Monday 30 January 2017

Satellite TV Engineering

 

How DSNG system works? 

 

DSNG stands for Digital Satellite News Gathering. DSNG system is used as mobile earth station. To perform live broadcasting from a remote place where any physical link like optical fiber, transmission wire,  radio link are not available, then the satellite link is the only way to send the raw footage to the main TV station. The DSNG system is approximately similar to the earth station system together with a mini program control system. The signal flow in the DSNG system as like as below. 

Figure: Block diagram of DSNG system workflow

TV station can use the same satellite or different satellite for main up-link and DSNG system.   After transmitting the raw footage by DSNG, main station receives that signal. Now it comes to the base band section, processed and then made ready for final on-air through the main up-link.

 
Figure: Up-link and down-link procedure of  DSNG system
 
 
 
 

Wednesday 18 January 2017

آئیے منافقت سے حیرت کی طرف کا سفر طے کریں

ہر شخص تکمیل کی پہلی سیڑھی پر پیدا ہوتا ہے اور وہ ہے فطرت۔ جس طرح گناہوں کا کوئی پیندہ نہیں ہوتا اور نیکیوں کی کوئی چھت، بالکل اسی طرح تکمیل کے مراحل میں آپ سیدھا اور اُلٹا دونوں طرف چل سکتے ہیں۔
ادھورگی کا غم بھی بہت عجیب ہے۔ یہ ایک ایسی چبھن ہے جو متواتر ہوتی ہے اور ہر بار از سر نو تکلیف دیتی ہے۔ ہر شخص کو زندگی میں کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں ا<س کا احساس ضرور ہوتا ہے اور پھر وہ اپنی تکمیل چاہتا ہے۔
آدھے اور ادھورے میں بڑا فرق ہے۔ آدھا وہ جو مکمل سے ٹوٹ گیا ہو، مثلاً ایک شاخ کے دو ٹکڑے کردیں، اب دونوں ٹکڑے آدھے آدھے کہلائیں گے اور یہ دونوں کبھی مکمل رہ چکے ہوتے ہیں۔
ادھورا بہت مختلف ہے۔ یہ وہ ہوتا ہے جس کو کبھی اپنا بقیہ حصہ ملا ہی نہیں ہوتا ہے، اور جس کو ایک عمر گزارنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ اب کچھ کمی ہے، ابھی تکمیل باقی ہے اور ظلم یہ ہے کہ یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ وہ گمشدہ حصہ کہاں ملے گا؟ کیسا دکھتا ہے کہ پہچان ہی ہوسکے اور زندگی میں کبھی مل بھی سکے گا یا نہیں۔
شاعر کہتا ہے؛
اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں
ورنہ تجھ سےتو مجھے پیار نہیں
ہر شخص کی ادھورگی الگ اور تکمیل منفرد۔ کوئی جذبات سے تکمیل چاہتا ہے تو کوئی جنون سے، کسی کو علم میں تکمیل نظر آتی ہے تو کسی کو اعمال میں، کوئی سیکھ کے پہنچنا چاہتا ہے تو کوئی سکھا کے۔ کوئی دیکھ کے منزل پر آنا چاہتا ہے تو کوئی سُن کے۔ کوئی مان کے تو کوئی منوا کے، کوئی مر کے پہنچتا ہے تو کوئی جی کے۔
قصہ کوئی ہو، تکمیل کے مراحل سب کی زندگی میں یکساں ہی ہوتے ہیں۔ اب کون کس ترتیب سے طے کرتا ہے، کس رفتار سے کرتا ہے یا گنتی کہاں سے شروع ہوتی ہے، اِس کا کوئی نصاب نہیں اور جہاں نصاب نہ ہو، وہاں حساب کتاب بھی مشکل ہی ہے۔ بے نصاب والوں کو بے حساب ملتا ہے۔
ہر شخص تکمیل کی پہلی سیڑھی پر پیدا ہوتا ہے اور وہ ہے فطرت۔ جس طرح گناہوں کا کوئی پیندہ نہیں ہوتا اور نیکیوں کی کوئی چھت، بالکل اسی طرح تکمیل کے مراحل میں آپ سیدھا اور اُلٹا دونوں طرف چل سکتے ہیں۔
فطرت کا مطلب ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ پر توجہ دے اور دوسروں کو نہ دیکھے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ ہر وہ شخص جو دوسروں کی توجہ کا طالب ہو، اِس قابل نہیں ہوتا کہ کسی پر توجہ کرسکے۔ تو آدمی اپنی فکر کرے اور بس۔ گناہ ہی گننے ہیں تو کیا اپنے تھوڑے ہیں؟
فطرت سے پہلا الٹا قدم پڑتا ہے غفلت میں۔ یہاں نہ آدمی کو اپنا پتہ ہوتا ہے نہ دوسروں کا۔ ایک قدم اور پیچھے پڑتا ہے تو منافقت پر پہنچتا ہے۔ منافقت ایک ایسا آئینہ ہے جہاں اپنے آپ کے علاوہ سب دِکھتا ہے۔ یہاں آدمی اپنے سوا سب کو دیکھتا ہے۔ یہ خطرناک گھاٹی ہے۔ ایک قدم اور پیچھے اور آدمی عبرت کے گڑھے میں جا گرتا ہے اور بڑی مشکل سے نکل پاتا ہے۔
اب سیدھا چلتے ہیں۔ فطرت سے ایک قدم آگے پڑتا ہے تو بندہ قدرت پر پہنچتا ہے۔ یہاں بندہ ڈرتا ہے کہ اللہ پکڑ لے گا مجھے بھی اور باقی لوگوں کو بھی۔ اِس کا کسی سے لگا نہیں، یاری نہیں۔ جب چاہے، جسے چاہے، جہاں چاہے، جیسے چاہے پکڑ لے، کون اِس کا ہاتھ روک سکتا ہے۔ یہ بڑی اچھی سیڑھی ہے۔ آدمی کو مرتے دم تک ڈرتے ہی رہنا چاہئے۔ ایک قدم اور آگے بڑھتا ہے تو رحمت کی سیڑھی پر آجاتا ہے۔ یہاں اسے لگتا ہے کہ اللہ سب کو بخش دے گا گنہگار سے گنہگار کو بھی۔ اِس کی رحمت کسی جواز کی محتاج نہیں۔ وہ بے وجہ بخش دے، اُسے کس نے روکنا ہے؟
دنیا میں لوگوں کی اکثریت قدرت و رحمت کے درمیان جھولا جھولتے گزر جاتی ہے اور بڑی اچھی بات ہے بیم و رجا کے درمیان زندگی گزر جائے۔ جوانی میں خوف تو بڑھاپے میں رحمت غالب رہے تو کیا کہنے۔
کچھ آشفتہ سروں کی پیاس یہاں بھی نہیں بجھتی۔ اب وہ اگلا قدم رکھتے ہیں محبت کی سیڑھی پر۔ اب ہر عمل کی علّت اور ہر کام کی حجت، محبت ہی ہوتی ہے اور بڑا فرق ہے وہ نماز جو عقل سے پڑھی جائے اور وہ جو محبت سے ادا ہو اُس میں۔ وہ سجدہ جو قرب کی نیت سے کیا جائے، اُس کے کیا کہنے۔ وہ قرآن جو حمد کی نیت سے پڑھا جائے، وہ دعا جو پڑھنے والے کو فطری نظام سے نکال کر بندگی میں لے جائے اور وہ نظر جو صرف تکتی جاوے اُس آس میں کب در کھلے، کب رسائی ممکن ہو کب سنوائی ہو، کب وہ مل جائیں، کب وہ راضی ہوجائیں اور ایسے کہ پھر نہ روٹھیں۔
بس آدمی کو محبت پر ہی رک جانا چاہئے، اُس سے اگلا قدم حقیقت ہے۔ یہاں پہنچنے کی کوشش اپنے معنی بدل دیتی ہے۔ ہر لذت اپنا وجود کھو دیتی ہے۔ علم، جہل اور جہل علم بن جاتا ہے۔ جاننا، نہ جاننے اور نہ جاننا، جاننے کے برابر ہوجاتا ہے۔ آدمی ذات باری تعالی میں سفر کرتا ہے اور ہر گزرا دن، ہر گزرا لمحہ سوائے پچھتائے جانے کے، کسی قابل نہیں رہتا۔ بندے کو فرق پتہ لگتا ہے کہ خدا اور بندے میں کوئی موازنہ نہیں۔ وہ وہ ہے اور میں میں ہوں۔ وہ سب کچھ، میں کچھ نہیں۔ آدمیت اور اعمال کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔
اور آخری مرحلہ حیرت کا ہوتا ہے۔ یہاں پہنچنے والا کچھ بتانے کے قابل نہیں رہتا۔ تنہائی عزیز ہوجاتی ہے، اپنی مرضی رب کائنات کی مرضی میں غائب ہوجاتی ہے۔ عشق، محبت، بندگی سب پیچھے رہ جاتے ہیں۔ آنکھیں و دل خیرہ ہوجاتے ہیں۔ کبھی ایسی نوازشیں ہوتی ہیں کہ دل پھٹ جاتا ہے اور بندہ مرجاتا ہے۔
یہاں پہنچ کے سیکھ بانچھ ہوجاتی ہے۔ طلب فنا ہوجاتی ہے، پیاس تسکین پالیتی ہے، دل ٹھہر جاتا ہے اور سوائے حیرت کے، کچھ باقی نہیں بچتا، خود بندہ بھی۔
آدمی کی پوری زندگی اُن سیڑھیوں کو چڑھنے اُترنے میں پوری ہوجاتی ہے۔ کوئی قدرت سے عبرت پر گرتا ہے تو کوئی غفلت سے حیرت پر۔ فرق صرف وہاں پڑتا ہے جہاں خاتمہ ہوجائے۔ جب موت کے فرشتے سرہانے آئیں کہ چلو، ہم تمہیں لینے آئیں ہیں تب غور کرنا چائیے کہ آنسو کون سے نکلے؟ خوشی کے، حیرت کے؟ صدمے کے؟ افسوس کے؟ محبت کے؟ 
غفلت کے؟ عبرت کے؟ یا بندگی کے؟

مصنف

ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ اور آئزن ہاور فیلو اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے zusmani78@gmail.com پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
 
 

Monday 16 January 2017

Salsabeel : معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

Salsabeel : معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احادیث اور کتب فضائل میں آتا ہےکہ ابھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کو ابھی...

Tuesday 10 January 2017

Salsabeel : درد دل کا مرض

Salsabeel : درد دل کا مرض: وہ ناشتہ کر رھی تھی. مگر اس کی نظر امی پر جمی ھوئی تھی. ادھر امی ذرا سی غافل ھوئی. ادھر اس نے ایک روٹی لپٹ کر اپنی پتلون کی جیب میں ...

درد دل کا مرض



وہ ناشتہ کر رھی تھی. مگر اس کی نظر امی پر جمی ھوئی تھی. ادھر امی ذرا سی غافل ھوئی. ادھر اس نے ایک روٹی لپٹ کر اپنی پتلون کی جیب میں ڈال لی. وہ سمجھتی تھی کہ امی کو خبر نہیں ھوئی. مگر وہ یہ بات نہیں جانتی تھی کہ ماؤں کو ہر بات کی خبر ھوتی ھے. وہ سکول جانے کے لئے گھر سے باہر نکلی .اور پھر تعاقب شروع ھو گیا. تعاقب کرنے والا ایک آدمی تھا. وہ اپنے تعاقب سے بے خبر کندھوں پر سکول بیگ لٹکائے اچھلتی کودتی چلی جا رھی تھی. جب وہ سکول پہنچی تو,, دعا,,شروع ھو چکی تھی. وہ بھاگ کر دعا میں شامل ھو گئی. بھاگنے کی وجہ سے روٹی سرک کر اس کی جیب میں سے باہر جھانکنے لگی. اس کی سہیلیاں یہ منظر دیکھ کر مسکرانے لگیں. مگر وہ اپنا سر جھکائے، آنکھیں بند کیے پورےانہماک سے جانے کس کے لئے دعا مانگ رھی تھی. تعاقب کرنے والا اوٹ میں چھپا اس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ھوئے تھا .دعا کے بعد وہ اپنی کلاس میں آ گئی .باقی وقت پڑھنے لکھنے میں گزرا .مگر اس نے روٹی نہیں کھائی. گھنٹی بجنے کے ساتھ ھی سکول سے چھٹی کا اعلان ھوا. تمام بچے باہر کی طرف لپکے. اب وہ بھی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئی. مگر اس بار اس نے اپنا راستہ بدل لیا تھا. تعاقب کرنے والا اب بھی تعاقب جاری رکھے ھوئے تھا .پھر اس نے دیکھا .وہ بچی ایک جھونپڑی کے سامنے رکی .جھونپڑی کے باہر ایک بچہ منتظر نگاھوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا. اس بچی نے اپنی پتلون کی جیب میں سے روٹی نکال کر اس بچے کے حوالے کر دی. بچے کی آنکھیں جگمگانے لگیں .اب وہ بے صبری سے نوالے چبا رہا تھا. بچی آگے بڑھ گئی. مگر تعاقب کرنے والے کے پاؤں پتھر ھو چکے تھے.وہ آوازوں کی باز گشت سن رہا تھا.
,,لگتا ھے کہ اپنی,, منی,,بیمار ھے...,,
,,کیوں...کیا ھوا ...,,
,,اس کے پیٹ میں کیڑے ھیں...ناشتہ کرنے کے باوجود ایک روٹی اپنے ساتھ سکول لے کر جاتی ھے. وہ بھی چوری سے....,, یہ اس کی بیوی تھی.
,,کیا آپ کی بیٹی گھر سے کھانا کھا کر نہیں آتی...,,
,,کیوں...کیا ھوا....,,
,,روزانہ اس کی جیب میں ایک روٹی ھوتی ھے....,, یہ کلاس ٹیچر تھی..... وہ جب اپنے گھر میں داخل ھوا. تو اس کے کندھے جھکے ھوئے تھے.
,,ابو جی... ابو جی...,, کہتے ھوئے منی اس کی گود میں سوار ھو گئی.
,,کچھ پتا چلا...,, اس کی بیوی نے پوچھا.
,,ھاں....پیٹ میں کیڑا نہیں ھے. درد دل کا مرض ھے...,,ابو کا دل بھر آیا .منی کچھ سمجھ نہیں پائی تھی.

how to be happy

Recognize negative thoughts and burn them before they can take control of your mind. Don’t be controlled by your emotions, instead you try to control them and surround yourself with things, which make you feel relaxed and happy.

