ہر شخص تکمیل کی پہلی سیڑھی پر پیدا ہوتا ہے اور وہ ہے فطرت۔ جس طرح گناہوں
کا کوئی پیندہ نہیں ہوتا اور نیکیوں کی کوئی چھت، بالکل اسی طرح تکمیل کے
مراحل میں آپ سیدھا اور اُلٹا دونوں طرف چل سکتے ہیں۔
ادھورگی کا غم بھی بہت عجیب ہے۔ یہ ایک ایسی چبھن ہے جو متواتر
ہوتی ہے اور ہر بار از سر نو تکلیف دیتی ہے۔ ہر شخص کو زندگی میں کبھی نہ
کبھی، کہیں نہ کہیں ا<س کا احساس ضرور ہوتا ہے اور پھر وہ اپنی تکمیل
چاہتا ہے۔
آدھے اور ادھورے میں بڑا فرق ہے۔ آدھا وہ جو مکمل سے ٹوٹ گیا ہو، مثلاً
ایک شاخ کے دو ٹکڑے کردیں، اب دونوں ٹکڑے آدھے آدھے کہلائیں گے اور یہ
دونوں کبھی مکمل رہ چکے ہوتے ہیں۔
ادھورا بہت مختلف ہے۔ یہ وہ ہوتا ہے جس کو کبھی اپنا بقیہ حصہ ملا ہی
نہیں ہوتا ہے، اور جس کو ایک عمر گزارنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ اب کچھ کمی
ہے، ابھی تکمیل باقی ہے اور ظلم یہ ہے کہ یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ وہ گمشدہ
حصہ کہاں ملے گا؟ کیسا دکھتا ہے کہ پہچان ہی ہوسکے اور زندگی میں کبھی مل
بھی سکے گا یا نہیں۔
شاعر کہتا ہے؛
اپنی تکمیل کر رہا ہوں میںورنہ تجھ سےتو مجھے پیار نہیں
ہر شخص کی ادھورگی الگ اور تکمیل منفرد۔ کوئی جذبات سے تکمیل چاہتا ہے
تو کوئی جنون سے، کسی کو علم میں تکمیل نظر آتی ہے تو کسی کو اعمال میں،
کوئی سیکھ کے پہنچنا چاہتا ہے تو کوئی سکھا کے۔ کوئی دیکھ کے منزل پر آنا
چاہتا ہے تو کوئی سُن کے۔ کوئی مان کے تو کوئی منوا کے، کوئی مر کے پہنچتا
ہے تو کوئی جی کے۔
قصہ کوئی ہو، تکمیل کے مراحل سب کی زندگی میں یکساں ہی ہوتے ہیں۔ اب کون
کس ترتیب سے طے کرتا ہے، کس رفتار سے کرتا ہے یا گنتی کہاں سے شروع ہوتی
ہے، اِس کا کوئی نصاب نہیں اور جہاں نصاب نہ ہو، وہاں حساب کتاب بھی مشکل
ہی ہے۔ بے نصاب والوں کو بے حساب ملتا ہے۔
ہر شخص تکمیل کی پہلی سیڑھی پر پیدا ہوتا ہے اور وہ ہے فطرت۔ جس طرح
گناہوں کا کوئی پیندہ نہیں ہوتا اور نیکیوں کی کوئی چھت، بالکل اسی طرح
تکمیل کے مراحل میں آپ سیدھا اور اُلٹا دونوں طرف چل سکتے ہیں۔
فطرت کا مطلب ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ پر توجہ دے اور دوسروں کو نہ
دیکھے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ ہر وہ شخص جو دوسروں کی توجہ کا طالب ہو،
اِس قابل نہیں ہوتا کہ کسی پر توجہ کرسکے۔ تو آدمی اپنی فکر کرے اور بس۔
گناہ ہی گننے ہیں تو کیا اپنے تھوڑے ہیں؟
فطرت سے پہلا الٹا قدم پڑتا ہے غفلت میں۔ یہاں نہ آدمی کو اپنا پتہ ہوتا
ہے نہ دوسروں کا۔ ایک قدم اور پیچھے پڑتا ہے تو منافقت پر پہنچتا ہے۔
منافقت ایک ایسا آئینہ ہے جہاں اپنے آپ کے علاوہ سب دِکھتا ہے۔ یہاں آدمی
اپنے سوا سب کو دیکھتا ہے۔ یہ خطرناک گھاٹی ہے۔ ایک قدم اور پیچھے اور آدمی
عبرت کے گڑھے میں جا گرتا ہے اور بڑی مشکل سے نکل پاتا ہے۔
اب سیدھا چلتے ہیں۔ فطرت سے ایک قدم آگے پڑتا ہے تو بندہ قدرت پر پہنچتا
ہے۔ یہاں بندہ ڈرتا ہے کہ اللہ پکڑ لے گا مجھے بھی اور باقی لوگوں کو بھی۔
اِس کا کسی سے لگا نہیں، یاری نہیں۔ جب چاہے، جسے چاہے، جہاں چاہے، جیسے
