے پورے ملک میں دھرنے والوں کے حق میں جذبات ہموار ہورہے تھے، پھر چند روز قبل اسی جسٹس شوکت صدیقی نے دھرنے کے خلاف سخت ایکشن لینے کا حکم صادر کردیا۔ اس حکم کا مخاطب وزارت داخلہ ہی تھی کیونکہ اسلام آباد کی انتظامیہ پنجاب حکومت یا پنجاب پولیس کے نیچے نہیں آتی۔
پھر جب اسلام آباد انتظامیہ نے دھرنے کے خلاف آپریشن لانچ کیا تو انتظامیہ کی نااہلی کھل کر سامنے آگئی۔ پورے ملک میں آگ لگ گئی اور حکومتی اراکین کا پبلک میں نکلنا مشکل ہوگیا۔ ن لیگی اراکین نے استعفی دینے شروع کردیئے۔
یہ وہ وقت تھا کہ اگر دھرنے والے اعلان کردیتے کہ عدالتوں اور پارلیمنٹ پر قبضہ کرلو تو یہ جج اس وقت نالہ لئی کے کنارے کسی جھگی میں بیٹھ کر چائے پی رہے ہوتے۔
پلان بالکل واضح تھا۔ انتظامیہ کے زریعے آگ بھڑکائی جائے اور پھر فوج کو بلا کر براہ راست عوام کے سامنے لا کھڑا کردیا جائے۔ جنرل باجوہ پر قادیانی ہونے کا الزام پہلے ہی لگ چکا، جب فوج ختم نبوت ﷺ پر کئے گئے دھرنے کے مظاہرین پر قوت کا استعمال کرتی تو پوری فوج پر قادیانی ہونے کا لیبل لگ جاتا۔ پھر فوجیوں کیلئے اپنی وردی میں باہر نکلنا بھی مشکل ہوجاتا۔ یوں پاکستان ایک ناکام ریاست کا منظر پیش کرتا، غالباً یہی وہ وقت ہوتا جب اقوام متحدہ کے زریعے قرارداد منظور کروا کر پاکستان کے حساس مقامات کی تحفظ کیلئے انٹرنیشنل فوجوں کے دستے تعینات کرنے پر کام شروع ہوجاتا۔
دھرنے والے حکومت پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھے، انہیں کسی کی ضمانت درکار تھی اور اس مقصد کیلئے ان کی واحد شرط فوج تھی۔ چنانچہ اس ساری صورتحال کو ڈی فیوز کرنے کیلئے ایک میجر جنرل صاحب ضمانتی بنے اور دونون کے درمیان معاہدے کی شرائط پر اپنی ضمانت دی جس سے دھرنا ختم ہوا۔
چونکہ سازش ناکام ہوگئی تھی اس لئے جسٹس شوکت صدیقی نے آج بطور جج اپنے کیرئیر میں پانچویں مرتبہ ملکہ جذبات بنتے ہوئے آنسوؤں کی لڑیاں بہاتے ہوئے اوپر بیان کئے گئے الفاظ کو بطور آبزرویشن سماعت کا حصہ بنایا۔
کیا آئین کسی فوج کو اتنظامیہ اور مظاہرین کے درمیان ضامن بننے سے روکتا ہے؟ کوئی ایک ایسی شق جو فاضل جج صاحب بطور ریفرینس بتا سکیں، بڑی عنایت ہوگی۔
دوسری بات جو یہ جج بھول گیا تھا وہ یہ کہ دو دن قبل وزارت داخلہ آئین کے آرٹیکل کے تحت فوج کو اسلام آباد طلب کرچکی تھی اور اس آرٹیکل کے تحت فوج کے پاس وہ تمام انتظامی اختیارات آجاتے ہیں جو پولیس، کمشنرز اور مجسٹریٹس کے پاس ہوتے ہیں۔ ان اختیارات میں صرف گولی یا لاٹھی چارج ہی شامل نہیں ہوتا بلکہ مذاکرات بھی شامل ہوتے ہیں اور انہی کے تحت پاک فوج نے دھرنے کو پرامن طریقے سے ڈی فیوز کروانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
اب آجائیں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف۔
موصوف گورڈن کالج سے پڑھے ہیں، جہاں ان کے قریبی عزیز اور نوازشریف کے مشیر جناب عرفان صدیقی بھی غالباً پڑھایا کرتے تھے۔ جج صاحب زمانہ طالبعلمی میں جمیعت کا حصہ رہے اور بعد میں جماعت اسلامی میں شامل ہوکر الیکشن بھی لڑتے رہے اور حسب توفیق ہارتے رہے۔
ابھی چند ماہ گزرے ہیں جب موصوف اپنے آپ کو ناموس رسالت ﷺ کا سب سے بڑا نگہبان ڈیکلئیر کرکے آبزریشن جاری کرچکے کہ ناموس رسالت ﷺ کی خاطر پوری سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ بھی بند کرنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
آج ختم نبوت ﷺ کی خاطر جب مظاہرین نے صرف فیض آباد بند کیا تو یہی جج منہ سے آگ برساتے ہوئے ان مظاہرین کے خلاف پوری شدت سے کاروائی کرنے کا حکم دینے لگ گیا۔
یاد رہے، یہ وہی جج صاحب ہیں جن پر سی ڈی اے کے حکام نے جوڈیشل کمیشن میں کاروائی کی درخواست دی تھی۔ موصوف دو مرتبہ گھر الاٹ کروا چکے، کروڑوں روپوں سے تزئین و آرائش کروا چکے، اپنے دوست کی بیٹی کو لاکھوں روپے تنخواہ پر نوکری دلوا چکے اور اس کے علاوہ پتہ نہیں کہاں کہاں سے مراعات بھی حاصل کرچکے اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہی کیا۔
جج صاحب معمہ کا وہ آخری ٹکڑا ہیں جو اس پورے معاملے کی منظرکشی واضح کردیتا ہے۔ جج صاحب، آپ نے اپنے منصب کا جس طرح استعمال کیا، اس کا جواب آپ سے اللہ ہی لے گا!!! بقلم خود باباکوڈا
فوج کو کس نے آئینی اختیار دیا کہ وہ دھرنے والوں اور حکومت کے درمیان ضامن بنے؟
ایجنسیوں نے تیسری مرتبہ اسلام آباد میں دھرنا کروایا - اگر فوج نے سیاست کرنی ہے تو استعفی دے کر سیاست میں آجائے
ختم نبوت ﷺ کیلئے میں نے بھی جیلیں کاٹی ہیں، مجھ سے بڑا عاشق رسول ﷺ کون ہوگا ؟
وجہ تلاش کی جائے کہ اسلام آباد انتظامیہ کیوں ناکام ہوئی اور اسے ناکام بنانے والا کون تھا؟
جسٹس شوکت صدیقی پزل کا وہ آخری ٹکڑا تھا جسے جوڑنے کے بعد تمام منظر بالکل واضح دکھائی دینے لگتا ہے۔
22 دن سے اسلام آباد مفلوج تھا، حکومت کی نااہلی کی وجہ سے پورے ملک میں دھرنے والوں کے حق میں جذبات ہموار ہورہے تھے، پھر چند روز قبل اسی جسٹس شوکت صدیقی نے دھرنے کے خلاف سخت ایکشن لینے کا حکم صادر کردیا۔ اس حکم کا مخاطب وزارت داخلہ ہی تھی کیونکہ اسلام آباد کی انتظامیہ پنجاب حکومت یا پنجاب پولیس کے نیچے نہیں آتی۔
پھر جب اسلام آباد انتظامیہ نے دھرنے کے خلاف آپریشن لانچ کیا تو انتظامیہ کی نااہلی کھل کر سامنے آگئی۔ پورے ملک میں آگ لگ گئی اور حکومتی اراکین کا پبلک میں نکلنا مشکل ہوگیا۔ ن لیگی اراکین نے استعفی دینے شروع کردیئے۔
یہ وہ وقت تھا کہ اگر دھرنے والے اعلان کردیتے کہ عدالتوں اور پارلیمنٹ پر قبضہ کرلو تو یہ جج اس وقت نالہ لئی کے کنارے کسی جھگی میں بیٹھ کر چائے پی رہے ہوتے۔
پلان بالکل واضح تھا۔ انتظامیہ کے زریعے آگ بھڑکائی جائے اور پھر فوج کو بلا کر براہ راست عوام کے سامنے لا کھڑا کردیا جائے۔ جنرل باجوہ پر قادیانی ہونے کا الزام پہلے ہی لگ چکا، جب فوج ختم نبوت ﷺ پر کئے گئے دھرنے کے مظاہرین پر قوت کا استعمال کرتی تو پوری فوج پر قادیانی ہونے کا لیبل لگ جاتا۔ پھر فوجیوں کیلئے اپنی وردی میں باہر نکلنا بھی مشکل ہوجاتا۔ یوں پاکستان ایک ناکام ریاست کا منظر پیش کرتا، غالباً یہی وہ وقت ہوتا جب اقوام متحدہ کے زریعے قرارداد منظور کروا کر پاکستان کے حساس مقامات کی تحفظ کیلئے انٹرنیشنل فوجوں کے دستے تعینات کرنے پر کام شروع ہوجاتا۔
دھرنے والے حکومت پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھے، انہیں کسی کی ضمانت درکار تھی اور اس مقصد کیلئے ان کی واحد شرط فوج تھی۔ چنانچہ اس ساری صورتحال کو ڈی فیوز کرنے کیلئے ایک میجر جنرل صاحب ضمانتی بنے اور دونون کے درمیان معاہدے کی شرائط پر اپنی ضمانت دی جس سے دھرنا ختم ہوا۔
چونکہ سازش ناکام ہوگئی تھی اس لئے جسٹس شوکت صدیقی نے آج بطور جج اپنے کیرئیر میں پانچویں مرتبہ ملکہ جذبات بنتے ہوئے آنسوؤں کی لڑیاں بہاتے ہوئے اوپر بیان کئے گئے الفاظ کو بطور آبزرویشن سماعت کا حصہ بنایا۔
کیا آئین کسی فوج کو اتنظامیہ اور مظاہرین کے درمیان ضامن بننے سے روکتا ہے؟ کوئی ایک ایسی شق جو فاضل جج صاحب بطور ریفرینس بتا سکیں، بڑی عنایت ہوگی۔
دوسری بات جو یہ جج بھول گیا تھا وہ یہ کہ دو دن قبل وزارت داخلہ آئین کے آرٹیکل کے تحت فوج کو اسلام آباد طلب کرچکی تھی اور اس آرٹیکل کے تحت فوج کے پاس وہ تمام انتظامی اختیارات آجاتے ہیں جو پولیس، کمشنرز اور مجسٹریٹس کے پاس ہوتے ہیں۔ ان اختیارات میں صرف گولی یا لاٹھی چارج ہی شامل نہیں ہوتا بلکہ مذاکرات بھی شامل ہوتے ہیں اور انہی کے تحت پاک فوج نے دھرنے کو پرامن طریقے سے ڈی فیوز کروانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
اب آجائیں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف۔
موصوف گورڈن کالج سے پڑھے ہیں، جہاں ان کے قریبی عزیز اور نوازشریف کے مشیر جناب عرفان صدیقی بھی غالباً پڑھایا کرتے تھے۔ جج صاحب زمانہ طالبعلمی میں جمیعت کا حصہ رہے اور بعد میں جماعت اسلامی میں شامل ہوکر الیکشن بھی لڑتے رہے اور حسب توفیق ہارتے رہے۔
ابھی چند ماہ گزرے ہیں جب موصوف اپنے آپ کو ناموس رسالت ﷺ کا سب سے بڑا نگہبان ڈیکلئیر کرکے آبزریشن جاری کرچکے کہ ناموس رسالت ﷺ کی خاطر پوری سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ بھی بند کرنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
آج ختم نبوت ﷺ کی خاطر جب مظاہرین نے صرف فیض آباد بند کیا تو یہی جج منہ سے آگ برساتے ہوئے ان مظاہرین کے خلاف پوری شدت سے کاروائی کرنے کا حکم دینے لگ گیا۔
یاد رہے، یہ وہی جج صاحب ہیں جن پر سی ڈی اے کے حکام نے جوڈیشل کمیشن میں کاروائی کی درخواست دی تھی۔ موصوف دو مرتبہ گھر الاٹ کروا چکے، کروڑوں روپوں سے تزئین و آرائش کروا چکے، اپنے دوست کی بیٹی کو لاکھوں روپے تنخواہ پر نوکری دلوا چکے اور اس کے علاوہ پتہ نہیں کہاں کہاں سے مراعات بھی حاصل کرچکے اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہی کیا۔
جج صاحب معمہ کا وہ آخری ٹکڑا ہیں جو اس پورے معاملے کی منظرکشی واضح کردیتا ہے۔ جج صاحب، آپ نے اپنے منصب کا جس طرح استعمال کیا، اس کا جواب آپ سے اللہ ہی لے گا!!! بقلم خود باباکوڈا
No comments:
Post a Comment