Sunday 1 January 2017

معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

احادیث اور کتب فضائل میں آتا ہےکہ ابھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کو ابھی چند مہینےرہتےتھےکہ آپ کےوالد ماجد کا انتقال ہوگیا۔ صحابہ سےمنقول ہےکہ ان کےانتقال کےموقع پر فرشتوں نےاللہ رب العزت کےحضور عرض کیا کہ باری تعالیٰ تیرےمحبوب کی ولادت سےپہلےان کےوالد کا انتقال ہوگیا ہےتو کیا تیرا محبوب یتیم ہوگا چونکہ جب نبی اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور آپ کےوالد حضرت عبداللہ کی پشت مبارک سےآپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کےبطن مبارک میں منتقل ہوا تو وہ رات جمعرات تھی اس رات آسمانوں اور جنت کو نور سےسجادیا گیا۔ غلمانوں، حوروں اور فرشتوں کو مبارک بادیں دی گئیں اور یہ آواز دی گئی کہ مبار ک ہو آج وہ نور اقدس جس کی خاطر کائنات تخلیق کی گئی تھی وہ نور اپنی والدہ ماجدہ کےبطن مبارک میں منتقل ہوگیا ہے۔ اب وہاں جسمانی وجود کی تشکیل ہوگی اور نبی آخرالزماں دنیا میں تشریف لائیں گے۔ تمام ملائکہ حورو غلمان، آسمانی اور جنتی مخلوق کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےتولد سےکم و بیش آٹھ نو ماہ قبل اس نور کےمنتقل ہونےکی خبر ہوگئی۔

کچھ عرصہ کےبعد جب آپ کےوالد ماجد کا انتقال ہوگیا اس وقت پھر ملائکہ نےسوال کیا کہ باری تعالیٰ یہ محبوب جس کی خاطر تو نےساری کائنات بنائی ہےجس کےنور منتقل ہونےپر مبارکبادیاں دی گئیں جنتیں سجائی گئیں کیا تیرا محبوب یتیم ہوکر پیدا ہوگا؟ اللہ پاک نےجواب میں فرمایا میرامحبوب بےسہارا نہیں ہوگا اس کا سہارا میں خود ہونگا اور میں خود اس کی پرورش کی نگہبانی کرنےوالا ہونگا۔ حضور علیہ الصلوة والسلام کی ولادت باسعادت ہوئی تو والد کا انتقال ہوچکا تھا پھر آپ کےبعد حضرت عبدالمطلب نےابتدائی پرورش فرمائی تھوڑی عمر میں والدہ ماجدہ کا انتقال ہوگیا والدہ کےبعد دادا کا وصال ہوگیا پھر آپ کےچچا حضرت ابوطالب نےنگہبانی کی ذمہ داری لی اور وہ آپ کی جوانی اور اعلان نبوت کےبعد تک حیات رہےاس دوران بڑےبڑےمشکل دن، مشکل لمحےاور مشکل واقعات و حالات آئے۔

جب آپ کی شادی ہوگئی تو گھریلو معاملات میں حضرت خدیجة الکبری معاون ہوگئیں اور باہر کےمعاملات میں حضرت ابوطالب آپ کےمعاون ہوگئےحضرت خدیجة الکبری نےاپنا مال و دولت، سرمایہ، کاروبار، تجارت سارا کچھ آپ پر اور اسلام کےفروغ پر خرچ کردیا۔ حضور علیہ السلام ان سےمشورہ بھی طلب فرماتےتھے، رائےبھی لیتےتھےجب آپ کی عمر مبارک ٨٤ برس کو پہنچی اور بعثت جو بھءسات برس ہوئےتھےکہ مخالفت و عداوت شدت اختیار کر گئی اس سال آپ کو اور آپ کےپورےخاندان کو ایک گھاٹی جو شعب ابی طالب کےنام سےمشہور ہےنظر بند کردیا گیا۔ ناقہ بندی کردی گئی۔ کھانا پینا اور خوراک سب کچھ ختم کردیا۔ خاندان نبوت کا سوشل بائیکاٹ کردیا گیا اور تین سال تک آپ کا پورا خاندان اور آپ خود اس ظاہری انتہائی تکلیف سےدوچار رہا۔ تین سال تک اس قید کی گھاٹی میں گزاری۔

اس کےبعد جب آپ باہر تشریف لائےتو آپ کی عمر مبارک پچاس برس کی تھی اسی سال حضرت خدیجة الکبری کا وصال ہوگیا اور اسی سال حضرت ابوطالب کا بھی وصال ہوگیا۔ تین سال کی قید و بند اور صعوبتیں، بےپناہ مخالفت، بےپناہ مزاحمت، بےپناہ عداوت، بڑی سازشیں، بڑی رکاوٹیں، ظاہری رشتوں کےناطےمیں جو لوگ معاون تھےوہ دنیا سےرخصت ہوگئےیہ آپ کےلئےغموں سےبھرا ہوا سال تھا۔ اس لئےاس سال کو عام الحزن کہتےہیں یعنی غم والا سال۔ وہ اللہ رب العزت نےفرمایا تھا کہ میرا محبوب بےسہارا نہیں اس کا سہارا میں ہوں۔ حضور علیہ السلام پر جب یہ غم والا سال آیا تو نہ والدہ ماجدہ نہ والد گرامی، نہ دادا، نہ چچا اور نہ زوجہ محترمہ تھیں جو صحابہ کرام ایمان لاچکےتھےوہ بھی مصائب اور آلام کی زد میں تھے۔ جب غم و اندوہ کا یہ سال آیا اس وقت اللہ رب العزت نےحضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا اور حکم دیا۔ اےجبرائیل براق لےجاؤ اور دولہےکی طرح سجاکر میرےمحبوب کو لےآؤ تاکہ میں مقام قاب قوسین پر تخلیہ میں آمنےسامنےبٹھا کر اپنا دیدار عطا کروں تاکہ وہ مجھےدیکھےتو سارےغم بھول جائے۔