چاہے پکڑ لے، کون اِس کا ہاتھ روک سکتا ہے۔ یہ بڑی اچھی سیڑھی ہے۔ آدمی کو
مرتے دم تک ڈرتے ہی رہنا چاہئے۔ ایک قدم اور آگے بڑھتا ہے تو رحمت کی سیڑھی
پر آجاتا ہے۔ یہاں اسے لگتا ہے کہ اللہ سب کو بخش دے گا گنہگار سے گنہگار
کو بھی۔ اِس کی رحمت کسی جواز کی محتاج نہیں۔ وہ بے وجہ بخش دے، اُسے کس نے
روکنا ہے؟
دنیا میں لوگوں کی اکثریت قدرت و رحمت کے درمیان جھولا جھولتے گزر جاتی
ہے اور بڑی اچھی بات ہے بیم و رجا کے درمیان زندگی گزر جائے۔ جوانی میں خوف
تو بڑھاپے میں رحمت غالب رہے تو کیا کہنے۔
کچھ آشفتہ سروں کی پیاس یہاں بھی نہیں بجھتی۔ اب وہ اگلا قدم رکھتے ہیں
محبت کی سیڑھی پر۔ اب ہر عمل کی علّت اور ہر کام کی حجت، محبت ہی ہوتی ہے
اور بڑا فرق ہے وہ نماز جو عقل سے پڑھی جائے اور وہ جو محبت سے ادا ہو اُس
میں۔ وہ سجدہ جو قرب کی نیت سے کیا جائے، اُس کے کیا کہنے۔ وہ قرآن جو حمد
کی نیت سے پڑھا جائے، وہ دعا جو پڑھنے والے کو فطری نظام سے نکال کر بندگی
میں لے جائے اور وہ نظر جو صرف تکتی جاوے اُس آس میں کب در کھلے، کب رسائی
ممکن ہو کب سنوائی ہو، کب وہ مل جائیں، کب وہ راضی ہوجائیں اور ایسے کہ پھر
نہ روٹھیں۔
بس آدمی کو محبت پر ہی رک جانا چاہئے، اُس سے اگلا قدم حقیقت ہے۔ یہاں
پہنچنے کی کوشش اپنے معنی بدل دیتی ہے۔ ہر لذت اپنا وجود کھو دیتی ہے۔ علم،
جہل اور جہل علم بن جاتا ہے۔ جاننا، نہ جاننے اور نہ جاننا، جاننے کے
برابر ہوجاتا ہے۔ آدمی ذات باری تعالی میں سفر کرتا ہے اور ہر گزرا دن، ہر
گزرا لمحہ سوائے پچھتائے جانے کے، کسی قابل نہیں رہتا۔ بندے کو فرق پتہ
لگتا ہے کہ خدا اور بندے میں کوئی موازنہ نہیں۔ وہ وہ ہے اور میں میں ہوں۔
وہ سب کچھ، میں کچھ نہیں۔ آدمیت اور اعمال کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔
اور آخری مرحلہ حیرت کا ہوتا ہے۔ یہاں پہنچنے والا کچھ بتانے کے قابل
نہیں رہتا۔ تنہائی عزیز ہوجاتی ہے، اپنی مرضی رب کائنات کی مرضی میں غائب
ہوجاتی ہے۔ عشق، محبت، بندگی سب پیچھے رہ جاتے ہیں۔ آنکھیں و دل خیرہ
ہوجاتے ہیں۔ کبھی ایسی نوازشیں ہوتی ہیں کہ دل پھٹ جاتا ہے اور بندہ مرجاتا
ہے۔
یہاں پہنچ کے سیکھ بانچھ ہوجاتی ہے۔ طلب فنا ہوجاتی ہے، پیاس تسکین
پالیتی ہے، دل ٹھہر جاتا ہے اور سوائے حیرت کے، کچھ باقی نہیں بچتا، خود
بندہ بھی۔
آدمی کی پوری زندگی اُن سیڑھیوں کو چڑھنے اُترنے میں پوری ہوجاتی ہے۔
کوئی قدرت سے عبرت پر گرتا ہے تو کوئی غفلت سے حیرت پر۔ فرق صرف وہاں پڑتا
ہے جہاں خاتمہ ہوجائے۔ جب موت کے فرشتے سرہانے آئیں کہ چلو، ہم تمہیں لینے
آئیں ہیں تب غور کرنا چائیے کہ آنسو کون سے نکلے؟ خوشی کے، حیرت کے؟ صدمے
کے؟ افسوس کے؟ محبت کے؟
غفلت کے؟ عبرت کے؟ یا بندگی کے؟
مصنف
ذیشان الحسن عثمانی
ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ اور آئزن ہاور فیلو اور متعدد کتابوں کے مصنف
ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر
باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں
چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے zusmani78@gmail.com
پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment