Wednesday 6 April 2016

آف شور کمپنیاں کیا ہیں

آف شور کمپنیاں کیا ہیں ، ان میں کالے دھن سے سرمایہ کاری کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہو سکتی ہے ؟
پانامہ لیکس نے " آف شور " کمپنیوں کے پیچھے کار فرما بڑے بڑے سیاستدانوں اور شخصیات کا انکشاف کر دیا ہے . یہ آف شور کمپنیاں کیا ہیں ؟ یہ کس قانونی حیثیت کی حامل ہیں ؟ اور ان کے مقاصد کیا ہیں ؟ برطانیہ ، ماریشس اور قبرص سمیت لاطینی امریکہ کے کئی ممالک نے اپنے ساحلوں سے دور جزائر میں بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کے لئے آف شور کمپنیاں قائم کرنے کی اجازت دے رکھی ہے .
ایسی کمپنیوں کے اصل مالکان پس پردہ رہتے ہیں ، ان ممالک نے یہ کمپنیاں ایسے علاقوں یا جزائر میں قائم کرنے کی قانونی اجازت دے رکھی ہے جہاں ان کے ٹیکس کے قوائد و ضوابط اور قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا . دوسرے لفظوں میں آف شور کمپنیوں میں لگایا گیا سرمایہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتا ہے .
آف شور کمپنیاں قانونی ہیں تاہم ان میں لگائے گئے سرمائے کا جائز ہونا ضروری ہے . ان کمپنیوں میں بھی ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی رقم سے سرمایہ کاری نہیں کی جا سکتی . آف شور کمپنیوں کی دستاویزات وکلاء کے پاس ہوتی ہیں اور وکیل ہی تمام ڈاکو منٹیشن کرتے ہیں . جو لوگ کسی وجہ سے اپنا نام چھپانا چاہتے ہیں وہ ایسی کمپنیاں خرید کر سرمایہ کاری کرتے ہیں یا پھر کالے دھن کے ذریعے یہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے . کالے دھن سے آف شور کمپنیوں میں کی گئی سرمایہ کاری کے بارے میں وہ ممالک بھی کارروائی کر سکتے ہیں جن کے جزائر میں یہ کمپنیاں قائم ہوتی ہیں . پاکستانی قانون کے مطابق ان پاکستانیوں سے باز پرس کی جا سکتی ہے جو آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں . آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے لئے رقم کن ذرائع سے حاصل کی گئی ؟ یہ سوال ہر پاکستانی سے کیا جا سکتا ہے ، آف شور کمپنیوں کے مالک عوامی اور سرکاری عہدیدار ہوں تو ان سے قومی احتساب بیورو (نیب) بھی تفتیش کر سکتا ہے اور اگر یہ اثاثے چھپائے گئے ہوں یا پھر ناجائز ذرائع سے حاصل کئے گئے ہوں تو سرکاری اور عوامی عہدیداروں کو قید با مشقت کے علاوہ نااہلی کی سزا بھی دی جا سکتی ہے . جبکہ ٹیکس چھپانے کے جرم میں 3 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے . بیرون ملک آف شور کمپنیوں میں لگانے کے لئے رقم کو جائز ذرائع سے باہر بھیجنا ضروری ہے ، اگر غیر قانونی طور پر سرمایہ باہر بھیجا جائے تو یہ کالا دھن ہو گا جس پر کارروائی ہو سکتی ہے .
آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری وہاں کے قانون کے مطابق درست ہے لیکن ان اثاثوں کا پاکستان میں ظاہر کیا جانا ضروری ہے . جن جزائر میں آف شور کمپنیوں کی اجازت ہے وہاں ان کمپنیوں کے مالکان اور ڈائریکٹروں کے نام پوشیدہ رکھنے کی اجازت ہے تاہم یہ سرمایہ کہاں سے آیا ہے ، اس کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں تاہم یہ ممالک سرمایہ کاری کے حصول کے لالچ میں عملی طور پر اس بات سے نظریں چرا لیتے ہیں . پوری دنیا میں سرمایہ کے وسائل ظاہر کرنا ضروری ہیں ، یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص منشیات فروشی سے رقم حاصل کر کے آف شور کمپنی خرید لے . آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے والے پاکستانیوں سے پاکستانی حکومت یہ سوال کر سکتی ہے کہ اتنا بھاری سرمایہ کہاں سے آیا اور کیا اسے ملک سے باہر منتقل کرتے وقت ٹیکسوں کی ادائیگی سمیت تمام قانونی تقاضے پورے کئے گئے تھے ، اگر ان سوالوں سے حکومت مطمئن نہ ہو سکے تو متعلقہ لوگوں کے خلاف فوجداری اور دیگر قوانین کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے .
لوگ آف شور کمپنیوں کو منی لانڈرنگ کے لئے استعمال کرتے ہیں . ان میں زیادہ تر کالے دھن سے سرمایہ کاری کی جاتی ہے . آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری اگر بالکل صاف شفاف عمل ہے تو پھر پانامہ لیکس کی بنیاد پر یورپی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں تحقیقات کا عمل کیوں شروع ہو گیا ہے . آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری وہاں کے قانون کے مطابق جائز ہے تاہم اس کے لئے رقم کا جائز ذرائع سے حاصل کیا جانا ضروری ہے . جن ممالک کے شہری آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں ان ممالک کو سرمایہ کاروں کے اثاثوں کے بارے میں چھان بین کا اختیار حاصل ہے . آف شور کمپنیوں کے قانونی ہونے کی بنیاد پر کالے دھن اور ناجائز سرمائے کے بارے میں تحقیقات ، تفتیش اور کارروائی نہیں روکی جا سکتی ...

No comments:

Post a Comment