جب غم اندوہ پریشانیاں انتہا تک پہنچتی ہیں پھر انسان کو ضرورت محسوس ہوتی ہےکہ کوئی غموں کو بانٹنےوالا ہو کوئی دکھوں کا بوجھ اتارنےوالا ہو کوئی ایسا ہو جس سےدلوں کےدکھ بیان کئےجائیں کچھ سنےاور کچھ سنائےاور بوجھ اتر جائےکوئی جتنا ہی پیارا ہو اس قدر اس سےمل کر غم دور ہوتےہیں۔ پہلےتو یہ تھا کہ باہر کفار پتھر مارتےتھے، تنگ کرتےتھے، برا بھلا کہتے، ظلم کرتے، مصیبتوں کےپہاڑ ڈھاتےاور حضور علیہ السلام جب اس حالت میں گھر تشریف لاتےتو آگےحضرت خدیجة الکبری محبت بھرےکلمات عرض کرتیں۔ کبھی چچا کےکلمات کان میںپڑتےکہ ساری دنیا بھی میری دشمن ہوجائےاس کےباوجود میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔ خاص خاص وقتوں میں یہ کلمات کام آتےتھے۔ جب یہ سارےدنیا سےاٹھ گئےنہ حضرت خدیجة الکبری رہیں جو کہ غموں کو بانٹتی۔ نہ چچا ابوطالب رہےکہ غموں کو بانٹتےاور معاشرتی مقاطع کی وجہ سےحالات بہت ہی عجیب ہوگئے۔ جبکہ اللہ پاک نےفرمایا تھا کہ اپنےمحبوب کا سہارا میں خود ہوں۔ غم و اندوہ میں اللہ رب العزت نےفرمایا اےمحبوب اب کوئی ایسا نہیں جسےتو اپنےغم سنائے۔ اب تمہیں ہم اپنےپاس بلاتےہیں۔ پھر درمیان سےسارےپردےہٹادیں گےاور قاب قوسین پر تجھےبٹھائیں گے۔ تو ہمیں دیکھتا ہوگا اور ہم تجھےدیکھتےہونگے۔ تو ہمیں سنتا ہوگا اورہم تمہیں سنتےہونگے۔ اس طرح وہ سارےغم غلط ہوجائیں گےبلکہ وہ ایسی ملاقات ہوگی کہ محبوب جب تک تو اس دنیا میں رہےگا اس ملاقات کی یاد کبھی بھولےگی نہیں اور آئندہ آنےوالےدنوں کےجو غم و دکھ ہونگےوہ یاد انہیں بھی بھلاتی رہےگی حضور علیہ السلام حضرت ام ہانی یا صحن کعبہ میں یا اور مختلف مقامات کا ذکر آیا ہےتشریف فرما تھے۔ حضرت جبرائیل امین سفید رنگ کا براق لیکر حاضر ہوئےوہ نورانی جانور حضور علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ جبرائیل علیہ السلام نےحضور علیہ السلام کو قدموں مبارکوں کی طرف سےبلایا آقا دو جہاںصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھ مبارک کھلی تو پوچھا جبرائیل کیسےآئےہو عرض کیا اللہ نےیاد فرمایا ہےاور آپ کو لیجانےکےلئےسواری بھیجی ہے۔ آپ دوستوں کو ملنےجاتےہیں دعوت بھی دیتےہیں اللہ پاک اس بات پر قادر تھا اور قادر ہےکہ اپنی قدرت سےحضور علیہ السلام کو اپنےپاس بلالیتا۔ مگر چونکہ غم دور کرنےتھے۔ اس دنیا سےبلانا تھا تو دنیا کی ایک روش ہےکہ بڑی عزت اور اکرام کےلئےسواری بھیج کر بلایا جاتا ہے۔ اللہ پاک نےعالم نور کی سب سےبلند ترین سواری بھیجی تاکہ پتہ چلےکہ محبوب کو بلایا ہے۔ یوں بھی فرماسکتےتھےمحبوب آجا آج کی رات چند لمحوں کیلئےہمیں مل جا فرماسکتےتھے۔ محبوب کو سواری پر لیجانےپر قادر ہےوہ بغیر سواری کےبھی لیجانےپر قادر ہےاور بغیر جبرائیل کےبھی قادر ہےجیسےسواری بھیجنےمیں مہمان کی ایک عزت ہوتی ہےاسی طرح سواری کےساتھ ایک شخص بھیجنےمیں بھی عزت ہوتی ہے۔ جبرائیل امین سےبہتر اللہ کی آسمانی مخلوق میں کوئی نہ تھا۔ بہترین فرد کو منتخب کرکےحضور کی بارگاہ میں بھیجا۔

حضور علیہ السلام تیار ہوکر سواری پر بیٹھےاور سب سےپہلےبیت المقدس گئےیہاں ایک جگہ تھی جہاں انبیاءعلیھم السلام اپنی سواریوں کو باندھا کرتےتھےحضور علیہ الصلوة والسلام کی سواری یہاں باندھی گئی اور وہاں حضور علیہ الصلوة والسلام نےدو رکعت نفل ادا فرمائی۔ جب بیت المقدس میں سب انبیاءکی ارواح کو حکم ہوا کہ تم سب صف بہ صف میرےمحبوب کا استقبال کرو حضور علیہ السلام نےجماعت کرائی انبیاءعلیھم السلام نےحضور کےپیچھےنماز ادا فرمائی۔ بیت المقدس سےجب سفر شروع ہونےلگا تو دنیا کی خوراک اور غذائیں بند ہوگئیں جنت کی نورانی غذائیں شروع ہوگئیں۔ اس دنیا میں جنتی خوراک کا کھانا اس امر پر دلالت کرتا ہےکہ حضور علیہ الصلوة والسلام کا پیکر بشریت اس دنیا میں رہتےہوئےبھی جنتی اور نورانی احوال کا مالک تھا۔ چاہتےتو دنیا کی خوراک کھاتےاس سےنورانیت کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اور چاہتےتو اسی دنیا میں عالم نورانیت کی خوراک کھاتےبشریت مانع نہیں ہوتی تھی۔ بشریت نور سےاعلیٰ تھی اور نورانیت نور سےبھی اعلیٰ تھی۔ آپ نےاس میں سےدودھ کو منتخب فرمایا اور پی لیا۔ حضور علیہ الصلوة والسلام کا سفر شروع ہوگیا

پہلےآسمان دنیا پر پہنچےجبرائیل علیہ السلام نےدروازہ کھٹکھٹایا۔ اسی لئےتو ساتھ بھیجا تھا کہ کسی جگہ بھی حضور علیہ الصلوة والسلام کو دروازےکھٹکھٹانےکی ضرورت پیش نہ آئی۔ میرےمحبوب کو آو از نہ دینی پڑے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نےدروازہ کھٹکھٹایا اندر سےآواز آئی کون؟ حضرت جبرائیل نےفرمایا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائےہیں۔

پہلےآسمان پر سیدنا حضرت آدم علیہ السلام سےملاقات ہوئی انہوں نےحضور علیہ السلام کا استقبال کیا، دعائیں دیں، پہلےآسمان کی سیر کرکےآگےپہنچی۔ دوسرےآسمان پر تشریف لےگئےوہاں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ بن زکریا علیھا السلام استقبال کرنےکےلئےموجود تھےدوسرےآسمان کی سیر کےبعد حضور علیہ الصلوة والسلام کو تیسرےآسمان پر پہنچایا گیا تیسرےآسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سےملاقات ہوئی پھر حضور علیہ السلام آگےتشریف لےگئےچوتھا آسمان کا دروازہ کھلا یہاں حضرت ادریس علیہ السلام استقبال کےلئےموجود تھےپھر پانچویں آسمان پر سیدنا حضرت ہارون علیہ السلام استقبال کےلئےموجود تھےپھر چھٹےآسمان پر حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام استقبال کیلئےموجود تھےساتویں آسمان پر حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام استقبال کیلئےموجود تھےپہلےآسمان پر آسمانی دنیا میں داخل ہورہےتھےاس لئےوہاں حضرت آدم علیہ السلام تشریف فرما ہیں ساتواں آسمان آسمانِ دنیا سےخروج تھا وہاں حضور علیہ السلام کےجد حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام موجود تھے۔ ساتویں آسمان سےبھی آگےگزرےاور سدرة المنتہیٰ اور عرش معلی پر پہنچے۔ سارےآسمانی اور بالائی آسمان کےفرشتےجمع ہوگئےفرشتوں نےعرض کیا مولا تیرا محبوب آرہا ہےکوئی ایسی سبیل کر کہ ہم سارےتیرےمحبوب کا جلوہ کرلیں اللہ پاک نےفرمایا سدرة المنتہیٰ پر آجائو تو ملائکہ جمع ہوگئےحضور علیہ السلام گزرےحکم ہوا سارےملائکہ کو کہ میرےمحبوب کا جلوہ کرلو سدرة المنتہیٰ سےگزرتےہوئےحضور علیہ الصلوة والسلام کی زیارت ہوئی عرش معلی پر پہنچےاس طرح جنتوں کی سیر کروائی گئی۔ عرش معلی پر جب پہنچےسدرة المنتہیٰ تک حضرت جبرائیل امین نےساتھ دیا اس کےبعد عرض کیا حضور آگےمیں نہیں جاسکتا آگےجو عالم ہےوہاں اللہ کی ذات کےخاص جلوےہیں اور میرےنور میں اتنی طاقت نہیں کہ اس کےنور کےپرتو کو برداشت کرسکوں اب حضور تنہا اس کےبعد آگےتشریف لےگئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکان و لامکان پر پہنچےتو خود اللہ رب العزت نےاستقبال کیا۔
ثم دنی فتدلی و کان قاب قوسین او ادنی۔
پھر فرمایا
قف یامحمد ان ربک یصلی۔
اب محبوب رک جا تیرا رب تجھ پر صلواة پڑھ کر تیرا استقبال کرتا ہےاپنی شان کےلائق پھر اللہ پاک نےحضور کا استقبال کیا۔ اپنی بارگاہ میں بٹھایا قاب قوسین پر حضور کو فائز کیا قاب قوسین پر فائز کےبعد دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا۔ او ادنی پھر اس سےبھی قریب تر کرلیا اتنا قریب کردیا کہ فاصلوں کا کوئی تصور نہ رہا اور نہ قربتوں کا کوئی تصور رہا اس طرح سارےپردےاٹھالئےحضور علیہ السلام کی آنکھوں میں مازاغ البصر کا کجلا ڈالا گیا اور بینائی دی گئی ماطغی اور قاب قوسین کےمقام پر بٹھادیا گیا پھر پردےاٹھادیئےگئےفرمایا انہ ھو السمیع البصیر اب تیرےکانوں کو وہ سماعت دےدی جس سماعت کا تصور دنیا والےتو کیا ملائکہ بھی نہیں کرسکتے۔ تیری آنکھوں کو وہ نور بصارت دےدی گئی کہ دنیا والوں کی آنکھیں تو درکنار جبرائیل کی بصارت بھی جس کا تصور نہیں کرسکتی۔ آج محبوب تیرےکان خاص کان ہیں تیری آنکھیں خاص آنکھیں ہیں اپنےخاص کانوں سےاو ادنی کی منزل پر بیٹھ کر میری باتیں سن اور اپنی خاص آنکھوں سےمیرےحسن کا جلوہ کر مجھےدیکھ اور مجھےسن میں تجھےدیکھتا ہوں اور تمہیں سنتا ہوں نہ ہم دو کےسوا ہمیں کوئی سنےاور نہ کوئی دیکھےاور پھر بتا کیا اب بھی کوئی غم رہ گئے۔ اس مقام پر اللہ رب العزت نےارشاد فرمایا

”فاوحی الی عبدہ مآ اوحی“ پھر اس نےوحی کی القاءکیا اپنےمحبوب کےدل میں جو چاہی۔ اب وہاں جو باتیں ہوئیں وہ نہ اس وقت بتائی گئیں اور نہ بعد میں بتائی گئیں اور نہ آج تک کسی کو معلوم ہےہر کوئی اندازےلگاتا پھرتا ہے۔ اس میں تھوڑی تھوڑی باتیں ہماری سکت کےمطابق ہماری طاقت اور ہمت کےمطابق جو افشاءکردیں وہ دنیا والوں کو معلوم ہوگئیں جو افشاءنہیں کیں اس کی کوئی خبر نہیں پھر حضور علیہ السلام کو اللہ نےلامکاں سےگزارا اپنی صفات کےمختلف پردوں میں سےگزارا جس جس پر اس کی روشنی آئی اس کا رنگ چڑھتا گیا حتی کہ اس مقام سےپلٹےتو اللہ کی صفات میں رنگےجاچکےتھےاللہ کےرنگ میں رنگےجاچکےتھے۔ اللہ کےرنگ میں ظاہر بھی رنگا جاچکا تھا اور باطن بھی رنگا جاچکا تھا۔ پورےرنگےگئےتھےواپسی پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےعرض کیا مولا اب میں واپس جارہا ہوں مگر یہ جو لذت اور مزہ اس دیدار کا دیا ہے۔ وہاں ہر دن اس ملاقات کی یاد ستائےگی۔ اللہ رب العزت نےارشاد فرمایا: اےمحبوب! یہ معراج تو ہم نےدی ہےاب اس معراج کا تحفہ تجھےدیتےہیں اور وہ تحفہ نماز ہےاسےلیجا جب ہماری اس ملاقات کی یاد ستائےاللہ اکبر کہہ کر نماز میں داخل ہونا محبوب ہر نماز تیری شب معراج بن جائےگی۔ الصلوة معراج المومنین لوگ صرف تیری ذات کےلئےنہیں بلکہ اس سےتیری امت کو بھی کچھ حصہ عطا کرتےہیں عرض کیا مولا میں تو اپنی ہر دعا میں امت کو بھی شریک کیا کرتا ہوں جب امت اس معراج کا تذکرہ سنےگی تو انہیں بھی کچھ لذت آئےگی وہ بھی اپنا حصہ مانگیں گے۔ فرمایا اس نماز کو تیری امت کےلئےبھی معراج بنادیتےہیں۔ پچاس نمازیں دےکر روانہ کردیا جب چھٹےآسمان پر پہنچےسیدنا موسیٰ علیہ السلام نےپوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ نےکیا تحفہ دیا آپ نےفرمایا پچاس نمازیں اللہ نےمیری امت کو عطا کی ہیں انہوں نےعرض کیا حضور آپ کی امت پچاس نمازیں نہیں پڑھ سکےگی۔ میری درخواست یہ ہےآپ جو عرض کریں گےمانا جائےگا کچھ تخفیف کراکےجائیں۔ حضور علیہ السلام کا دھیان اس نعمت پر تھا موسیٰ علیہ السلام کا دھیان ہماری حالت پر تھا۔ حضور علیہ السلام اللہ کی درگاہ میں حاضر ہوئےاور عرض کیا باری تعالیٰ امت شاید یہ بوجھ اٹھا نہ سکےکچھ تخفیف فرمادیں اللہ نےپانچ کم کردیں پھر واپس آئےپھر عرض کیا حضور اور تخفیف کروائیں بار بار جاتےرہےحتی کہ 45 نماز معاف ہوگئیں پانچ رہ گئیں حضور علیہ السلام واپس تشریف لائےتو اللہ پاک نےآواز دی یہ پانچ نماز فرض بناکےبھیجتا ہوں مگر ثواب پچاس نمازوں کا ہی دیتا رہوں گا۔ دوسرا محبوب یہ تحفہ بھی امت کےلئےلیجا کہ آپ کی امت کےلوگ نیکی کا ارادہ کریں گےاس ارادےپر بھی ثواب لکھ دوں گا اور جب نیکی کرلیں گےتو ایک کےبدلےمیں دس لکھوں گا جب کوئی برائی اور گناہ کا ارادہ کریں گےتو کوئی گناہ نہیں لکھوں گا گناہ کرلیں گےتو صرف ایک لکھوں گا توبہ کرلیں گےتو وہ بھی مٹادوں گا حضور تشریف لےآئےتو موسیٰ علیہ السلام نےکہا یہ بھی کچھ زیادہ ہی لگتی ہیں ایک چکر اور لگا لیں فرمایا اب مجھےحیا آتی ہے، مولا تو اب بھی انکار نہیں فرمائےگا مگر مجھےحیا آتی ہےحضور علیہ السلام واپس تشریف لائےتحفہ لاکر ہمیں عطا کردیا جب رخصت ہوئےتھےتو اس وقت غسل فرمایا تھا وہاں خدا جانےکتنی صدیاں بیت گئی ہیں کتنےسال ہمارےحساب سےبیت گئےہونگے۔ یہاں اور وہاں کا حساب تو بڑا مختلف ہےخدا جانےکتنی مدتیں بیت گئیں ہونگیں مگر واپس آئےجس پانی سےغسل کرکےتشریف لےگئےتھےاس کا پانی ابھی بہہ رہا ہےبستر کی تپش موجود تھی اتنا جلد تشریف لےآئےحضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ حضور علیہ السلام تو خدا جانےوہاں کتنی مدتیں گزار کےآئےمگر اس دنیا میں پلٹنےمیں اتنی جلدی محسوس ہوئی یوں لگا جیسےحضور علیہ السلام تشریف ہی نہیں لےگئے۔ نماز کو ہمارےلئےمعراج بنادیا حدیث پاک میں آتا ہےجب کبھی اس ملاقات کی یاد آتی جب بےچین اور روح اضطراب ہوتی اور اس ملاقات کی تو حضرت بلال کو فرماتے۔ بلال آج ہماری روح میں تھوڑی بےچینی ہےذرا ہمارےدل کو سکون دےدےتو وہ اذان کہتےحضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں حضرت بلال اذان کہتےحضور علیہ السلام ہم سےگفتگو کررہےہوتےمگر اللہ اکبر کی آواز بلند ہوتی اذان کےالفاظ آقا کےکان میں پڑتےتو او ادنی کےلمحےیاد آجاتے۔ اذان کی آواز سنتےہی شب معراج کی تنہائیاں یاد آتیں اس طرح حالت ہوجاتی کہ حضور ہمیں پہچاننا بھی چھوڑ دیتے۔
دو عالم سےکرتی ہےبیگانہ دل کو
عجب چیز ہےلذت آشنائی
ارےدوست کو دوست یاد آجائےساری دنیا کی شناسائی بھول جاتی ہےاور انسان محبوب کو تکتا رہ جاتا ہےاورجب خلوت شب معراج مقام او ادنی کےبےنقاب جلوؤں کی یاد آتی ہوگی پھر اللہ اکبر کی مٹھاس آقا کےکانوں میں پڑتی ہوگی اس وقت تو دل دہل جاتےہونگےاور حسن الہٰی آگےسےبےنقاب ہوتا ہوگا پھر حضور کی نگاہیں کسی کو کیوں پہچانتیں پھر نماز پڑھتےہر ایک کو بھول جاتےضرورت اس امر کی ہےکہ معراج کےتذکرےسےحضور علیہ الصلوة والسلام کےلائےہوئےاس تحفہ کی قدر دانی کریں اور آپ اگر مکہ مکرمہ جائیں تو آب زم زم لاتےہیں کھجوریں لاتےہیں تحائف لاتےہیں کوئی لاکر آپ کو دےتو کیا آپ اس کو پھینک دیں گے۔ ہر گز نہیں جس طرح ہمیں مدینہ بہت محترم ہےاسی طرح حضور کا مدینہ او ادنی ہےحضور کا مدینہ قاب قوسین ہےآقا جب وہاں گئےتو ہمارےلئےبھی تحفہ لائےاور وہ تحفہ نماز کا تھا اور تحفہ بھی ایسا دیا کہ اگر ہم پڑھیں تو تھوڑی تھوڑی لذت اسی لمحےمل جائےمگر ہم نےقدر نہیں کی کتنی بےپرواہی کی کتنی بےادبی کی تو آج کی رات یہ عہد کرنا چاہئےکہ حضور کا لایا ہوا تحفہ نماز ہےہم اس کی قدر دانی کریں اس کو سینےسےلگائیں اور ہر نماز میں وہی کیفیت وہی لذت حاصل کریں۔ اللہ پاک ہم پر کرم فرمائےرحم فرمائےاپنا خصوصی لطف وکرم فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم