Sunday, 1 January 2017

معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

احادیث اور کتب فضائل میں آتا ہےکہ ابھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کو ابھی چند مہینےرہتےتھےکہ آپ کےوالد ماجد کا انتقال ہوگیا۔ صحابہ سےمنقول ہےکہ ان کےانتقال کےموقع پر فرشتوں نےاللہ رب العزت کےحضور عرض کیا کہ باری تعالیٰ تیرےمحبوب کی ولادت سےپہلےان کےوالد کا انتقال ہوگیا ہےتو کیا تیرا محبوب یتیم ہوگا چونکہ جب نبی اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور آپ کےوالد حضرت عبداللہ کی پشت مبارک سےآپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کےبطن مبارک میں منتقل ہوا تو وہ رات جمعرات تھی اس رات آسمانوں اور جنت کو نور سےسجادیا گیا۔ غلمانوں، حوروں اور فرشتوں کو مبارک بادیں دی گئیں اور یہ آواز دی گئی کہ مبار ک ہو آج وہ نور اقدس جس کی خاطر کائنات تخلیق کی گئی تھی وہ نور اپنی والدہ ماجدہ کےبطن مبارک میں منتقل ہوگیا ہے۔ اب وہاں جسمانی وجود کی تشکیل ہوگی اور نبی آخرالزماں دنیا میں تشریف لائیں گے۔ تمام ملائکہ حورو غلمان، آسمانی اور جنتی مخلوق کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےتولد سےکم و بیش آٹھ نو ماہ قبل اس نور کےمنتقل ہونےکی خبر ہوگئی۔

کچھ عرصہ کےبعد جب آپ کےوالد ماجد کا انتقال ہوگیا اس وقت پھر ملائکہ نےسوال کیا کہ باری تعالیٰ یہ محبوب جس کی خاطر تو نےساری کائنات بنائی ہےجس کےنور منتقل ہونےپر مبارکبادیاں دی گئیں جنتیں سجائی گئیں کیا تیرا محبوب یتیم ہوکر پیدا ہوگا؟ اللہ پاک نےجواب میں فرمایا میرامحبوب بےسہارا نہیں ہوگا اس کا سہارا میں خود ہونگا اور میں خود اس کی پرورش کی نگہبانی کرنےوالا ہونگا۔ حضور علیہ الصلوة والسلام کی ولادت باسعادت ہوئی تو والد کا انتقال ہوچکا تھا پھر آپ کےبعد حضرت عبدالمطلب نےابتدائی پرورش فرمائی تھوڑی عمر میں والدہ ماجدہ کا انتقال ہوگیا والدہ کےبعد دادا کا وصال ہوگیا پھر آپ کےچچا حضرت ابوطالب نےنگہبانی کی ذمہ داری لی اور وہ آپ کی جوانی اور اعلان نبوت کےبعد تک حیات رہےاس دوران بڑےبڑےمشکل دن، مشکل لمحےاور مشکل واقعات و حالات آئے۔

جب آپ کی شادی ہوگئی تو گھریلو معاملات میں حضرت خدیجة الکبری معاون ہوگئیں اور باہر کےمعاملات میں حضرت ابوطالب آپ کےمعاون ہوگئےحضرت خدیجة الکبری نےاپنا مال و دولت، سرمایہ، کاروبار، تجارت سارا کچھ آپ پر اور اسلام کےفروغ پر خرچ کردیا۔ حضور علیہ السلام ان سےمشورہ بھی طلب فرماتےتھے، رائےبھی لیتےتھےجب آپ کی عمر مبارک ٨٤ برس کو پہنچی اور بعثت جو بھءسات برس ہوئےتھےکہ مخالفت و عداوت شدت اختیار کر گئی اس سال آپ کو اور آپ کےپورےخاندان کو ایک گھاٹی جو شعب ابی طالب کےنام سےمشہور ہےنظر بند کردیا گیا۔ ناقہ بندی کردی گئی۔ کھانا پینا اور خوراک سب کچھ ختم کردیا۔ خاندان نبوت کا سوشل بائیکاٹ کردیا گیا اور تین سال تک آپ کا پورا خاندان اور آپ خود اس ظاہری انتہائی تکلیف سےدوچار رہا۔ تین سال تک اس قید کی گھاٹی میں گزاری۔

اس کےبعد جب آپ باہر تشریف لائےتو آپ کی عمر مبارک پچاس برس کی تھی اسی سال حضرت خدیجة الکبری کا وصال ہوگیا اور اسی سال حضرت ابوطالب کا بھی وصال ہوگیا۔ تین سال کی قید و بند اور صعوبتیں، بےپناہ مخالفت، بےپناہ مزاحمت، بےپناہ عداوت، بڑی سازشیں، بڑی رکاوٹیں، ظاہری رشتوں کےناطےمیں جو لوگ معاون تھےوہ دنیا سےرخصت ہوگئےیہ آپ کےلئےغموں سےبھرا ہوا سال تھا۔ اس لئےاس سال کو عام الحزن کہتےہیں یعنی غم والا سال۔ وہ اللہ رب العزت نےفرمایا تھا کہ میرا محبوب بےسہارا نہیں اس کا سہارا میں ہوں۔ حضور علیہ السلام پر جب یہ غم والا سال آیا تو نہ والدہ ماجدہ نہ والد گرامی، نہ دادا، نہ چچا اور نہ زوجہ محترمہ تھیں جو صحابہ کرام ایمان لاچکےتھےوہ بھی مصائب اور آلام کی زد میں تھے۔ جب غم و اندوہ کا یہ سال آیا اس وقت اللہ رب العزت نےحضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا اور حکم دیا۔ اےجبرائیل براق لےجاؤ اور دولہےکی طرح سجاکر میرےمحبوب کو لےآؤ تاکہ میں مقام قاب قوسین پر تخلیہ میں آمنےسامنےبٹھا کر اپنا دیدار عطا کروں تاکہ وہ مجھےدیکھےتو سارےغم بھول جائے۔

جب غم اندوہ پریشانیاں انتہا تک پہنچتی ہیں پھر انسان کو ضرورت محسوس ہوتی ہےکہ کوئی غموں کو بانٹنےوالا ہو کوئی دکھوں کا بوجھ اتارنےوالا ہو کوئی ایسا ہو جس سےدلوں کےدکھ بیان کئےجائیں کچھ سنےاور کچھ سنائےاور بوجھ اتر جائےکوئی جتنا ہی پیارا ہو اس قدر اس سےمل کر غم دور ہوتےہیں۔ پہلےتو یہ تھا کہ باہر کفار پتھر مارتےتھے، تنگ کرتےتھے، برا بھلا کہتے، ظلم کرتے، مصیبتوں کےپہاڑ ڈھاتےاور حضور علیہ السلام جب اس حالت میں گھر تشریف لاتےتو آگےحضرت خدیجة الکبری محبت بھرےکلمات عرض کرتیں۔ کبھی چچا کےکلمات کان میںپڑتےکہ ساری دنیا بھی میری دشمن ہوجائےاس کےباوجود میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔ خاص خاص وقتوں میں یہ کلمات کام آتےتھے۔ جب یہ سارےدنیا سےاٹھ گئےنہ حضرت خدیجة الکبری رہیں جو کہ غموں کو بانٹتی۔ نہ چچا ابوطالب رہےکہ غموں کو بانٹتےاور معاشرتی مقاطع کی وجہ سےحالات بہت ہی عجیب ہوگئے۔ جبکہ اللہ پاک نےفرمایا تھا کہ اپنےمحبوب کا سہارا میں خود ہوں۔ غم و اندوہ میں اللہ رب العزت نےفرمایا اےمحبوب اب کوئی ایسا نہیں جسےتو اپنےغم سنائے۔ اب تمہیں ہم اپنےپاس بلاتےہیں۔ پھر درمیان سےسارےپردےہٹادیں گےاور قاب قوسین پر تجھےبٹھائیں گے۔ تو ہمیں دیکھتا ہوگا اور ہم تجھےدیکھتےہونگے۔ تو ہمیں سنتا ہوگا اورہم تمہیں سنتےہونگے۔ اس طرح وہ سارےغم غلط ہوجائیں گےبلکہ وہ ایسی ملاقات ہوگی کہ محبوب جب تک تو اس دنیا میں رہےگا اس ملاقات کی یاد کبھی بھولےگی نہیں اور آئندہ آنےوالےدنوں کےجو غم و دکھ ہونگےوہ یاد انہیں بھی بھلاتی رہےگی حضور علیہ السلام حضرت ام ہانی یا صحن کعبہ میں یا اور مختلف مقامات کا ذکر آیا ہےتشریف فرما تھے۔ حضرت جبرائیل امین سفید رنگ کا براق لیکر حاضر ہوئےوہ نورانی جانور حضور علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ جبرائیل علیہ السلام نےحضور علیہ السلام کو قدموں مبارکوں کی طرف سےبلایا آقا دو جہاںصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھ مبارک کھلی تو پوچھا جبرائیل کیسےآئےہو عرض کیا اللہ نےیاد فرمایا ہےاور آپ کو لیجانےکےلئےسواری بھیجی ہے۔ آپ دوستوں کو ملنےجاتےہیں دعوت بھی دیتےہیں اللہ پاک اس بات پر قادر تھا اور قادر ہےکہ اپنی قدرت سےحضور علیہ السلام کو اپنےپاس بلالیتا۔ مگر چونکہ غم دور کرنےتھے۔ اس دنیا سےبلانا تھا تو دنیا کی ایک روش ہےکہ بڑی عزت اور اکرام کےلئےسواری بھیج کر بلایا جاتا ہے۔ اللہ پاک نےعالم نور کی سب سےبلند ترین سواری بھیجی تاکہ پتہ چلےکہ محبوب کو بلایا ہے۔ یوں بھی فرماسکتےتھےمحبوب آجا آج کی رات چند لمحوں کیلئےہمیں مل جا فرماسکتےتھے۔ محبوب کو سواری پر لیجانےپر قادر ہےوہ بغیر سواری کےبھی لیجانےپر قادر ہےاور بغیر جبرائیل کےبھی قادر ہےجیسےسواری بھیجنےمیں مہمان کی ایک عزت ہوتی ہےاسی طرح سواری کےساتھ ایک شخص بھیجنےمیں بھی عزت ہوتی ہے۔ جبرائیل امین سےبہتر اللہ کی آسمانی مخلوق میں کوئی نہ تھا۔ بہترین فرد کو منتخب کرکےحضور کی بارگاہ میں بھیجا۔

حضور علیہ السلام تیار ہوکر سواری پر بیٹھےاور سب سےپہلےبیت المقدس گئےیہاں ایک جگہ تھی جہاں انبیاءعلیھم السلام اپنی سواریوں کو باندھا کرتےتھےحضور علیہ الصلوة والسلام کی سواری یہاں باندھی گئی اور وہاں حضور علیہ الصلوة والسلام نےدو رکعت نفل ادا فرمائی۔ جب بیت المقدس میں سب انبیاءکی ارواح کو حکم ہوا کہ تم سب صف بہ صف میرےمحبوب کا استقبال کرو حضور علیہ السلام نےجماعت کرائی انبیاءعلیھم السلام نےحضور کےپیچھےنماز ادا فرمائی۔ بیت المقدس سےجب سفر شروع ہونےلگا تو دنیا کی خوراک اور غذائیں بند ہوگئیں جنت کی نورانی غذائیں شروع ہوگئیں۔ اس دنیا میں جنتی خوراک کا کھانا اس امر پر دلالت کرتا ہےکہ حضور علیہ الصلوة والسلام کا پیکر بشریت اس دنیا میں رہتےہوئےبھی جنتی اور نورانی احوال کا مالک تھا۔ چاہتےتو دنیا کی خوراک کھاتےاس سےنورانیت کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اور چاہتےتو اسی دنیا میں عالم نورانیت کی خوراک کھاتےبشریت مانع نہیں ہوتی تھی۔ بشریت نور سےاعلیٰ تھی اور نورانیت نور سےبھی اعلیٰ تھی۔ آپ نےاس میں سےدودھ کو منتخب فرمایا اور پی لیا۔ حضور علیہ الصلوة والسلام کا سفر شروع ہوگیا

پہلےآسمان دنیا پر پہنچےجبرائیل علیہ السلام نےدروازہ کھٹکھٹایا۔ اسی لئےتو ساتھ بھیجا تھا کہ کسی جگہ بھی حضور علیہ الصلوة والسلام کو دروازےکھٹکھٹانےکی ضرورت پیش نہ آئی۔ میرےمحبوب کو آو از نہ دینی پڑے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نےدروازہ کھٹکھٹایا اندر سےآواز آئی کون؟ حضرت جبرائیل نےفرمایا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائےہیں۔

پہلےآسمان پر سیدنا حضرت آدم علیہ السلام سےملاقات ہوئی انہوں نےحضور علیہ السلام کا استقبال کیا، دعائیں دیں، پہلےآسمان کی سیر کرکےآگےپہنچی۔ دوسرےآسمان پر تشریف لےگئےوہاں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ بن زکریا علیھا السلام استقبال کرنےکےلئےموجود تھےدوسرےآسمان کی سیر کےبعد حضور علیہ الصلوة والسلام کو تیسرےآسمان پر پہنچایا گیا تیسرےآسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سےملاقات ہوئی پھر حضور علیہ السلام آگےتشریف لےگئےچوتھا آسمان کا دروازہ کھلا یہاں حضرت ادریس علیہ السلام استقبال کےلئےموجود تھےپھر پانچویں آسمان پر سیدنا حضرت ہارون علیہ السلام استقبال کےلئےموجود تھےپھر چھٹےآسمان پر حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام استقبال کیلئےموجود تھےساتویں آسمان پر حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام استقبال کیلئےموجود تھےپہلےآسمان پر آسمانی دنیا میں داخل ہورہےتھےاس لئےوہاں حضرت آدم علیہ السلام تشریف فرما ہیں ساتواں آسمان آسمانِ دنیا سےخروج تھا وہاں حضور علیہ السلام کےجد حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام موجود تھے۔ ساتویں آسمان سےبھی آگےگزرےاور سدرة المنتہیٰ اور عرش معلی پر پہنچے۔ سارےآسمانی اور بالائی آسمان کےفرشتےجمع ہوگئےفرشتوں نےعرض کیا مولا تیرا محبوب آرہا ہےکوئی ایسی سبیل کر کہ ہم سارےتیرےمحبوب کا جلوہ کرلیں اللہ پاک نےفرمایا سدرة المنتہیٰ پر آجائو تو ملائکہ جمع ہوگئےحضور علیہ السلام گزرےحکم ہوا سارےملائکہ کو کہ میرےمحبوب کا جلوہ کرلو سدرة المنتہیٰ سےگزرتےہوئےحضور علیہ الصلوة والسلام کی زیارت ہوئی عرش معلی پر پہنچےاس طرح جنتوں کی سیر کروائی گئی۔ عرش معلی پر جب پہنچےسدرة المنتہیٰ تک حضرت جبرائیل امین نےساتھ دیا اس کےبعد عرض کیا حضور آگےمیں نہیں جاسکتا آگےجو عالم ہےوہاں اللہ کی ذات کےخاص جلوےہیں اور میرےنور میں اتنی طاقت نہیں کہ اس کےنور کےپرتو کو برداشت کرسکوں اب حضور تنہا اس کےبعد آگےتشریف لےگئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکان و لامکان پر پہنچےتو خود اللہ رب العزت نےاستقبال کیا۔
ثم دنی فتدلی و کان قاب قوسین او ادنی۔
پھر فرمایا
قف یامحمد ان ربک یصلی۔
اب محبوب رک جا تیرا رب تجھ پر صلواة پڑھ کر تیرا استقبال کرتا ہےاپنی شان کےلائق پھر اللہ پاک نےحضور کا استقبال کیا۔ اپنی بارگاہ میں بٹھایا قاب قوسین پر حضور کو فائز کیا قاب قوسین پر فائز کےبعد دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا۔ او ادنی پھر اس سےبھی قریب تر کرلیا اتنا قریب کردیا کہ فاصلوں کا کوئی تصور نہ رہا اور نہ قربتوں کا کوئی تصور رہا اس طرح سارےپردےاٹھالئےحضور علیہ السلام کی آنکھوں میں مازاغ البصر کا کجلا ڈالا گیا اور بینائی دی گئی ماطغی اور قاب قوسین کےمقام پر بٹھادیا گیا پھر پردےاٹھادیئےگئےفرمایا انہ ھو السمیع البصیر اب تیرےکانوں کو وہ سماعت دےدی جس سماعت کا تصور دنیا والےتو کیا ملائکہ بھی نہیں کرسکتے۔ تیری آنکھوں کو وہ نور بصارت دےدی گئی کہ دنیا والوں کی آنکھیں تو درکنار جبرائیل کی بصارت بھی جس کا تصور نہیں کرسکتی۔ آج محبوب تیرےکان خاص کان ہیں تیری آنکھیں خاص آنکھیں ہیں اپنےخاص کانوں سےاو ادنی کی منزل پر بیٹھ کر میری باتیں سن اور اپنی خاص آنکھوں سےمیرےحسن کا جلوہ کر مجھےدیکھ اور مجھےسن میں تجھےدیکھتا ہوں اور تمہیں سنتا ہوں نہ ہم دو کےسوا ہمیں کوئی سنےاور نہ کوئی دیکھےاور پھر بتا کیا اب بھی کوئی غم رہ گئے۔ اس مقام پر اللہ رب العزت نےارشاد فرمایا

”فاوحی الی عبدہ مآ اوحی“ پھر اس نےوحی کی القاءکیا اپنےمحبوب کےدل میں جو چاہی۔ اب وہاں جو باتیں ہوئیں وہ نہ اس وقت بتائی گئیں اور نہ بعد میں بتائی گئیں اور نہ آج تک کسی کو معلوم ہےہر کوئی اندازےلگاتا پھرتا ہے۔ اس میں تھوڑی تھوڑی باتیں ہماری سکت کےمطابق ہماری طاقت اور ہمت کےمطابق جو افشاءکردیں وہ دنیا والوں کو معلوم ہوگئیں جو افشاءنہیں کیں اس کی کوئی خبر نہیں پھر حضور علیہ السلام کو اللہ نےلامکاں سےگزارا اپنی صفات کےمختلف پردوں میں سےگزارا جس جس پر اس کی روشنی آئی اس کا رنگ چڑھتا گیا حتی کہ اس مقام سےپلٹےتو اللہ کی صفات میں رنگےجاچکےتھےاللہ کےرنگ میں رنگےجاچکےتھے۔ اللہ کےرنگ میں ظاہر بھی رنگا جاچکا تھا اور باطن بھی رنگا جاچکا تھا۔ پورےرنگےگئےتھےواپسی پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےعرض کیا مولا اب میں واپس جارہا ہوں مگر یہ جو لذت اور مزہ اس دیدار کا دیا ہے۔ وہاں ہر دن اس ملاقات کی یاد ستائےگی۔ اللہ رب العزت نےارشاد فرمایا: اےمحبوب! یہ معراج تو ہم نےدی ہےاب اس معراج کا تحفہ تجھےدیتےہیں اور وہ تحفہ نماز ہےاسےلیجا جب ہماری اس ملاقات کی یاد ستائےاللہ اکبر کہہ کر نماز میں داخل ہونا محبوب ہر نماز تیری شب معراج بن جائےگی۔ الصلوة معراج المومنین لوگ صرف تیری ذات کےلئےنہیں بلکہ اس سےتیری امت کو بھی کچھ حصہ عطا کرتےہیں عرض کیا مولا میں تو اپنی ہر دعا میں امت کو بھی شریک کیا کرتا ہوں جب امت اس معراج کا تذکرہ سنےگی تو انہیں بھی کچھ لذت آئےگی وہ بھی اپنا حصہ مانگیں گے۔ فرمایا اس نماز کو تیری امت کےلئےبھی معراج بنادیتےہیں۔ پچاس نمازیں دےکر روانہ کردیا جب چھٹےآسمان پر پہنچےسیدنا موسیٰ علیہ السلام نےپوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ نےکیا تحفہ دیا آپ نےفرمایا پچاس نمازیں اللہ نےمیری امت کو عطا کی ہیں انہوں نےعرض کیا حضور آپ کی امت پچاس نمازیں نہیں پڑھ سکےگی۔ میری درخواست یہ ہےآپ جو عرض کریں گےمانا جائےگا کچھ تخفیف کراکےجائیں۔ حضور علیہ السلام کا دھیان اس نعمت پر تھا موسیٰ علیہ السلام کا دھیان ہماری حالت پر تھا۔ حضور علیہ السلام اللہ کی درگاہ میں حاضر ہوئےاور عرض کیا باری تعالیٰ امت شاید یہ بوجھ اٹھا نہ سکےکچھ تخفیف فرمادیں اللہ نےپانچ کم کردیں پھر واپس آئےپھر عرض کیا حضور اور تخفیف کروائیں بار بار جاتےرہےحتی کہ 45 نماز معاف ہوگئیں پانچ رہ گئیں حضور علیہ السلام واپس تشریف لائےتو اللہ پاک نےآواز دی یہ پانچ نماز فرض بناکےبھیجتا ہوں مگر ثواب پچاس نمازوں کا ہی دیتا رہوں گا۔ دوسرا محبوب یہ تحفہ بھی امت کےلئےلیجا کہ آپ کی امت کےلوگ نیکی کا ارادہ کریں گےاس ارادےپر بھی ثواب لکھ دوں گا اور جب نیکی کرلیں گےتو ایک کےبدلےمیں دس لکھوں گا جب کوئی برائی اور گناہ کا ارادہ کریں گےتو کوئی گناہ نہیں لکھوں گا گناہ کرلیں گےتو صرف ایک لکھوں گا توبہ کرلیں گےتو وہ بھی مٹادوں گا حضور تشریف لےآئےتو موسیٰ علیہ السلام نےکہا یہ بھی کچھ زیادہ ہی لگتی ہیں ایک چکر اور لگا لیں فرمایا اب مجھےحیا آتی ہے، مولا تو اب بھی انکار نہیں فرمائےگا مگر مجھےحیا آتی ہےحضور علیہ السلام واپس تشریف لائےتحفہ لاکر ہمیں عطا کردیا جب رخصت ہوئےتھےتو اس وقت غسل فرمایا تھا وہاں خدا جانےکتنی صدیاں بیت گئی ہیں کتنےسال ہمارےحساب سےبیت گئےہونگے۔ یہاں اور وہاں کا حساب تو بڑا مختلف ہےخدا جانےکتنی مدتیں بیت گئیں ہونگیں مگر واپس آئےجس پانی سےغسل کرکےتشریف لےگئےتھےاس کا پانی ابھی بہہ رہا ہےبستر کی تپش موجود تھی اتنا جلد تشریف لےآئےحضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ حضور علیہ السلام تو خدا جانےوہاں کتنی مدتیں گزار کےآئےمگر اس دنیا میں پلٹنےمیں اتنی جلدی محسوس ہوئی یوں لگا جیسےحضور علیہ السلام تشریف ہی نہیں لےگئے۔ نماز کو ہمارےلئےمعراج بنادیا حدیث پاک میں آتا ہےجب کبھی اس ملاقات کی یاد آتی جب بےچین اور روح اضطراب ہوتی اور اس ملاقات کی تو حضرت بلال کو فرماتے۔ بلال آج ہماری روح میں تھوڑی بےچینی ہےذرا ہمارےدل کو سکون دےدےتو وہ اذان کہتےحضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں حضرت بلال اذان کہتےحضور علیہ السلام ہم سےگفتگو کررہےہوتےمگر اللہ اکبر کی آواز بلند ہوتی اذان کےالفاظ آقا کےکان میں پڑتےتو او ادنی کےلمحےیاد آجاتے۔ اذان کی آواز سنتےہی شب معراج کی تنہائیاں یاد آتیں اس طرح حالت ہوجاتی کہ حضور ہمیں پہچاننا بھی چھوڑ دیتے۔
دو عالم سےکرتی ہےبیگانہ دل کو
عجب چیز ہےلذت آشنائی
ارےدوست کو دوست یاد آجائےساری دنیا کی شناسائی بھول جاتی ہےاور انسان محبوب کو تکتا رہ جاتا ہےاورجب خلوت شب معراج مقام او ادنی کےبےنقاب جلوؤں کی یاد آتی ہوگی پھر اللہ اکبر کی مٹھاس آقا کےکانوں میں پڑتی ہوگی اس وقت تو دل دہل جاتےہونگےاور حسن الہٰی آگےسےبےنقاب ہوتا ہوگا پھر حضور کی نگاہیں کسی کو کیوں پہچانتیں پھر نماز پڑھتےہر ایک کو بھول جاتےضرورت اس امر کی ہےکہ معراج کےتذکرےسےحضور علیہ الصلوة والسلام کےلائےہوئےاس تحفہ کی قدر دانی کریں اور آپ اگر مکہ مکرمہ جائیں تو آب زم زم لاتےہیں کھجوریں لاتےہیں تحائف لاتےہیں کوئی لاکر آپ کو دےتو کیا آپ اس کو پھینک دیں گے۔ ہر گز نہیں جس طرح ہمیں مدینہ بہت محترم ہےاسی طرح حضور کا مدینہ او ادنی ہےحضور کا مدینہ قاب قوسین ہےآقا جب وہاں گئےتو ہمارےلئےبھی تحفہ لائےاور وہ تحفہ نماز کا تھا اور تحفہ بھی ایسا دیا کہ اگر ہم پڑھیں تو تھوڑی تھوڑی لذت اسی لمحےمل جائےمگر ہم نےقدر نہیں کی کتنی بےپرواہی کی کتنی بےادبی کی تو آج کی رات یہ عہد کرنا چاہئےکہ حضور کا لایا ہوا تحفہ نماز ہےہم اس کی قدر دانی کریں اس کو سینےسےلگائیں اور ہر نماز میں وہی کیفیت وہی لذت حاصل کریں۔ اللہ پاک ہم پر کرم فرمائےرحم فرمائےاپنا خصوصی لطف وکرم فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

No comments:

Post a Comment