Monday, 30 April 2018

بلاآخر پی ٹی ایم اپنے اصل مطالبات پر آہی گئی۔

بلاآخر پی ٹی ایم اپنے اصل مطالبات پر آہی گئی۔
پی ٹی ایم پاکستان دشمنوں کے سٹریٹیجک مفادات کی نگران تحریک ہے اور یہ بہت جلد فاٹا سے پاک فوج کے مکمل انخلا کا مطالبہ کرے گی۔
تاکہ افغانستان میں امریکہ نے داعش کے جو لشکر بیٹھا رکھے ہیں ان کو دوبارہ فاٹا میں داخل کیا جا سکے۔
اب پی ٹی ایم نے فاٹا سے پاک فوج کے مکمل انخلاء کا مطالبہ شروع کر دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہ سوات میں پاک فوج کی چھاؤنی تعمیر نہ کی جائے۔
پی ٹی ایم باڑ کی تعمیر پر بھی اعتراض کر رہی ہے اور افغانیوں کی واپسی پر بھی۔
مسلمان ممالک کو خود اپنی ہی عوام کے ذریعے برباد کرنے کا یہ تجربہ لیبیا، شام اور عراق میں کامیابی سے کیا جا چکا ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو حقوق اور ظلم کے چند نعرے دے کر اٹھاؤ،
اور خود اپنی ہی ریاست سے ٹکرا دو،
پھر ریاست کے خلاف مظلوموں کی مدد کے لیے انسانی ہمدردی کے نام پر پہنچ جاؤ۔
عراق، شام اور لیبیا میں امریکہ اسی اصول کے تحت پہنچا اور کھنڈر بنا کر رکھ دیا۔ حقوق وغیرہ تو ایک طرف رہے لوگ اپنی جان، مال، عزت اور وطن سے بھی محروم ہوگئے۔
پی ٹی ایم کے ذریعے اب یہ تجربہ پاکستان میں کرنے کی کوشش کی زور و شور سے جاری ہے۔ ظلم اور حقوق کے نام پر لوگوں کو پاکستان کے خلاف اکسانا اور ساتھ ہی امریکہ اور اقوام عالم سے پاکستان کے خلاف مدد طلب کرنا۔
وزیرستان پولیٹکل انتظامیہ کے مطابق پی ٹی ایم کے عناصر نے وزیرستان کا امن دوبارہ خراب کرنا شروع کر دیا ہے اور وہاں اکا دکا کاروئیاں شروع ہوگئی ہیں اور ساتھ ہی چور مچائے شور کے مصداق پی ٹی ایم کا یہ واویلا بھی کہ یہ پاک فوج کر رہی ہے۔
جنگ زدہ علاقوں میں تعئنات پاک فوج کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی گئی ہے۔ کل پاک فوج کی گاڑی کا گھیراؤ کیا گیا، جلد ہی پاک فوج پر کوئی اکا دکا حملہ بھی ہوسکتا ہتھیاروں کے بغیر جس کو احتجاج کا نام دیا جائیگا۔ پاک فوج جواباً کاروائی کرے گی تو بس پھر دیکھنا پوری دنیا میں کیسا واویلا ہوتا ہے کہ جی غیر مسلح سویلینز پر پاک فوج نے حملہ کر دیا وغیرہ۔
اس قسم کے ڈرامے کی ریکارڈنگ وغیرہ کا بھی مکمل بندوبست کیا جاتا ہے تاکہ " ریاستی ظلم " کا نظارہ لوگ اپنی آنکھوں سے کر سکیں۔ یہ نہ ہوسکا تو کسی کو بھی پاک فوج کی وردیاں پہنا کر کچھ بھی کروایا جا سکتا ہے بنگلہ دیش کی طرح۔
یہ بات نوٹ کی جانی چاہئے کہ ن لیگ اور محمود اچکزئی کی حکومت ان بدمعاشوں کی مکمل سپورٹ کا اعلان کر رہی ہے بلکہ ان کے پاکستان مخالف جلسوں کے لیے مریم نواز نے کارکن بھی بھیجے۔ اس جلسے میں پاکستان کی سرزمین پر پاکستان کا جھنڈا لہرانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
لیکن اس غدار ن لیگی حکومت نے لوگوں کو بغاوت پر اکسانے والے اس گروہ سے تاحال بات چیت کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ کیوں ؟؟
پاک فوج نے ان کو اپنے بچے قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ ہر قسم کے مزاکرات کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں تو یہ مزید شیر ہوگئے اور دو دن پہلے منظور پشتین نے باقاعدہ جنگ کی دھمکی دے ڈالی۔ البتہ پوسٹ فوراً ہٹا دی۔
( موصوف ملالہ کی طرح امریکہ سے امن کا نوبل انعام بھی لینا چاہتے ہیں شائد اس لیے :) )
اب ان کے پیروکار کھل کر پاکستان کے خلاف امریکہ اور انڈیا سے مدد طلب کرنے پر آگئے ہیں۔ بلکل الطاف حسین کی طرح۔
خدا کے لیے اب تو یہ راگ الاپنا بند کر دو کہ " جی ان کے مطالبات تو جائز ہیں "
پشتونوں کو ورغلا کر برباد کرنے کی اس تحریک کے خلاف خود پشتونوں کو کھڑا ہونا ہوگا ورنہ یہ لوگ ہمارا امن اور ہمارا ملک ہم سے چھین لینگے!
اس تحریر کو ہر پشتون تک پہنچاؤ۔
(سید زید زمان حامد)


منظور پشتین کون؟؟

منظور پشتین کون؟؟
منظور پشتین ولد عبدل ودود قوم محسود گاؤں ریشوارہ جنوبی وزیرستان۔
منظور کے والد سکول ٹیچر تھے۔ منظور کے تین بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ ایک بھائی فوت ہوچکا ہے۔ منظور نے ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی اور گومل یونیورسٹی سے طب حیوانات میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ سادہ الفاظ میں ڈنگر ڈاکٹر۔
منظور پشتین کا ایک بھائ قاری محسن تحریک طالبان پاکستان کا سرگرم رکن رہا اور بدنام زمانہ خود کش بمبار تیار کرنے والے قاری حسین کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک تھا۔ قاری محسن آج کل روپوش ہے۔ منظور پشتین خود بھی ٹی ٹی پی کے کافی قریب رہا ہے اور قاری حسین اور عظمت اللہ جیسے کمانڈروں کے ساتھ اس کے تعلقات تھے۔ غالباً اسی لیے "پشتون تحفظ موومنٹ" کی سپورٹ کا اعلان سب سے پہلے ٹی ٹی پی نے کیا تھا۔
پاک فوج کے آپریشنز کے بعد دہشت گرد تتر بتر ہوگئے اور منظور جیسے لوگ بھی خاموش ہوکر ایک کونے میں بیٹھ گئے۔
2014 میں منظور نے پشتون تحفظ مومنٹ بنائی۔ مگر کسی کو علم نہ تھا۔ اسی عرصے میں اس کے سرخوں اور این ڈی ایس کے ساتھ رابطے بنے اور اس کی ساتھیوں کے ساتھ آزاد پشتونستان کے جھنڈے والی تصاویر پشتونستان کی ویب سائیٹ پر نظر آنے لگیں۔
اس کے ایک سال بعد اس کے روابط پشتونستان کے علمبردار اور پاکستان کے بدترین دشمن محمود اچکزئی کے ساتھ قائم ہوگئے۔
منظور پشتین 10 سے 15 دسمبر 2017ء کے درمیان سرحد پار افغانستان گئے جہاں کابل اور جلال آباد میں ان کی ملاقاتیں افغان اینٹلی جنس کے اعلی ترین عہدیداروں میں سے ایک ولی داد قندہاری سمیت کئی لوگوں سے ہوئیں جن میں سے کچھ امریکن سی آئی اے کے اہلکار بھی شامل تھے۔ یہ سارا کام جناب محمود اچکزئی کی معرفت ہوا۔
13 جنوری کو نقیب اللہ کا قتل ہوا۔
اسی وقت میڈیا اور سوشل میڈیا پر محمود اچکزئی دورہ انڈیا کی خبریں آئیں جہاں اس نے مبینہ طور پر نریندر مودی کے علاوہ اسرائیلی وزیراعظم سے بھی ملاقات کی۔
نقیب اللہ کے واقعہ کے بعد اچانک منظور پشتین کی جماعت ابھر کر سامنے آئی۔
اور ان کے مطالبات راؤ انوار کی گرفتاری سے شروع کر نہایت تیزی سے آزاد پشتونستان کے نعروں تک پہنچ گئے۔ افغانستان نے پوری شدت سے ان کی سپورٹ کرنی شروع کر دی۔ وائس آف امریکہ اور بی بی سی نے ان کو مسلسل کوریج دے رہے ہیں۔
پی ٹی ایم نے ریاست پاکستان کے خلاف جعلی اور نفرت انگیز مواد پبلش کرنا شروع کر دیا اور پاک فوج پر الزامات کی بوچھاڑ کردی۔
مثال کے طور پر سوات طالبان میں "قصاب" کے نام سے مشہور ہونے والے اس کمانڈر کی ویڈیو جسے زخمی حالت میں پاک فوج کے دو جوان کھینچ رہے ہیں۔ اس کا نام "قصاب" اس لیے پڑا تھا کہ اس کے ہاتھوں ذبح ہونے والوں کی گنتی سب سے زیادہ تھی۔
شروع میں پی ٹی ایم کے کئی مطالبات مان لیے گئے لیکن ان میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
پی ٹی ایم نے پشتونوں کو اکسایا کہ تمھارے حقوق کے لیے ریاست یا فوج ہم سے بات نہیں کر رہی۔ لیکن جب پاک فوج نے مزاکرات کی پیش کش کی تو پی ٹی ایم نے اس کو حقارت سے ٹھکرا دیا۔
چیک پوسٹوں پر رویہ بہتر کرنے کا مطالبہ بھی بڑھتے بڑھتے بالاآخر فاٹا سے پاک فوج کے انخلاء تک پہنچ گیا۔
سوشل میڈیا پر متحرک بدنام زمانہ گستاخان رسول وقاص گورایا، عاصم سعید، سلمان حیدر اور ناصر جبران جیسے لوگوں نے بھی انکی تحریک کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا۔ وقاص گورایا جیسے ملعون کی علامتی تصاویر پی ٹی ایم کے لاہور جلسے نظر آئیں اور کسی نے ان پر اعتراض نہیں کیا۔
سب سے حیران کن بات اس تحریک میں منظور پشتین کا دست راست محسن داؤڑ نامی لبرل ہے جو آج سے چند سال پہلے تک فاٹا میں آپریشن اور پشتونوں پر ڈرون حملوں کا سب سے بڑا حمایتی تھا۔
ان کے جلسوں میں پاکستانی جھنڈا لہرانے پر پابندی لگا دی گئی تاہم افغانستان کا جھنڈا وہاں اکثر نظر آجاتا ہے۔
اب اس کے حامی پاکستان کے خلاف اقوام متحدہ، انڈیا اور امریکہ سے مدد طلب کر رہے ہیں اور ریاست کے خلاف اعلان جنگ کر رہے ہیں۔
تاہم منظور پشتین کے کامیابی کے امکانات کم ہیں کیونکہ پشتونوں کی اکثریت اس کو ایک فتنہ سمجھ رہی ہے جو دوبارہ ان کا خون بہانے کے درپے ہے۔
البتہ افغانی پوری دنیا میں اس تحریک کو سپورٹ کر رہے ہیں۔








Sunday, 29 April 2018

میں اس افغانی تحریک کو کیسے سپورٹ کروں ؟؟؟؟؟؟؟

میں اس افغانی تحریک کو کیسے سپورٹ کروں ؟؟؟؟؟؟؟
میرے ایک بھائ نے مجھے  کہا. کہ اپنے پختونوں پر غیرت نہیں کرتا. 
جبکہ میں سمجھ رہا ہوں کہ غیرت یہ ہے کہ اپنے وطن کا دفاع کیا جائے.
ان لوگوں کے خلاف جو 1948میں انڈیا کے ساتھ ملکر ہمارے وطن کے خلاف کابل میں قبائل کے نام سے وزارت کھولی اور ہمارے لوگوں کو ورغلا کر اپنے وطن کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش میں لگ گئے. اور آج تک لگے ہوئے ہیں.
ان لوگوں کے خلاف وطن کا دفاع کریں. جنھوں نے ہمارے اجداد کی انگریز سے ہجرت کے وقت جب اس کے وطن میں پناہ لینے کی کوشش کی. تو اس نے انگریز سے بات کر کے نا صرف ہمارے بزرگوں کی مدد نہیں کی بلکہ ان کے بے گھر گھرانے پر کھیتوں میں رات کے تاریکی میں پانی چھوڑ دی. اور جب اسے کہا گیا کہ ہمارے گھرانہ ہے کھیتوں میں. یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ تو انھوں نے کہا کہ اپنے گھرانے کو ہٹاؤ. میں نےکھیتوں پانی دینا ہے. یہ واقعہ جس کے ساتھ ہوا ہے. میں خود ان سے ملا ہوں.اور اس سے یہ کہانی سنی ہے. ان لوگوں سے اپنے وطن کا دفاع کیا جائے.
جس نے 1971 میں کے جی بی کے ایجنٹ اپنے سر زمین پر بیٹھا کر پاکستان کو دولخت کر نے کا منصوبہ بنایا اور انڈیا کی مدد سے وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے. اور پھر بیان دیا کہ ہم نے پاکستان پہلے بھی دو ٹکڑے کیا تھا. اب چار ٹکڑے کریں گے.
ان لوگوں کے خلاف اپنے وطن کا دفاع کیا جائے. جس نے 1965 میں انڈیا کی مدد کرنے کے لیے مہمند ایجنسی پر حملہ کیا. تو لوگ حیران رہ گئے کہ انڈیا نے مغربی سر حد سے کیسے حملہ کردیا. ان کے حملے کو پاکستان کے اسی پختونوں نے پسپا کردیا. بعد میں پتا چلا کہ یہ افغانیوں کا انڈینوں کی مدد کے لئے حملہ تھا. ان لوگوں کے خلاف وطن کا دفاع کیا جائے.
جس نے ہمارے جنگ آزادی کے ہیرو عجب خان آفریریدی کو انگریز کے حوالے کرنا چاہا. تو شنواری قوم کے مزاحمت پر انگریز کے ساتھ معاہدہ کیا. کہ اس کو مشرقی سرحد سے مغربی سرحد منتقل کر کے اس کو انگریزوں پر حملوں سے باز رکھیں گے. اور آج ان کا مزار تاجکستان یا ازبکستان کے سرحد پہ ہے.
ان لوگوں کے خلاف وطن کا دفاع کیا جائے. جس نے کبھی بھی ہمیں انگریز پر فروخت کرنے پر زرا بھی شرم محسوس نہیں کی. اور آج تک کسی نے بھی نہیں کہا. کہ امیر عبدالرحمان نے غلطی کی تھی. جس نے 1896 میں آپکو انگریز پر فروخت کیا تھا. جس کے باعث ہم شرمندہ ہیں.
ان لوگوں کے خلاف وطن کا دفاع کیا جائے. جو اب بھی ہمارے وطن کو توڑنے کی باتیں بر ملا کرتے ہیں. صرف طوطے کی طرح اٹک اٹک کرتے رہتے ہیں. جیسے صرف زمین ہم نے اس سے چینی ہے.ہمارے ساتھ اس کا نا صرف کوئ سروکار نہیں بلکہ ہم ان کے دشمن ہیں. جسکا ثبوت وہ تازہ ویڈیو ہے جس میں ایک افغانی فوجی نے صرف اس وجہ سے پانچ چھ پاکستانی پختون مزدوروں کو شہید کر دیے. کہ وہ پاکستانی ہے.
ان کا واضح مقصد ہمارے ملک میں بد امنی کو فروغ دینے کے علاوہ کچھ نہیں. جسکا کاز کسی وطن کو اپنے ساتھ ملانے کی ہو. وہ بلا ایسے ہوتے ہیں. کہ اس علاقے کے لوگوں دشمن کہہ کر مارتا ہو؟ وہ صرف ہمارے ملک میں فساد چاہتے ہیں اور کچھ نہیں. جہاں تک منظور کو نا منظور کرنے کا سوال ہے. وہ اس لئے کہ افغانستان ‘‘جو پاکستان کا مخالف ہے،، ان کا حمایت کررہا ہے. انڈیا ‘‘جو پاکستان کا مخالف ہے،، ان کا حمایت کرتا ہے. امریکہ ‘‘جو پاکستان کا مخالف ہے،،ان کا حمایت کرتا ہے. حتی کہ الطاف حسین‘ حسین حقانی جیسے مستند غدار بھی اس کا حمایت کرتے ہیں. ورنہ ہمیں اس کے مطالبے میں کوئ ایسی برائ نظر نہیں آتی. کہ اس کا خلاف کیا جائے. بغیر اسکے کہ اسکے چیلے پاکستان نہ منو. دہشت گردی کے پیچھے وردی ہے. آزاد پختونستان. لر او بر افغان یو دے. جیسے غدارنہ نغرے لگاتے ہیں. اور وہ اس پر ایسا خاموش بیٹھا ہے. جیسے یہ اس کی خواہش کے مطابق لگا رہے ہیں. اور ہم پوچھتے ہیں. کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ لر او بر یو افغان ہو. کیا ہم پھر سے ان کے ہاتھوں بکنے کے لئے تیار ہو جائے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے.کہ 250000 پختونوں کی افرادی قوت رکھنے والی آرمی دہشت گردی کے پیچے ہو. اور پختونوں کے خلاف دہشت گردی کروا رہی ہو. بلا یہ کیسے ممکن ہے. کہ آئ ایس آئ جس کے %50 کارندے پختون ہو. اور وہ پختونوں کے خلاف سازشیں کر رہی ہو؟ یہ ہضم ہونے والی باتیں ہی نہیں. واضح طور پر دیکھائ دیتا ہے کہ پاکستان کے چار ٹکڑے کرنے پر دشمن نے کام شروع کر کیا ہے. لیکن انشاءاللہ مارخور تیار ہے دشن کو خاک چاٹنے پر مجبور کرنے کے لئے.













Saturday, 28 April 2018

ﺗﻢ " ﺍﻧﮉﯾﻦ ﻟﻮﻟﯽ ﭘﺎﭖ " ﮐﮯ ﻋﺎﺩﯼ ﮨﻮﭼﮑﮯ ﮨﻮ

ﭘﺸﺘﻮ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻗﻮﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ " ﺩﮦ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﭘﮧ ﺑﺪﮦ ﮐﻲ ﺧﯿﺮ ﻭﯼ ." ﺍﺳﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﮐﮩﯽ ﭘﺮ ﻓﺴﺎﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﮭﮕﮍﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﮐﯽ ﺑﮩﺘﺮﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻧﮑﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﯿﺴﮯ ﺑﭩﻮﺭﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ . ﭘﯽ ﭨﯽ ﺍﯾﻢ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﭼﻤﭽﻮﮞ ﭘﺮ ﯾﮧ ﮐﮩﺎﻭﺕ ﺑﻠﮑﻞ ﻓﭧ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ . . ﭘﮩﻠﮯ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﺭﺍﻭ ﺍﻧﻮﺭ ﺭﺍﻭ ﺍﻧﻮﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺏ ﺟﺐ ﻭﮦ ﭘﮑﮍﺍ ﮔﯿﺎ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺍﺻﻞ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ . ﭘﮭﺮ ﻣﺴﻨﮓ ﭘﺮﺳﻨﺰ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﺁﯾﺎ . ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺗﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﺗﮭﯽ . ﻟﺴﭧ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﺎﻧﭻ ﮨﺰﺍﺭ ﺗﮏ ﺁﮔﺌﯽ . ﺣﺎﻝ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺭ ﮐﻤﺎﻧﮉﺭ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ
ﮐﮧ ﺁﻭ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﻄﺎﻟﺒﺎﺕ ﮨﮯ ﮨﻢ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﯿﮟ . ﺳﺐ ﺍﺱ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺍﻧﮑﺎ ﮐﯿﺎ ﺭﺳﭙﺎﻧﺲ ﮨﻮﮔﺎ . ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﻥ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﮐﮯ ﺣﻞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺳﻨﺠﯿﺪﮦ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﻓﻮﺭﻥ ﺑﻐﯿﺮ ﻭﻗﺖ ﺿﺎﺋﻊ ﮐﮯ ﻣﺬﺍﮐﺮﺍﺕ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺣﺎﻣﯽ ﺑﮭﺮ ﻟﯿﺘﮯ . ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﯾﮧ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﻣﺎﻧﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﺎ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﮑﻮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﮨﯽ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﻧﮯ ﻣﺬﺍﮐﺮﺍﺕ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻓﻮﺭﻥ ﺣﺎﻣﯽ ﺑﮭﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﭨﺎﻝ ﻣﭩﻮﻝ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯼ ﺗﻮ ﺣﯿﺮﺕ ﮨﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﮑﮯ ﭼﻤﭽﻮﮞ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺳﻮﺍﻝ ﺑﮭﯽ ﮐﻠﺌﯿﺮ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺻﺮﻑ ﭨﺎﻝ ﻣﭩﻮﻝ ﮐﮯﻟﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﻌﻨﯽ ﮨﻢ ﻣﺬﺍﮐﺮﺍﺕ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺳﻨﺠﯿﺪﮦ ﻧﮩﯿﮟ . ﺟﺲ ﮐﺎ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﺍﺳﮑﮯ ﭼﻤﭽﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ . ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﮑﺎ ﺭﻭﺯﮔﺎﺭ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔
ﻭﯾﺴﮯ ﺍﮔﺮ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﻭﺍﺿﺢ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﯿﮕﯽ ﮐﮧ ﺍﮐﺜﺮ ﻟﻮﮒ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺯﯾﺮﻭﮞ ﻣﺸﯿﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﭼﻤﭽﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺗﺒﺎﮦ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ . ﺟﯿﺴﮯ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺳﮑﺎ ﻭﺯﯾﺮ ﮨﯽ ﺍﺳﮯ ﺍﮐﺴﺘﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﮨﺮ ﻏﻠﻂ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﺎ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﺎ ﺩﻝ ﻧﮩﻴﮟ ﺗﮭﺎ ﺍﺗﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﮑﮯ ﻭﺯﯾﺮ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﭘﺎﻧﯽ ﺗﻮ ﺁﭘﮑﮯ ﻟﺌﮯ ﺭﮐﺎ ﮨﮯ ﺁﭖ ﮨﯽ ﺭﺏ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﮯ . ﺗﺎﺯﮦ ﻣﺜﺎﻝ ﻧﻮﺍﺯ ﺷﺮﯾﻒ ﮐﯽ ﻟﮯ ﻟﯿﮟ ﺟﺐ ﺍﺳﮑﮯ ﮐﭽﮫ ﻣﺨﻠﺺ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﮧ ﺁﭘﮑﮯ ﺍﺭﺩ ﮔﺮﺩ ﺧﻮﺷﺎﻣﺪﯼ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﭨﻮﻟﮧ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺁﭘﮑﻮ ﻟﮯ ﮈﻭﺑﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﯽ ﮨﻮﺍ . ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﮨﻮﺭﮨﺎ ﮨﮯ . ﺟﺐ ﺳﮯ ﮐﻮﺭ ﮐﻤﺎﻧﮉﺭ ﻧﮯ ﻣﻞ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯼ ﮨﮯ ﺗﺐ ﺳﮯ ﯾﮧ ﭼﻤﭽﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻓﻨﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺟﻤﺎﻝ ﻭﺯﯾﺮ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺯﮨﺮ ﺍﮔﻞ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ . ﺣﻼﻧﮑﮧ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺬﺍﮐﺮﺍﺕ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﭘﮭﺮ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﻧﮑﻞ ﺁﺗﺎ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﻮﻧﮑﺘﮯ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﻮﺗﯽ .
ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﺍﺱ ﺑﮯﻏﯿﺮﺕ ﺍﻓﻨﺎﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ . ﻭﮦ ﯾﮧ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﭘﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﻮﺭ ﮐﻤﺎﻧﮉﺭ ﮐﺎ ﻟﻮﻟﯽ ﭘﺎﭖ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺗﻢ " ﺍﻧﮉﯾﻦ ﻟﻮﻟﯽ ﭘﺎﭖ " ﮐﮯ ﻋﺎﺩﯼ ﮨﻮﭼﮑﮯ ﮨﻮ

 

ففتھ جنریشن وار اور پاکستان کی طرف سے مسلسل امریکی حکم عدولی

"امریکہ ایک سائبر فورس تیار کرچکا ہے جس کا مقصد ففتھ جنریشن وار لڑنا ہے "
لیکن کیوں۔۔؟؟
اسکی ضرورت کیوں پیش آئی۔۔؟؟

تو جانیئے
پاکستان کی طرف سے مسلسل امریکی حکم عدولی کی سزا کے بارے میں بار بار امریکہ کی طرف سے اعلانات کیے جارہے ہیں۔
جس میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو اپنی زمین کھونی پڑھ جائے گی۔
اور دو دن پہلے کی بات ہے امریکی نائب صدر جس نے رات کے اندھیرے میں چھپ کر افغانسان میں امریکی کیمپ کا دورہ کیا۔
اعلان کیا کہ
پاکستان نے اگر ہماری بات نہ مانی تو اسے بہت کچھ کھونا پڑسکتا ہے۔
اور اگر ہماری بات مان لی تو بہت کچھ حاصل ہوگا۔
وغیرہ وغیرہ
لب لباب یہ ہے کہ پاکستان فی الحال نہ ڈنڈے سے ڈر رہا ہے اور نہ ہی گاجر کے چکر میں آرہا ہے۔
اور تیسرا آپشن بچتا ہے " سزا " کا۔
اور سزا کی تیاری کی بھی خبریں مسلسل آرہی ہیں۔
جس سلسلے میں پہلی خبر یہ رپورٹ ہوئی ہے کہ امریکی انتطامیہ کی جانب سے باقاعدہ سائبرفورس کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔
جس کا مقصد یہ ہوگا کہ ففتھ جنریشن وار لڑی جائے۔
جس میں سب سے زیادہ فوکس فرقہ واریت پر ہے
بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث، شیعہ کا کھیل کھیلنا
اور دوسرے نمبر پر لسانیت۔
سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی، پر کام کیا جائے گا۔
اورمعزرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا
ہماری بھولی بھالی عوام ان دونوں مدعوں پر ہی بہت جلد ایکشن میں ہوجاتی ہے۔
اگر آپ ملکی سلامتی کو اپنا سب سے بڑا مشن بنائیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت آپکو لڑا نہیں سکتی۔
کوئی بھی شخص جو آپ کی فرینڈ لسٹ میں شامل ہو اس طرح کی پوسٹ کرے یا اسکو پروموٹ کرے
اسکو سختی سے منع کریں۔
جہاں تک ممکن ہو اس پراپیگنڈے کا توڑ کریں۔
یہ ہی اس جنگ کا جواب ہوگا
اور یہ ہی جنگ ہے جو آپ نے ، میں نے ، اور پورے پاکستان نے لڑنی ہے۔
ہمیں پورا یقین ہے کہ ہم ہر میدان کی طرح ففتھ جنریشن وار میں بھی امریکہ کو شکست دیں گئے!
انشاءاللہ.









 

Thursday, 26 April 2018

باچاخان/سرحدی گاندھی کی سوانح عمری

باچاخان/سرحدی گاندھی اک غدار کی سوانح عمری!
افکار.. مارکسیزم، لینن، پرچم، خلق، اشتراکیت
1890ء کو ہشت نگر کے اتمان زئی گاﺅں کی ایک نامور شخصیت خان بہرام خان کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی، جس کا نام انہوں نے خان عبدالغفار خان رکھا۔ دنیا آج اسے باچاخان کے نام سے جانتی ہے۔
خاندانی پس منظر
اگر آپ کو لگتا ہے کہ باچا خان نے انگریز کے خلاف آزادی کے لئے کوئی جدوجہد کی ہے تو آپ آج سے یہ سوچنا بند کر دے.
مال مفت دل بے رحم
انگریز کے بعد سوشلسٹ حکومت کی جدوجہد آخری دم تک کی لیکن کامیابی اس کے میت کو ڈاکٹر نجیب کی حکومت میں ملی..
عبدالغفار خان کے والد بہرام خان کو انگریزوں نے سینکڑوں ایکڑ زمیں دیگر جاگیردار بنایا، 1857 کی جنگ کوناکام بنانے کیلئے اس نے انگریزوں کی مدد کی اور یہاں تک کہ انگریز افسران انہیں چچا کہہ کر پکارتے تھے.
خان غازی کابلی کی ایک کتاب "تحریک خدائی خدمت گار"
ایک اور مصنف ڈاکٹر شیر بہادر خان نے بھی اس واقعہ کی تصدیق اپنی کتاب "دیدہ و شنیدہ" میں کی ہے..
یکم جنوری 1986 کو ہندوستان ٹائمز لکھتا ہے کہ
”خان عبدالغفار خان کے والد بہرام خان اپنے گاﺅں کے مکھیا تھے یعنی نمبردار، 1857ءکی جنگ آزادی میں حریت پسندوں کے خلاف انگریزوں کو مدد دی اور اس کے بدلے میں بہرام خان نے بھاری جاگیر حاصل کی۔“
باچا خان کا بھائی
ڈاکٹر خان انگریز کا خطاب اور نام خان عبدالجبار خان انگریز کا وظیفہ خور تھا اور روشن خیالی میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی. ڈاکٹر خان کی بیٹی مریم کی جب سکھ جسونت سنگھ کے ساتھ شادی کرانے میں مسائل پیش ہوئے تو باچا خان نے کھل کر حمایت کی کتاب خان عبدالغفار خان ، سیاست اور عقائد " میں لکھا ہے کہ باچا خان نے اپنی بھتیجی مریم کی جسونت سنگھ کیساتھ شادی پر کہا کہ تم نے پسند کی شادی کی ہے، میرا آشیرباد تمھارے ساتھ ہے"
باچا خان کا شاعر بیٹا
غنی خان جس کی شاعری مولوی کے بغض سے شروع ہوتی ہے اور گانوں پر ختم ہوتی ہے.
زہ غنی دہ ملا عقل تہ حیران یم
د دوزخ پہ لار روان دے جنت غواړی
اردو
میں غنی مولوی کے عقل پر حیران ہوں
دوزخ کے راستے جا رہا ہے اور جنت مانگ رہا ہے
ماتہ د جنت قیصی ، زان تہ د دُنیا حساب
دا دے عجیبہ انصاف ، دا دے عجیبہ کتاب
زہ پہ مستئ سوُر کافر ، تہ پہ ھوس سپین ملا
ماتہ پہ فتوی' عزاب ، تاتہ پہ دھوکا ثواب
اردو.. گروپ میں پوسٹ موجود ہے.
سپین لباس دا فرشتوں ابلیس اغوستے
جاهلان وائی وارث دا پغمبر دے
اردو..
فرشتوں کا سفید لباس ابلیس پہنا ہوا ہے
جہلاء کہتے ہیں کہ پغمبر کا وارث ہے
غنی خان کی دو بیٹیاں شاندانہ بی بی اور زرین بی بی ہندوستان میں کسی کو بیاہی گئی ہے
باچا خان کی ہندوستانی پڑپوتی یاسمین نگار خان
ایک سال پہلے اس نے مودی سے ملنے کی گزارش کی تھی اور اپیل کی تھی کہ پشتونوں کی مدد اس طریقے سے کریں جس طرح اس نے بلوچستان کے رہنے والوں کی مدد کی ہے.
باچا خان کو جب انگریز کے نکلنے پر پختہ یقین ہو گیا تو وہ اس کوشش میں تھے کہ ہندوؤں کے ساتھ ملکر ایک سوشلسٹ ریاست تشکیل دے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی ہر پلیٹ فارم پر مخالفت کی اور کانگریس کا ساتھ دیا اور جب ہندو گانگریس نے بھی اس کے مشورے کو اگنور کیا تو ان سے ان الفاظ میں مخاطب ہوا..
'' تم لوگوں نے ہمیں بھیڑیوں کے سامنے پھینک دیا "
کراس بیانیہ/ دو قومی نظریہ
ہندوؤں کے ساتھ ایک ہی ریاست ہونی چاہئے
جب پاکستان بننے کا وقت آیا تو
الگ پختونستان بننا چاہئیے
ایک الگ ملک بننے کی سخت مخالفت کی اور ایک ہی سوشلسٹ ملک بننے کا درس دیتا رہا اور انڈین کانگریس کی بھی منت کی لیکن جب ایک اسلامی ملک پاکستان بننے کے آثار قریب ہوئے تو پاکستان کی بجائے اپنے لئے الگ سرخ پختونستان کے حصول کے لئے جتن شروع کئے اور آزادی سے چند ہفتے پہلے قراداد بنوں پیش کیا جس کو رد کر دیا گیا.
اپنے ناپاک بیتی میں ماوزے ٹنگ کی قسم کھا کر لکھتا ہے
”ہم نے اسی وجہ سے مطالبہ کیا کہ ہمارے سامنے اگر کوئی ریفرنڈم کرانے کی تجویز رکھتا ہے تو بسم اللہ وہ میدان میں آئے اور ’پشتونستان اور پاکستان‘ کے موضوع پر ریفرنڈم کر لیا جائے“ (آپ بیتی صفحہ( 671)
باچا خان کو غدار وطن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اس کی وجہ یہی تھی کہ پہلے وجود پاکستان کے خلاف تھے اور وجود آنے کے بعد سازشیں شروع کی. قائد اعظم کو کافر اعظم اور پاکستان کو ناپاکستان کہہ کر پکارتے تھے.
باچا خان نے پوری زندگی تخریبی تحریکوں میں گزاری سوشلزم کی خاطر خدائی خدمتگار تحریک انگریز دور میں شروع کی جس کا بظاہر مقصد پختون قوم کی فلاح تھی اور عدم تشدد کا فلسفہ پڑھا کر قوم کو اپنے ساتھ ملا کر سرخ انقلاب لانا تھا لیکن ناکام رہا.
لکشمی پوجا تحریک میں باچا خان نے اپنی وفاداری نبھائی اور سرحد پار سے گاندھی کے آتما کو شانتی بخشی اور ہندوستان کے سامراج سے دو بار ایوارڈ وصول کئے جس میں جواہر لعل نہرو سب سے بڑا ہندوستانی سول ایوارڈ رتنا شامل ہیں لکشمی پوجا کے عوض بغیر رسیدوں کے کافی سارے پیسے ملے لیکن 25 لاکھ اور 80 لاکھ ہندوستانی روپے ریکارڈ پر شامل ہیں.
وفات
1988ء میں فوت ہوئے اور سوشلزم اور پرچم کے ساتھ محبت کا آخری رشتہ نبھاتے ہوئے ڈاکٹر نجیب اللہ خلقی کے دور حکومت میں جلال آباد میں مدفون ہوئے. یہاں پر واضح ہوتا ہے کہ چونکہ افغانستان میں سوشلزم کی حکومت تھی اگر نہ ہوتی تو روس یا ہندوستان میں دفن ہونے کی وصیت کرتے.

Tuesday, 24 April 2018

افغانستان کی پاک دشمنی ہمیں جہیز میں ملی ہے

افغانستان سے متعلق حقائق !
افغانستان کی پاک دشمنی ہمیں جہیز میں ملی ہے ، اقوام متحدہ میں واحد ملک جس نے پاکستان کے وجود کی مخالفت کی تھی وہ افغانستان ہی تھا ـ وجود اور وسائل کے لحاظ سے دیکھا جائے تو افغانستان پاکستان کا انڈیا سے بڑا دشمن ہے ، اس نے پاکستان کو مٹانے کے لئے اپنی استطاعت سے بڑھ کر کوشش کی ، پہلے یہ بارڈر پر چھیڑ چھیڑ کرتے ہیں پھر کوشش کرتے ہیں کہ پشتوں بیلٹ میں ہمارے خلاف کوئی تحریک چلا کر وہاں کے قبائلیوں کو اندر سے وار کرنے پر آمادہ کریں ـ
1947 میں پاکستان کے بارے میں تھرڈ جون پلان آتے ہی افغانستان نے پشتون بیلٹ کو پاکستان میں شامل ھونے سے روکنے کے لئے سعی و جہد شروع کر دی تھی ، اس وقت کے بادشاہ ظاھر شاہ کے دوست نجیب اللہ نے پشتونستان تحریک کی پلاننگ کی وہ پشتون بیلٹ کو ساتھ ملا کر الگ سے ایک پشتون اکائی بنانا چاہتا تھا ، افغانستان میں پشتون ایک بڑی قوم ہے مگر افغانستان میں تاجک اور ازبیک سمیت دیگر کئ قومیں بھی آباد ہیں جن کے ساتھ پشتونوں کی چپقلش کی اپنی تاریخ ھے ، افغانستان میں پشتون اس بڑی تعداد میں ھونے کے باوجود ہمیشہ پسا ھو طبقہ ہی رھا ھے اور حکومت پر گرفت ہمیشہ دوسرے گروپس کو حاصل رھی ھے تعلیم یافتہ فارسی اسپیکنگ بیوروکریسی پر غالب رھے اور بزنس پر بھی قابض رھے جبکہ پشتون مزدور طبقہ ھی رھا ، زار کا زمانہ ھو یا سوفیت یونین کا دور ، فارسی اسپیکنگ بزنس مین اور افغان فارسی اسپیکنگ بیوروکریسی روس کے بہت قریب رھے اور اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں لگے رھے افغانستان کی معیشت انہی تاجکوں ازبکوں اور فارسی اسپیکنگ جبکہ پشتونوں کے حالات ہمیشہ دگرگوں رہے ،ان کے علاقوں میں ترقی بھی نہ ہوئی اور تعلیم کا حال بھی بہت برا رھا ـ یہ تعداد کے لحاظ سے افغانستان کے پنجابی ہیں مگر وسائل پر قبضہ ہمیشہ تاجک ھزارہ ، ازبک اور دیگر فارسی بولنے والی قوموں کا رھا ، افغانستان نے پشتونوں کو ہمیشہ یہی پٹی پڑھائی کہ آپ کی ترقی پاکستان کے پشتون علاقوں کے افغانستان کے ساتھ الحاق سے جڑی ہوئی ہے ، پشتون علاقوں کے افغانستان کے ساتھ الحاق کے ساتھ پشتونوں کے لئے دنیا جنت بن جائے گی وغیرہ وغیرہ ـ
۲۱ جون ۱۹۴۷ میں اعلانِ بنوں کے نام سے باچا خان ، نجیب اللہ دستِ راست ظاھر شاہ اور دوسرے لوگوں نے اعلان کیا کہ وہ اس ریفرینڈم کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے جو انگریز وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے N W F P ع میں کرایا تھا اور جس میں ۹۹ فیصد پشٹونوں نے پاکستان میں شمولیت کا عندیہ دیا تھا ، جبکہ فاٹا کو اس ریفرنڈم سے الگ رکھ کر ایک آزاد حیثیت دے دی گئ اور فیصلہ ان کے ہاتھ میں دے دیا گیا ، قائد اعظم نے فاٹا کے تمام قبائل کے سرداروں اور عمائدین سے ملاقاتیں کیں اور انہیں یہ یقین دلایا کہ پاکستان ان کے مسائل سے بخوبی آگاہ ھے جن کو حل کیا جائے گا ، فاٹا نے بھی اپنی مرضی کے ساتھ پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا ـ لہذا اگر قائد زندہ رھتے تو یہ فاٹا شاید پاکستان کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ علاقہ ھوتا کیونکہ یہاں کے لوگ نہایت ذھین ،معاملہ فہم اور قوتِ فیصلہ رکھنے والے زرخیز ذھن کے مالک اور پاکستان کے ایسے وفادار تھے کہ پاکستان کو کبھی اس بارڈر پر فوج رکھنے کی ضرروت محسوس نہ ھوئی اور یہ خود ہی پاک فوج کا بہترین متبادل تھے ـ اگست ۱۹۴۷ میں قائد اعظم نے بیان دیا کہ پاکستان ہمیشہ اپنے بھائی افغانستان کو ساتھ لے کر چلے گا ، وہ افغانستان جس کے ساتھ ہماری دلی ہمدردیاں ہیں اور ہم ان کو اپنے جسد کی طرح عزیز رکھتے ہیں ،، اس خیر سگالی کے پیغام کے باوجود ستمبر ۱۹۴۷ میں ہی افغانستان وہ واحد ملک تھا جس کے نمائندے اور وزیر مہتاب علی شاہ جو فارسی اسپیکنگ کمیونٹی سے تعلق رکھتا تھا اس نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے وجود کے خلاف ووٹ دیا ـ
شاہ ظاھر شاہ کا دستِ راست سردار نجیب اللہ نومبر ۱۹۴۷ میں شاہ کا ایلچی بن کر کراچی آتا ھے جو اس وقت پاکستان کا دارالخلافہ تھا ، کراچی میں اسٹیٹ گیسٹ کے طور پر اس کا پرتپاک اور شاندار استقبال کیا جاتا ھے گویا وہ ایک ایلچی نہیں بلکہ خود بادشاہ یا صدر مملکت ھو، قائدِ اعظم خود اس سے ملتے ہیں ، مگر یہ سانپ اصل میں پاکستان کو دھمکانے کے لئے آیا تھا ، اس نے قائدِ اعظم کے سامنے نہایت رعونت کے ساتھ تین مطالبات رکھے ، اور انداز الٹی میٹم والا تھا کہ یہ تم کو کرنا ہی ھو گا، ورنہ ہم تمہارے خلاف فوجی کاروائی بھی کر سکتے ہیں ـ یہ مطالبات نجیب اللہ نے باقاعدہ ریڈیو کابل سے براہ راست خطاب میں بیان کیئے کہ ھم نے یہ تین مطالبات پاکستان کے سامنے رکھے ہیں جن کو پورا کر کے ہی پاکستان ہم سے تعلقات کی امید کر سکتا ھے ورنہ ہم اس کے وجود کو نہ تو تسلیم کریں گے اور نہ اس کی گارنٹی دیں گے
۱۔ فاٹا کو آزاد کر کے افغانستان کے حوالے کر دیا جائے ـ
۲ ـ چمن سے جنوب میں گوادر تک جو اس وقت عمان کے زیر تسلط علاقہ تھا ہمیں ۱۰۰ میل چوڑا کوریڈور فراھم کیا جائے جس پر افغانستان کا مکمل کنٹرول ھو، اور جس میں افغانی قانون اور کرنسی لاگو ہو یوں اس کے ذریعے ہمیں سمندر تک رسائی دی جائے ـ
۳ ـ کراچی کی بندرگاہ پر افغان فری زون قائم کیا جائے جو پاکستان کے قانون سے مبرا ھو اور جس پر مکمل افغانی کنٹرول ھو تا کہ ہم اپنی درآمدات و برآمدات کے لئے اس کو بلا روک ٹوک استعمال کر سکیں ـ
جس قدر یہ مطالبات توھین آمیز اور آمرانہ ذہنیت کے حامل تھے اسی طرح ان کو پیش کرنے کا انداز بھی اشتعال انگیز تھا ، یہ صاف صاف بھتہ لینے والی لینگویج تھی ـ ایک نیا ملک جس کے پاس وسائل کی کمی ھے ،جس کی بیوروکریسی ابھی اپنے آپ کو سنبھالنے میں لگی ھے اور جس کو ھند سے ابھی اپنے اثاثہ جات تک نہیں ملے ، مہاجرین کا سیلاب تھا جس کو کسی طرح ہینڈل کرنے کی کوشش کی جا رھی تھی ، پاکستان کے پاس ہتھیار نام کی کوئی چیز نہیں تھی ،الغرض ایک مسلمان ملک ھوتے ہوئے افغانستان ایک نومولود مسلم ملک کو دھمکا کر اور ہراساں کر کے اس سے اپنے ناجائز مطالبات مذاکرات سے نہیں بلکہ دھونس اور دھمکی سے ڈان کے لہجے میں پیش کرتا ہے ـ لوگ کہتے ہیں کہ انڈیا افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ھے جبکہ حقیقت یہ ھے کہ افغانستان اپنی دشمنی نکالنے کے لئے انڈیا کو استعمال کرتا ھے ،وہ انڈیا سے پہلے کا پاکستان کا دشمن ہے ـ
قائد اعظم نے بڑے صبر کے ساتھ ان کی یاوہ گوئی کو سنا اور نہایت نرم لہجے میں ان کو دوٹوک جواب دے دیا کہ سوری ان میں سے کوئی بات بھی قابلِ عمل نہیں ہے ـ نجیب اللہ صاحب واپس تشریف لے گئے اور ریڈیو کابل سے براہ راست دھمکی آمیز خطاب کیا ـ
۱۹۴۸ میں ایک دفعہ پھر پاکستان کو یو این او کا رکن بنانے کی قرار داد پیش کی گئ افغانستان نے پھر اس کی مخالفت کی مگر اس دفعہ امریکہ اور دیگر بڑے ممالک کے دباؤ پر پاکستان کو رکن بنا لیا گیا ـ
1949 میں افغان لویا جرگہ بلا کر پاکستان کے وجود کا انکار کیا گیا اور کہا گیا کہ لویا جرگہ نے فیصلہ کیا ھے کہ وہ ڈیورنڈ لائن معاہدہ جو برطانیہ کے ساتھ کیا گیا تھا اس کو ہم منسوخ کرتے ہیں اور اب وہ تمام علاقے جن میں پشتون بستے ہیں ان کو پاکستان کا حصہ نہیں سمجھتے یعنی وہ افغان علاقے ہیں ـ یہ مجرد بدمعاشی تھی ، سفارتی اور اخلاقی لحاظ سے اس اعلان کی کوئی اھمیت نہیں تھی لہذا نہ تو پاکستان نے اس کو قبول کیا اور نہ ہی بین الاقوامی برادری نے اس کو کوئی اہمیت دی ـ
اس کے بعد ۱۹۴۹ میں ایک افغان مرزا علی خان جو پہلے خان عبدالغفار خان کے ساتھ دیکھا جاتا تھا اور پھر کچھ عرصے کے لئے زیر زمین چلا گیا تھا ، اچانک نمودار ھوا اور اس نے پاکستان کے خلاف مسلح کارروائیاں شروع کر دیں ، اس کی کاروائیاں وزیرستان سے شروع ھو کر کوھاٹ تک تھیں وہ چن چن کر ان عمائدین کو ٹارگٹ کرتا جنہوں نے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں رائے عامہ ہموار کی تھی ـ یہ توچی کے علاقے میں زخمی ھوا اور خوست میں اپنی طبعی موت مرا جبکہ اس کے دو بیٹے گلزار علی اور میرزمان بھی اس کے ساتھ ھوتے تھے ایک فوج کے ہاتھوں مارا گیا دوسرے کا کوئی پتہ نہ چلا ،۔
اس کے بعد ستمبر 1949 میں افغانستان نے اپنی پوری فورس اور لوکل ملیشیا کے ساتھ چمن کی طرف سے پاکستان پر بھرپور حملہ کیا ـ سپن بولدک سے لے کر پاکستان کے اندر ۳۰ کلومیٹر کا علاقہ وقتی طور پر کنٹرول میں کر لیا کیونکہ پاکستان نے اس علاقے میں کوئی فوج یا فورس نہیں رکھی تھی ـ پاکستانی فورسز کو علاقے میں بھیجا گیا ، 6 دن تک مسلسل دست بدست جنگ کے بعد افغانوں کو پاکستانی علاقے سے کھدیڑ دیا گیا اور مزید چھ دن میں اسپن بولدک بھی پاکستانی فورسز کے قبضے میں آ گیا ، یہ ٹوٹے پھوٹے آلات اور قدیم اسلحے سے لیس پاک فوج تھی جس نے گُھس بیٹھیوں کو تہس نہس کر دیا ـ اس کے بعد کبھی بھی افغان فوج میں پاکستان کا سامنا کرنے کی جرآت نہ ھوئی اور وہ سازشیں اور دھشتگردانہ کاروئیاں کرتے رھے ـ ان چھ دنوں میں افغان میڈیا بالکل ویسی ہی زبان بولتا رھا جیسی ایٹمی دھماکوں کے بعد انڈین قیادت بولتی رھی جب تک کہ ہم نے جوابی دھماکے کر کے ان کی بولتی بند نہ کر دی ، افغان میڈیا کے بقول چمن سے آگے کراچی ان کی منزل تھی اور وہ دنیا کو نوید سنا رھے تھے کہ بہت جلد پاکستان کا دارالخلافہ ان کے قبضے میں ھو گا ـ
مگر جب پاکستان نے اسپن بولدک بھی لے لیا تو یہی لوگ منتیں ترلے کرنے لگے اور کئ عمائدین کو درمیان میں ڈال کر علاقہ واپس لینے کی کوششیں شروع کر دیں ـ اسپن بولدک واپس لینے کے بعد افغانستان نے ۱۹۵۰ میں انڈیا کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا جس کا ایک نقاطی ایجنڈہ تھا کہ پاکستان کو کسی بھی طرح گھیر کر ختم کرنا ہے ـ
۱۹۵۵ میں سردار داؤود وغیرہ نے پاکستان کی بارڈر پر بہت بڑے بڑے کھمبے لگائے جن پر اسپیکر لگا کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا اور پاکستانی علاقے کے پشتونوں کو مخاطب کیا جاتا ، پاکستان نے افغانی سفیر کو بلا کر ان کو سمجھایا کہ آپ اپنے لوگوں کو مخاطب فرمائیں پاکستان کے عوام کو اس طرح مخاطب کرنا قابلِ قبول نہیں ، اس کے جواب میں افغانی جتھے نے کابل میں پاک ایمبیسی پر حملہ کیا اور اس کو فتح کر کے اپنا جھنڈا لہرا دیا ـ پاکستان نے اپنا سفارتی عملہ واپس بلا لیا اور ۲ سال تک کابل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع رکھے ـ
اس کے بعد ستمبر 1960 میں افغانوں نے ایک قبائیلی لشکر ترتیب دے کر باجوڑ ایجنسی پر حملہ کیا ،، ان کو مغالطہ یہ دیا گیا تھا کہ جونہی تم بارڈر کراس کرو گے قبائیلی پشتون تمہارے شانہ بشانہ کھڑے ھونگے ، اور یہ مغالطہ اب بھی لوگوں کو دیا جاتا ھے ،مگر حقیقت یہ ھے کہ چند مٹھی بھر لوگ ہیں جن کا اپنا ایجنڈہ ھے ۹۹ فیصد قبائلی پاکستان سے ماں کی طرح ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں ـ پاکستان کی اس علاقے میں کوئی فوج نہیں تھی ، پاکستانی فضائی امداد کے پہنچے تک سالارزئی قبیلہ 14 دن تک سدِ سکندری بن کر ان حملہ آوروں کے سامنے کھڑا رھا ، اس جنگ میں پاک فضائیہ نے بہترین کارکردگی دکھائی ہمارے لوگوں نے سی ون تھرٹی طیاروں کو اس طرح موڈیفائی کیا کہ ان کارگو جہازوں کو بمبار بنا دیا ، اور نہایت نچلی پروازیں کر کے اس لشکر پر کارپٹ بمباری کی ، یہ وہ بمباری تھی جو بین الاقوامی طور پر بڑی مشہور ھوئی اور بعض ائیرفورس اکیڈیمیز مین بطور اسٹریٹیجی پڑھائی جاتی رھی ـ اس معرکے میں پاکستان فضائیہ نے حصہ لیا جبکہ زمینی طور پر افرادی قوت ساری سالار زئی قبیلے کی استعمال ھوئی جنہوں نے ۱۵۰ افغانیوں کو گرفتار بھی کر لیا جبکہ مرنے والوں کی بہت بڑی تعداد تھی جن کو پاک فضائیہ نے کارپٹ بمننگ کا کا نشانہ بنایا ،
بیگن دلی کے علاقے میں پاکستان کی یہ ائیر وارفیئر ایم ایم عالم والے واقعے کی طرح بین الاقوامی طور پر ائیر کالجز میں پڑھائی جاتی رھی ، اس کے بعد افغانوں نے کبھی ایسی کارورائی کرنے کی جرأت نہیں کی ـ پشتونوں کو خود افغانستان میں جو حقوق حاصل ہیں وہ ان کے ملک سے فرار ھو کر پاکستان میں بسنے اور واپس بھیجے جانے کی بات پر خودکشی کی دھمکیاں دینے سے واضح ھے ، افغانی پشتونوں کے لئے پاکستان دبئ یا یورپ سے کم نہیں ، فارسی حکومتوں نے ہمیشہ پشتونوں کو دو نمبر شہری ہی سمجھا ھے ، اور انہی کبھی دل سے قبول نہیں کیا ـ ایک پشتون کو صدر بنا لینے سے افغانستان کے پشتونوں کو حقوق نہیں مل گئے ـ وہ وہاں شودر کی طرح ڈیل کیئے جاتے ہیں جن کے بس مخصوص کام ہیں جو فارسی النسل کرنے کو تیار نہیں ـ
اب جبکہ فاٹا میں فوج موجود ھے تو فوج ایک جنگی زون میں ہے اور وہ جنگی زون کے رولز اینڈ ریگولیشنز فالو کر رھی ھے ، چیک پوسٹ پر پختون کھڑا ھو یا پنجابی بالکل ایک جیسے رولز فالو کرتا ھے ـ ان کے لئے ہر ہلتی چیز دشمن ھو سکتی ھے جب تک کہ وہ کلیئر نہ ھو جائے ، جہاں مرد برقعے پہن کر خودکش دھماکے کریں وہاں عورتوں کی تلاشی کوئی انہونی بات نہیں ، جہاں کے بچے سے لے کر بوڑھے تک خودکش اور اسلحہ اسمگلر پکڑے گئے ھوں وھاں یہ سختیاں قابلِ فہم ہیں ، ان کو بنیاد بنا کر خود پاکستان اور پاک فوج کو ھی ٹارگٹ کرنا پشتون دشمنی تو ھو سکتی ھے ،پختون دوستی بہرحال نہیں ـ
پاکستان ہمیشہ ذندہ باد ان شاءاللہ


افغانستان کی " پشتون کارڈ " بچانے کی آخری کوشش

پشتون کارڈ بچانے کی آخری کوشش ۔۔۔۔ !

47ء میں افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف ووٹ دیا۔

47ء میں ہی افغان ایلچی نجیب اللہ نے نوزائیدہ مسلمان ریاست پاکستان کو فاٹا سے دستبردار ہونے اور بصورت دیگر جنگ کرنے کی دھمکی دی۔

48ء میں ایک دفعہ پھر پاکستان کو یو این او کا رکن بنانے کی قرار داد پیش کی گئ تو افغانستان نے پھر اس کی مخالفت کی۔

48ء میں افغانستان میں پاکستان کے خلاف پرنس عبدلکریم بلوچ کے ٹریننگ کمیپ بنے۔

49ء میں افغان لویا جرگہ بلا کر پاکستان کے وجود کا انکار کیا گیا۔

49ء میں ایک افغان مرزا علی خان جو پہلے خان عبدالغفار خان کے ساتھ دیکھا جاتا تھا اور پھر کچھ عرصے کے لئے زیر زمین چلا گیا تھا ، اچانک نمودار ھوا اور اس نے پاکستان کے خلاف مسلح کارروائیاں شروع کر دیں ، اس کی کاروائیاں وزیرستان سے شروع ھو کر کوھاٹ تک تھیں وہ چن چن کر ان عمائدین کو ٹارگٹ کرتا تھا جنہوں نے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں رائے عامہ ہموار کی تھی۔

49ء میں افغانستان نے اپنی پوری فورس اور لوکل ملیشیا کے ساتھ چمن کی طرف سے پاکستان پر بھرپور حملہ کیا۔

50ء میں افغانستان نے انڈیا کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا جس کا ایک نقاطی ایجنڈہ تھا کہ پاکستان کو کسی بھی طرح گھیر کر ختم کرنا ہے۔

55ء میں سردار داؤود وغیرہ نے پاکستان کے بارڈر پر بہت بڑے بڑے کھمبے لگائے جن پر اسپیکر لگا کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا۔

60ء میں افغانوں نے ایک قبائیلی لشکر ترتیب دے کر باجوڑ ایجنسی پر حملہ کیا۔

60ء میں ہی افغانستان میں پاکستان کے خلاف شیر محمد مری کے ٹریننگ کیمپ بنے۔

70ء میں اے این پی والے ناراض ہوئے ان کے اور بلوچوں کے ٹریننگ کیمپس بنے اجمل خٹک اور افراسیاب خٹک بھی ان کیمپس کا حصہ تھے۔
۔

2002ء سے تاحال افغانستان میں پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی، داعش، بی ایل اے اور جماعت الاحرار وغیرہ کے ٹریننگ کیمپس چلائے جا رہے ہیں۔ جبکہ اسی دوران افغانستان چمن، تورخم اور کرم ایجنسی پر تین فوجی حملے بھی کر چکا ہے۔

2018ء میں اچانک اٹھنے والی پاکستان مخالف تحریک " پشتون تحفظ موومنٹ ( پی ٹی ایم ) کا اصل مرکز، کمانڈ اور کنٹرول بھی افغانستان میں ہی ہے۔ تاہم یہ ٹی ٹی پی کی نسبت زیادہ خطرناک تحریک اس لیے ہے کہ اس کو لبرل ازم کے جھنڈے تلے لانچ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک باآسانی اس کی سپورٹ کر سکتے ہیں۔

افغانستان کو ہمیشہ یہ خوش فہمی رہی ہے کہ پاکستان کے پشتون افغانستان میں ضم ہونے کے لیے بے چین ہیں۔ اسی خوش فہمی میں پچھلے ستر سال سے پاکستان کے خلاف " پشتون قوم پرستی" پر مبنی تحریکوں کو سپورٹ کرتا چلا آرہا ہے۔

افغان سرحد کے قریب قائم پشتونوں کے یہ علاقے سینکڑوں سال سے یعنی قیام پاکستان سے پہلے سے لاہور اور کراچی وغیرہ کے مقابلے میں پسماندہ رہے ہیں۔

یہاں کوئی سرحد قائم نہیں تھی جس کی وجہ سے افغانستان کے لیے کسی بھی شکل میں یہاں گھسنا بے حد آسان تھا۔

افغانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان تمام علاقوں میں موجود ہے۔

لیکن دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کی جنگ نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔

اس خطے میں پہلی بار پاک فوج اور آئی ایس آئی کی مستقل موجودگی نے یہاں قائم افغان اینٹلی جنس کے نیٹ ورکس توڑنے شروع کر دئیے۔

افغانیوں کی واپسی کا عمل شروع کیا گیا۔

افغان سرحد پر باڑ لگا کر غیر قانونی آمدورفت کو تقریباً ناممکن بنایا جا رہا ہے۔

اور سب سے بڑھ کا ایک بڑی جنگ کے بعد فاٹا میں شروع ہونے والا تعمیر نو کا عمل آنے والے دنوں میں وزیرستان کو فاٹا کا اسلام آباد بنا سکتا ہے۔

نیز پاک فوج نے فاٹا اصلاحات کے عنوان سے فاٹا کے عوام کے درینہ مسائل کا حل پیش کیا ہے جس کو فلحال نواز حکومت نے نظر انداز کر دیا ہے۔ لیکن خدشہ ہے کہ اگلی حکومت عمران خان کی آئی تو وہ ان پر ضرور عمل درآمد کرائے گا اور فاٹا کو کے پی کے میں ضم کر دے گا۔

جس کے بعد اس خطے کی محرومیاں تقریباً ختم ہوجائینگی اور افغانستان " پشتون کارڈ " سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائیگا۔

یہ وہ خطرہ ہے جس کو محسوس کرتے ہوئے " پشتون تحفظ موومنٹ " کو پوری طاقت سے لانچ کیا گیا ہے اور افغانستان پہلی بار اعلانیہ اور نہایت جارحانہ انداز میں اس کو سپورٹ کر رہا ہے۔

" پشتون تحفظ موومنٹ " یا پی ٹی ایم کی تحریک پشتونوں کو حقوق دلانے کی نہیں بلکہ ان کے حقوق سلب کرنے کی تحریک ہے۔ وہ ہر صورت فاٹا سے پاک فوج کا انخلاء چاہتی ہے، باڑ کی تعمیر روکنا چاہتی ہے، افغانوں کی واپسی روکنا چاہتی ہے، فاٹا کا کے پی کے میں انضمام روکنا چاہتی ہے اور فاٹا میں جاری تعمیر نو کے کام روکنا چاہتی ہے۔

یہ افغانستان کی " پشتون کارڈ " بچانے کی آخری کوشش ہوگی!

تحریر شاہدخان




Sunday, 22 April 2018

منظور پشتین کے مطالبات جائز یا ناجائز؟؟

منظور پشتین کے مطالبات جائز یا ناجائز؟؟
آج ایک بار پھر ان مطالبات کا جائزہ لیتے ہیں کہ جائز ہیں یا ناجائز نیز کیا ان کو پورا کیا جا سکتا ہے۔
مطالبہ نمبر 1 ۔۔ ہم امن چاہتے ہیں۔
آپ کو امن دینے کے لیے ہی پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف اپنی تاریخ کی سب سے بڑی اور طویل جنگ لڑی ہے۔
اپنے ہزاروں جوان قربان کیے۔
انڈیا کی طرف سے درپیشن بےپناہ خطرات کے باؤجود دو لاکھ فوج کو فاٹا میں تعئنات کر دیا تاکہ دہشت گرد دوبارہ یہاں کا امن خراب نہ کر سکیں۔
سول حکومت کے عدم تعاؤن کے باؤجود پاک افغان سرحد پر باڑ لگا رہی ہے۔
اور افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیج رہی ہے۔
لیکن آپ پاک فوج کے انخلاء کا مطالبہ کر رہے ہیں، چیک پوسٹیں کم یا ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، بھلا ان اقدمات سے امن کیسے قائم ہوگا؟؟
نیز یہ ایک غیر واضح اور مجہول مطالبہ ہے کیونکہ جس کو پورا پاکستان " امن " قرار دے گا۔ اس کو اپ بدامنی کہیں گے تب اپ کیسے مانیں گے کہ امن قائم ہوا؟
امن کا تعئن حالات سے کیا جاتا ہے۔ مثلاً امریکہ میں پٹاخہ چل جائے تو امریکنز اس کو بدامنی کہیں گے۔ لیکن پاکستان اور فاٹا میں افغانستان کی پراکسی جنگ کے پیش نظر اگر دہشت گردانہ کاروائیاں کم ہوجائیں تو اس کو بھی امن کہا جائیگا۔
مطالبہ نمبر 2 ۔۔۔ پاک فوج 32000 مسنگ پرسنز واپس کرے۔
یہ تو مطالبہ نہیں الزام ہے۔
کیا پاک فوج نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے پاس آپ کے مبینہ گم ہوجانے والے 32000 مسنگ پرسنز ہیں؟
یا آپ نے اس کو کہیں ثابت کر دیا ہے؟؟
آپ نے تو اب تک ان کی فہرست بھی جاری نہیں کی۔ بلکہ تازہ اطلاعات کے مطابق آپ کے اہم ترین ساتھی محسن داؤڑ نے اعلان کیا ہے کہ مسنگ پرسنز 32000 نہیں بلکہ 5000 ہیں۔ یعنی سیدھا سیدھا 27000 کا ڈسکاؤنٹ۔ :)
کسی کی گواہی کہ " ہمارا بھائی یا بیٹا یا باپ پاک فوج نے اٹھایا ہے " بھی الزام ہی ہوتا ہے جس کو ثابت کرنا ہوتا ہے۔
نیز یہ کیسے پتہ چلے گا کہ مسنگ پرسن مارا یا بھاگا ہوا دہشت گرد نہیں ہے بلوچستان کے مسنگ پرسنز کی طرح؟
آئین کی رو سے آپ پاک فوج پر ایسا الزام نہیں لگا سکتے جو آپ عدالت میں ثابت نہ کر سکیں۔ اگر آپ ان مسنگ پرسنز کی پاک فوج کے پاس موجودگی ثابت نہیں کرسکتے تو آپ آئین کی سنگین خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ جبکہ آپ کا دعوی ہے کہ آپ کے مطالبات آئنی ہیں۔
مطالبہ نمبر 3 ۔۔ پاک فوج نے ہماری 1400 عورتیں اٹھائی ہیں وہ واپس کرے۔
اس پر بھی بلکل وہی سوالات اٹھتے ہیں جو 32000 سے 5000 ہوجانے والے مسنگ پرسنز پر اٹھے ہیں۔ البتہ ایک سوال زائد بنتا ہے کہ ۔۔
وہ کس قسم کے پشتون تھے جن کی سینکڑوں عورتیں اغواء ہوگئیں، وہ اپنی دکانوں کے لیے احتجاج کرتے رہے لیکن اپنی عورتوں پر خاموش رہے۔
یہ مطالبہ بھی اگر ثابت نہیں کیا جاتا تو یہ بھی پاک فوج پر ایک الزام ہی ہے اور سنگین آئینی خلاف ورزی۔
اس معاملے میں پاک فوج کے خلاف گوروں کا پرانہ وطیرہ استعمال کرتے ہوئے اگر آپ کسی طوائف نما شخص کو جھوٹی گواہی پر تیار کر بھی لیں کہ " پاک فوج نے میری عورت اٹھائی ہے یا عزت لوٹی ہے" جس کا قوی امکان ہے تب بھی آپ کو اسکو ثابت کرنا پڑے گا ورنہ آپ آئین کی سنگین خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
مطالبہ نمبر 4 ۔۔۔ چیک پوسٹوں پر رویہ درست کیا جائے یا چیک پوسٹیں کم کی جائیں۔
جنگ زدہ علاقے میں چیک پوسٹیں کم یا ختم کرنے پر امن کیسے باقی رہے گا؟؟
جہاں تک رویے کی بات ہے تو وہ ایک مجہول اور غیر واضح معاملہ ہے۔ مثلاً فاٹا کی اکثر عوام اور پشتونوں کی اکثریت چیک پوسٹوں پر پاک فوج کے رویے کو بہترین قرار دیتی ہے لیکن آپ اس کو بدترین کہتے ہیں۔
تب یہ کون طے کرے گا اور کیسے طے کرے گا کہ کون سا فریق درست بول رہا ہے؟؟
آپ سے کبھی نہیں منوایا جا سکے گا کہ پاک فوج کا رویہ چیک پوسٹوں پر بہتر ہے اسکی تازہ ترین مثال آپ کا حالیہ ردعمل ہے چیک پوسٹوں پر پاک فوج کی جانب سے شربت پلانے پر۔ جس پر آپ نے کمال بے شرمی سے شکریہ ادا کرنے کے بجائے الٹا طنز شروع کر دیا اور حیرت انگیز انداز میں شربت پلانے کو اپنی فتح قرار دینے کے باؤجود اپنا یہ والا مطالبہ برقرار بھی رکھا۔
یہ آپ کی بدنیتی کو واضح کرتا ہے کہ آپ کے مقاصد کچھ اور ہیں۔
مطالبہ نمبر 5 ۔۔۔ بارودی سرنگیں صاف کی جائیں۔
آپ الزام لگاتے ہیں کہ باردوی سرنگیں پاک فوج نے خود بچھائی ہیں۔
لیکن حیرت ناک بات یہ ہے کہ " پاک فوج کی بچھائی " ان باردوی سرنگوں کی وجہ سے آج تک کوئی ایک دہشت گرد ہلاک نہیں ہو سکا البتہ پاک فوج کے سینکروں جوان ان سرنگوں کی نذر ہو چکے ہیں۔
نیز آج جب پاک فوج ان کی صفائی کر رہی تب بھی ان کی شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے یعنی انہیں خود بھی علم نہیں کہ ہم نے سرنگیں کہاں بچھائی ہیں؟
درحقیقت یہ مطالبہ نہیں بلکہ الزام ہے اور آپ کو اسکو عدالت میں ثابت کرنا پڑے گا۔ اگر آپ ثابت نہیں کرسکتے تو آپ ایک بار پھر آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جس کے تحت آپ پاک فوج پر بلاثبوت کوئی الزام نہیں لگا سکتے۔
نیز اس کا علم اللہ کے پاس ہے کہ دہشت گرد یہاں کتنی بارودی سرنگیں بچھا کر گئے ہیں۔ اس لیے یہ کون طے کر سکتا ہے کہ ان کو صاف کرنے میں کتنا وقت لگے گا؟
ہمیں یقین ہے کہ آپ را اور این ڈی ایس کے لیے کام کر رہے ہیں۔ چنانچہ اگر آپ کی پشت پناہ قوتیں ان علاقوں میں کسی جگہ نئی بارودی سرنگ لگوا کر عام شہریوں کو نشانہ بنا لیں تو آپ کا مطالبہ تو دوبارہ زندہ ہوجائیگا۔
مزکورہ صورت میں آپ کا یہ مطالبہ مکمل طور پر کیسے پورا کیا جا سکتا ہے تاکہ اپ مطمئن ہو سکیں؟؟
مطالبہ نمبر 6 ۔۔ عوام کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کیا جائے
گھروں اور آبادیوں میں چھپے دہشت گردوں کے خلاف جنگ ہوگی تو وہ گھر اور آبادیاں نقصان سے کیسے بچ سکتی ہیں؟
پاک فوج نے کمال یہ کیا کہ اتنی بڑی جنگ کے باؤجود عوام کا جانی نقصان کم سے کم ہونے دیا اور پورے پورے علاقے خالی کروا کر جنگ لڑی۔
اس کے باؤجود جو نقصان ہوا۔ اس کا ازالہ فوج نہیں سول حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور حکومت کس کی ہے؟
محمود اچکزئی، اسفند یار ولی اور نواز شریف کی جو تینوں "اتفاقً" آپ کے سرپرست ہیں۔
آپ ان سے تعمیر نو کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟؟؟
یا آپ کی نیت میں کھوٹ ہے؟؟
پاک فوج کی زمہ داری نہ ہونے کے باؤجود اگر وہ اپنے بل بوتے پر وزیرستان میں تعمیر نو کا کام کر بھی رہی ہے تو یہ اسکا احسان ہے جس کا ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے۔
پاک فوج سے تعمیر نو کا مطالبہ کرنا ایک غیر آئینی مطالبہ ہے۔
ان مطالبات کے علاوہ آپ جو بکواس فرماتے ہیں وہ کس آئین کے زمرے میں آتی ہے اور ان کا امن سے کیا تعلق؟
مثلاً
" ہم آئی ایس آئی اور ایم آئی کو سڑکوں پر کھینچیں گے" منظور پشتین
" ہم پاک فوج کو قتل کرینگے " علی وزیر
" دہشت گردی کے پیچھے وردی ہے" جیسے گھناؤنا الزم
" ہم پاکستان سے تیسرے فریق کی موجودگی میں بات چیت کرینگے" جیسے آپ پاکستان سے الگ کوئی ریاست ہوں۔
جو آپ کے مطالبات ہیں،
جو آپ کے نعرے ہیں،
جو آپ کے سپورٹرز ہیں،
آزاد پختونستان کے جھنڈے کے ساتھ آپ کی تصاویر،
اور جس طرح عین اس وقت آپ نے تحریک شروع کی جب فاٹا تیزی سے امن اور ترقی کی طرف گامزن ہوچکا ہے اس سے ہمیں یقین ہے کہ آپ کی پشت پر سی آئی اے، را اور این ڈی ایس ہیں۔ آپ پاکستان اور پشتونوں کے دشمن ہیں اور اس خطے میں وہ آگ دوبارہ بڑھکانا چاہتے ہیں جو پاک فوج نے اپنے خون سے بجھائی ہے۔
اس لیے ہم مقتدر اداروں سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ منظور پشتین اور اس کے ساتھیوں کے خلاف آئینی اور قانون کاروائی کی جائے اور قومی سلامتی کے ذمہ دار ادارے اس کے خلاف تحقیقات کریں کہ اس کی پشت پر کون ہیں!
یقین ہے کہ منظور پشتین اور اس کے دہشت گرد ساتھیوں کے خلاف سخت ایکشن لینے سے اتنی افرا تفری نہیں پھیلی گی جتنی ایکشن نہ لینے سے پھیلے



پشتون تحفظ موومنٹ کا پوسٹ مارٹم....!

پشتون تحفظ موومنٹ کا پوسٹ مارٹم....!
پشتون تحفظ موومنٹ کی مدد کے لیے افغان NDS نے پلے اسٹور پر ایپلیکشن متعارف کروادی ہے، پھر جب میں کہتا ہوں کہ منظور پشتین کے پیچھے ملک دشمن عناصر ہیں تو کچھ عقل کے اندھے مجھے کہتے ہیں کہ منظور پشتین تو صرف پاکستانی پشتونوں کے حقوق کی بات کرتا ہے، اس کا افغانستان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
جاہلو اب جواب دو، یہ ایپ افغانستان سے کیوں چلائی جارہی ہے؟
پشتون موومنٹ کا فیس بک پیج انڈیا سے کیوں چلایا جارہا ہے؟
پشتون تحفظ موومنٹ کی آفیشل ویب سائٹ انڈیا کے شہر ممبئی سے کیوں چلائے جارہی ہے؟
اسرائیلی سوشل میڈیا پیجز پر منظور پشتین اور اس تحریک کے حق میں پوسٹیں کیوں کی جارہی ہیں؟
اب بھی اگر نہ سمجھے تو مٹ جاوگے......
نادان پشتون بھائیو اور بہنوں آنکھیں کھولو، یہ منظور پشتین اور اس کے لیڈر محمود اچکزئی و اسفندیار ولی تمہیں بےوقوف بنارہے ہیں، انہیں ہر مدد بیرونی ممالک سے مل رہی ہے مگر جب افغانستان میں پشتونوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کی طرف ان کی توجہ دلائی جائے تو کہتے ہیں منظور پشتین افغانی پشتونوں کے لیے نہیں پاکستانی پشتونوں کے لیے لڑ رہا ہے حالانکہ افغانستان ہی تو پشتونوں کا گڑھ اور اصل علاقہ ہے، وہاں روز امریکی یہودی اور ہندوستانی مشرک ہندو مل کر پشتونوں کو قتل عام کرتے ہیں مگر اس پر منظور پشتین جیسوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، مسئلہ ہوتا ہے تو پاک فوج کی چیک پوسٹوں سے کیونکہ چیک پوسٹوں کی وجہ سے دہشت گرد آزادانہ نقل و حرکت نہیں کر پارہے۔
منظور پشتین کی مزید چند اہم منافقتیں ملاحظ کیجیے.....
جب بتاؤ کہ نقیب اللہ کا قاتل راؤ انوار تو پکڑا جاچکا ہے تو پینترے بدل کر نیا نعرے مارتے ہیں کہ راؤ کو ڈالو اپنی جیب میں ہمیں حقوق دو۔ جیسے پورے پاکستان کے دوسرے باشندوں کو تمام حقوق مل چکے ہوں، حقوق دینا بھی سیاستدانون اور ملکی حکمرانوں کا کام ہے نہ کہ فوج کا مگر کمال مہارت سے یہ ملکی حکمرانوں یا نواز شریف کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولتے، صرف فوج مخالف نعرے ہی نعرے لگاتے ہیں۔
جب بارودی سرنگوں صاف کرتے ہوئے فوجی شہید ہوتے ہیں تو ان سب کو سانپ سونگ جاتا ہے اور جب فوج سرنگیں صاف کرلے تو پینترا بدل کے کہتے ہیں بارودی سرنگیں کیوں نہیں ہٹائی جارہی۔
جب قبائلی علاقوں میں "ٹی ٹی پی خوارج" کے دہشت گرد دندناتے پھر رہے تھے، روز پشتونوں کو قتل عام کر رہے تھے، عورتوں کو سرعام کوڑے مار رہے تھے اور گاوں کے گاؤں مکمل تباہ کر رہے تھے تب منظور پشتین کو کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن جیسے ہی پاک فوج نے دہشت گردوں کا صفایا کیا وہاں امن بحال کیا اور امن و امان کر برقرار رکھنے کے لیے وہاں فوجی چیک پوسٹیں قائم کی تو منظور پشتین جیسوں کو فوراََ مسئلہ ہوگیا کہ چیک پوسٹیں کیوں بنائی گئی ہیں ختم کرو۔
یا منافقت تیرا ہی آسرا....
میرے ہم وطنوں ! اب بھی اگر تم نہ سمجھے تو مٹ جاؤگے، منظور پشتین اور اس کے لیڈروں کا ایجنڈہ پشتونوں کے حقوق نہیں بلکہ پاک فوج کی تذلیل کرنا ہے، علاقے سے فوجی چیک پوسٹ نکال کر ہندوستانی RAW کی کرائے کی قاتل تنظیم "تحریک طالبان پاکستانی" یعنی "ٹی ٹی پی خوارج" کو دوبارہ زندہ کرکے پاکستان میں پھر سے بم دھماکے اور خودکش حملے شروع کروانا ہے، ان کا مقصد پشتونوں کے حقوق ہوتے تو یہ پاک فوج کے خلاف نہیں بلکہ سیاستدانوں اور ملکی حکمرانوں کے خلاف احتجاج کرتے مگر ان کی منافقت دیکھیں کہ ملکی حکمرانوں کو چھوڑ کر یہ احتجاج صرف اور صرف پاک فوج کے خلاف کر رہے ہیں۔
٭ فیس بک پیج ان کا انڈیا سے ہندوستانی RAW چلا رہی ہے،
٭ ٹویٹر اکاونٹ امریکی CIA چلا رہی ہے،
٭ جلسوں میں آنے کے لیے امریکی ایجنڈے پر کام کرنے والی "این جی اوز" افغان مہاجریں کے خاندانوں کو ہزاروں روپے نقد دی رہی ہیں
٭ اور اب پلے اسٹور پر ایپلیکشن ہندوستانی NDS افغانستان سے چلارہی ہے۔
اسے کہتے ہیں "پانچویں نسل کی جنگ حکمت عملی"، (5th Generation War).
اس قسم کی جنگ میں دشمن بارڈر پر فوج بھیجنے کے بجائے ملک میں اندرونے خانہ نئی پراکسی تنظیمیں بناکے انتشار پھیلاتا ہے، عوام کو فوج سے بدظن کرنے کے لیے نئے رگوں میں رس گھولنے والے زہریلے نعرے تخلیق کرتا ہے تاکہ ملک کی عوام اپنی ہی فوج سے بدظن ہوجائے، اپنی ہی فوج کے خلاف احتجاج کرنے لگے اور اپنی ہی فوج کو شک کی نظروں سے دیکھنے لگے اور یوں دشمن کا کام آسان ہوجائے اور دشمن حملہ کرکے اپنی فوج داخل کردے،
مت بھولیں کہ ہندوستانی حکومت واضع کہہ چکی تھی کہ وہ اپریل یا جون جولائی تک پاکستان میں حملہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے، یعنی وہ جنگ کرنے سے پہلے منظور پشتین اور الطاف حسین جیسوں کے زریعے انتشار کا باقائدہ پلان بناکے بیٹھے تھے مگر افسوس محب وطن سوشل میڈیائی مہاجدین نے انڈیا اور امریکہ کے اس پلان کو انہی کے منہ پر دے مارا۔
جب پاکستانی عوام اپنی ہی فوج کو شک کی نظروں سے دیکھنے لگے گی تو انڈیا اسی موقع سے فائدہ اٹھاکر پاکستان میں اپنی فوجیں داخل کردے گا۔ اور جب عوام فوج کو مشکوک سمجھتی ہوگی تو اس وقت منظور پشتین اور اس جیسے برین واشنگ کیے ہوئے نادان پختون تو لازمی اپنی ہی فوج کے خلاف لڑنے پر آمادہ ہوجائیں گے۔ یہی انڈیا کا پلان ہے مگر ہم نے بھی آستینیں چڑھا رکھیں ہیں اور دشمن کو ہر مہاذ پر کتے کی موت مارنے کی قسم کھا رہی ہے۔ منظور پشتین اور اس کی تنظیم بھی بہت جلد ماضی کا حصہ بننے والی ہے،
اس وقت ہم بارڈر کی طرف سے انڈیا کے جنگ چھیڑنے سے پریشان نہیں ہیں کیونکہ ہمارے پاس ایسے چھوٹے ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار ہیں جو بنا کسی نقصان کے ایک ہی بم سے انڈیا کی پوری فوج کو قبرستان میں تبدیل کرسکتا ہے، ہمیں اصل خطرہ ملک میں جاری انڈیا کی پراکسی تنظیمیوں سے ہے اور ان کا مقابلا کرتے رہیں گے۔
بلوچستان میں BLA, BRA جیسی تنظیموں کی ناکامی کے بعد انڈیا نے اسرائیل اور افغانستان کے ساتھ مل کر PTM یعنی "پشتون تحفظ موومنٹ" کو لانچ کیا،
اس تنظیم کو بےنقاب کرنا ہر پاکستانی کا فرض ہے کیونکہ ہر پاکستانی آپریشن ردالفساد کا سپاہی ہے، اس فساد کو صرف پاک فوج اکیلے ختم نہیں کرسکتی کیونکہ فوج کا کام سرحدیں سنبھالنا ہوتا ہے، ملکی اندرونی انتشار ختم کروانا سیاستدانوں کا کام ہوتا ہے مگر جب نواز زرداری جیسے حکمران ہوں جو انڈیا امریکہ کے غلام ہوں تو پھر PTM جیسے فساد کا مقابلا کرنا عوام پر فرض ہوجاتا ہے۔
آئیے اس وطن کے دفاع میں اپنا حصہ ڈالیے، ہمیں پشتونوں سے پیار ہے مگر جب منظور پشتین پاک فوج کے خلاف بھونکےگا تو اس کو اسی زبان میں جواب دیا جائے گا، ہم پشتونوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں مگر منظور پشتین اور اس کی تحریک کا پشتونوں کے حقوق سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، یہ دشمن کے ایجنڈے کے لیے کام کر رہے ہیں جبکہ پشتون سب محب وطن پاکستانی ہوتے ہیں۔
آئیے منظور پشتین، محمود اچکزئی، اسفندیار ولی اور ہندوستانی RAW کی اس نئی تنظیم PTM کو بےنقاب کرنے میں اپنا حصہ ڈالیے، اس تحریک کو ہر ممکن بےنقاب کیجیے، کوئی بھی سوال ہو نیچے کمنٹ کرکے پوچھ لیجیے، آپ کو ہر سوال کو تسلی بخش جواب دیا جائے گا، اگر آپ خود اس تنظیم کو بےنقاب کرنے کے لیے کچھ نہیں لکھ سکتے تو کم سے کم میری تحریر کو شیئر کرکے وطن کے دفاع میں اپنا حصہ ڈالیے۔ پاکستانی زندہ آباد





اورہم پاکستان کے خلاف افغانستان اور انڈیا کے غیر اعلانیہ ایجنٹ ھیں

1۔ میں امریکہ ہوں!
اسلام اور پاکستان کا دشمن ہوں۔ افغانستان پر حملہ کر کے ان کو تہس نہس کر دیا۔ لیبیا کی عوام کو میں نے حکومت سے حقوق دلوانے کا جھانسہ دے کر حکومت کے خلاف کھڑا کیا پھر اس عوام کی مدد کے بہانے لیبیا پر حملہ کیا اور لیبیا کو تباہ و برباد کر دیا۔ عراق پر کیمیائی ہتھیار بنانے کا جھوٹا الزام لگا کر میں نے ہی عراق کو کھنڈر بنایا۔ اور اب میں ایک طرف شام کی عوام کو حقوق اور مسلک کے نام پر اپنی ہی حکومت سے لڑاوایا اور پھر وہاں میں نے داعش کو بھی گھسا دیا ساتھ ہی خوف بھی تابڑ توڑ حملے کر کے شام کی اینٹ سے اینٹ میں ہی بجا رہا ھوں۔۔۔ اپنی سی آئی اے کو کافی عرصہ سے پاکستان کے خلاف خفیہ جنگ کیلیئے استعمال کر رہا ھوں۔حسین حقانی، آصف زرداری، رحمان ملک ، ملالہ یوسفزئی اور ڈاکٹر شکیل جیسے غدار خرید کر بھی پاکستان کو دنیا میں بدنام کروا رہا ھوں۔اور اب فاٹا میں پشتونوں پر ڈرون حملے کرتا ہوں۔ یہاں جو خونریز جنگ چل رہی ہے میں نے ہی شروع کروائی تھی۔ میں ہی ٹی ٹی پی کا خفیہ پشت پناہ ہوں۔
میں منظور پشتین کو سپورٹ کرتا ہوں۔
2۔ میں انڈیا ہوں!
اسلام اور پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہوں۔ پشتونوں اور بلوچوں کے خلاف جاری پراکسی جنگ کا ماسٹر مائنڈ ہوں۔ میں نے بہت سے جاسوس اور دھشت گرد پاکستان کو تباہ کروانے کیلیئے پاکستان میں بھیجے ھیں۔۔ میری اس جنگ کی بدولت اب تک پچاس ہزار پاکستانی اپنی جان گنوا چکے ہیں جن میں اکثریت پشتونوں کی ہے۔۔۔
میں بھی منظور پشتین کو سپورٹ کرتا ہوں۔
3۔ میں افغانستان ہوں۔
اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کا سب سے بڑا ٹھکانہ ہوں۔ پاکستان کے خلاف چلائی جانے والی تمام تحریکوں کا مرکز رہا ہوں۔ ٹی ٹی پی کو بھی محفوظ پناہ گاہیں میں نے فراہم کی ہوئی ہیں۔ فاٹا اور کے پی کے میں ہونے والے تمام خود کش اور دھشت گرد حملے میرے یہاں سے ہوتے ہیں۔ میں ہی پاکستان کے خلاف اپنی اوورسیز افغانی کمیونٹی کو پوری دنیا میں جلوس اور ریلیاں نکالنے کیلیئے استعمال کرتا ھوں۔میرے ملک میں پاکستان کے خلاف ہر جلوس میں پاکستان کا جھنڈا جلانا ھم ضروری سمجھتے ھیں۔پاکستان کے اندر رہنے والے تمام افغانی لوگ میرے ایجنٹ ھیں جو میرے اور میرے آقاوں کے مفاد کے مطابق پاکستان کے اندر افراتفری پھیلانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔۔۔
میں بھی منظور پشتین کو سپورٹ کرتا ہوں۔
4۔ میں برطانیہ ہوں۔
پاکستان کے تمام دشمنوں کا گڑھ۔ فاٹا کا ایف سی آر قانون میرا ہی چھوڑا ہوا ہے۔ پاکستان کا غدار اعظم الطاف حسین کو بھی میں نے ہی پناہ دی ھوئی ھے۔ کراچی کی تمام تر جاسوسی اور تمام تر حالات کا کنٹرول انڈیا کے ساتھ مل کر میں ہی سنبھالتا رہا ھوں۔میں پاکستان کے خلاف ہمیشہ انڈیا اور امریکہ کا اتحادی رہا ہوں۔
میں بھی منظور کو سپورٹ کرتا ہوں۔
5۔ میں ٹی ٹی پی ہوں۔
دور جدید میں پشتونوں کا سب سے بڑا قاتل اور پاکستان کا دشمن۔ میں نے بے شمار پشتونوں کو ذبح کیا، ان کو بموں سے اڑایا اور ان کے سروں سے فٹبال کھیلا۔ میں ہی پاک افواج کو فاٹا اور خیبر پختون کے پر امن شدہ علاقوں سے واپس جانے کیلیئے اپنے ہی چند مہرے استعمال کر کے در پردہ دباو ڈلوا رہا ھوں۔۔۔
میں بھی منظور پشتین کو سپورٹ کرتا ہوں۔
6۔ میں الطاف حسین ہوں۔
کراچی میں پشتونوں کا سب سے بڑا قاتل اور اعلانیہ غدار۔ میں پاکستان کو توڑنے کا اعلان کر چکا ہوں اور ہر اس شخص کا دوست ہوں جس سے پاکستان کو کسی بھی طرح نقصان پہنچ سکے۔
میں بھی منظور پشتین کو سپورٹ کرتا ہوں۔
7۔ میں وقاص گورایا ہوں۔
مشہور زمانہ لعنتی اور گستاخ رسول اسلام اور پاکستان کا بدترین دشمن۔ اسلام اور پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میں میرا کوئی ثانی نہیں۔عاصمہ جہانگیر جیسی لبرل ،اور اسلام دشمن عورت میری ماں۔ اللہ اور رسول کو گالیاں دینا میرا شیوہ اور ہر اسلام دشمن میرا دوست۔
میں بھی منظور پشتین کو سپورٹ کرتا ہوں۔
8۔ میں حسین حقانی ہوں۔
میں نے میمو گیٹ میں امریکہ کو پاکستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ پاکستان میں ہزاروں سی آئی اے ایجنٹس بغیر ویزہ گھسائے جنہوں نے ٹی ٹی پی بنا کر اور خود بھی اپنی بدنام بلیک واٹر کو استعمال کر کے وہ آگ لگائی جو پاک فوج کو اپنے خون سے بجھانی پڑی۔ اور پاکستان کے اندر 10000 فوجی شھید کروائے اور 20000 سے زیادہ معصوم پختونوں کا خون بھی میری ہی کوششوں سے بہایا گیا۔
میں بھی منظور پشتین کو سپورٹ کرتا ہوں۔
9۔ میں محمود اچکزئی ہوں۔
میری زبان سے آج تک پاکستان کے لیے کوئی کلمہ خیر نہیں نکلا۔ میں ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتا اور کے پی کے اور فاٹا کو افغانستان کا حصہ بنانا چاہتا ہوں۔ میں پاکستان کے ایوانوں میں بیٹھتا ھوں وزیر بن کر اور فاٹا کے عوام کا نمائندہ بن کر مگر میں نے آج تک ایک بھی کام فاٹا کی فلاح اور فاٹا کے عوام کی بھلائی کیلیئے نہیں کیا۔
میں بھی منظور پشتین کو سپورٹ کرتا ہوں۔
10۔ ہم ہیں ماروی سرمد اور جبران ناصر۔
ہماری وجہ شہرت پاکستان دشمنی، انڈین موقف کی تائید اور شعائر اسلام پر تنقید ہے۔ ہم پاکستان میں لبرل ازم کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔ ھماری لگائی ھوئی خفیہ مگر خطرناک ترین آگ پاکستان کی نوجوان نسل کو دین بیزار کر رہی ھے۔۔۔ نوجوان نسل کو مذہب سے دور کر کے بےحیائی کی طرف ھم دھکیل رہے ھیں۔ جسکی مثال کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد میں نوجوان لڑکیوں کا جلوس ""#میرا_جسم_میری_مرضی"" ھے۔۔۔ ھم آنجہانی وکیل عاصمہ جہانگیر کو اپنی یعنی تمام ملحد طبقے کی امی مانتے ھیں۔۔۔
ہم بھی منظور پشتون کو سپورٹ کرتے ہیں۔
11۔ ہم عام افغانی عوام ہیں۔
افغانستان میں کوئی پاکستانی پشتون مل جائے جو جان کی ضمانت لیے بغیر آیا ہو تو اس کو قتل کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ہم کرکٹ اور جنگوں میں ہمیشہ انڈیا کی فتح کی دعائیں مانگتے ہیں۔ ھم پاکستان کے خلاف آئے دن افغانستان کے اندر جلوس نکالتے اور پاکستان کا پرچم نظر آتش کرتے ھیں۔ ھم پاکستان کے اندر رہتے ھیان کھاتے پیتے ھیں تعلیم بزنس سب کچھ کرتے ھیں پھر بھی ھم اپنے افغانستان کے وفادار اور پاکستان کے غدار ھیں بلکہ ھم تو پاکستان کے تمام دشمنوں کے آلہ کار بھی ھیں۔
ہم بھی منظور پشتین کو سپورٹ کرتے ہیں۔
12۔ میں ملالہ یوسفزئی ہوں۔
دور جدید میں امریکہ کی سب سے بڑی کٹھ پتلی جس نے اسلام، پاکستان اور افواج پاکستان کی بد ترین منظر کشی کرنے پر دنیا کا سب سے بڑا انعام حاصل کیا۔ میں بھی غداروں کہ فہرست میں شامل ھوں۔
میں بھی منظور پشتین کو سپورٹ کرتی ہوں۔
13۔ ہم سرخے ہیں۔
لا دین ہیں اور اسلام چھوڑ چکے ہیں۔ ہم روس کی طرح کمیونسٹ انقلاب لانا چاہتے ہیں جہاں دہریت کا دور دورہ ہو۔ ہم پاکستان سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ اور ھمارے آقا اسفندریار ولی ھیں جن کو ان کی اپنی سگی ماں پاکستان کا غدار کہتی ھے۔اور پاکستان کے خلاف وہ انڈیا کے غیر اعلانیہ ایجنٹ ھیں۔۔۔
ہم بھی منظور پشتین کو سپورٹ کرتے ہیں۔
کیا آپ بھی منظور پشتین کو سپورٹ کرتے ہیں؟؟؟؟؟
تحریر:- شاہد خان

Thursday, 19 April 2018

پاک افغان سرحد پر لگائی جانے والی باڑ

امریکی ہیلی کاپٹرز کی واپسی اور پاک افغان سرحد پر لگائی جانے والی باڑ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پاک افغان سرحد پر پاک فوج کی جانب سے لگائی جانے والی باڑ بیک وقت امریکہ، انڈیا اور افغانستان کے لیے درد سر بن رہی ہے۔
پاکستان کے متنازعہ سابق سفیر حسین حقانی نے چند دن پہلے ایک مضمون لکھا جس میں پاک فوج کی ڈیورنڈ لائن پر لگائی جانے والی باڑ کو دیوار برلن سے تشبیہ دی جس نے جرمنی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
حسین حقانی کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ وہ سی آئی اے کی ہدایات پر کام کرتا ہے۔ اور اسکا مذکورہ مضمون دراصل ڈیورنڈ لائن پر لگائے جانے والی باڑ کے بارے میں امریکی موقف واضح کرتا ہے۔
اس باڑ پر مذکورہ ممالک کے علاوہ پاکستان کی قوم پرست جماعتوں اے این پی، اچکزئی کے علاوہ فضل الرحمن کو بھی اعتراض ہے۔
اسکا انکشاف کچھ دن پہلے حامد میر نے اپنے پروگرام میں کیا کہ " درحقیقت فضل الرحمن کے فاٹا کو کے پی کے میں شامل ہونے سے روکنے کی کوشش اس کے پاک افغان سرحد پر لگائی جانے والی باڑ کو روکنے ہی کی کوشش ہے جسکا وہ اعلانیہ اعتراف نہیں کر سکتا۔ "
اس باڑ پر اعتراض کی وجہ تین چیزیں ہیں جنکے راستے کی یہ دیوار بن رہی ہے۔
دہشت گردوں کی نقل حمل
یہ باڑ مکمل ہونے کے بعد افغانستان سے پاکستان دہشت گرد بھیجنا تقریباً ناممکن ہوجائیگا جس کے بعد پاک فوج کے لیے آسان ہوگا کہ ردالفساد میں جن جن دہشت گرد عناصر کی نشاہدہی ہو چکی ہے ان کو ایک بڑے آپریشن کی مدد سے ایک ہی بار میں صاف کر دیا جائے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستانی سیاست میں گھسے دہشت گردوں کے بڑے بڑے سہولت کاروں کے گرد گھیرا تنگ ہو چکا ہے۔
اگر امریکہ کا اصل نشانہ پاکستان ہے تو امریکہ کی 17 سال کی محنت اور ہزاروں ارب ڈالر کا سرمایہ ضائع ہوجائیگا۔ نیز سی پیک بھی مکمل طور محفوظ ہوجائیگا۔
افیون کی کاشت
افغانستان دنیا کی 75 فیصد افیون پیدا کرتا ہے جسکا 90 فیصد امریکہ جاتا ہے جس سے ہیروئین میں تبدیل کر کے امریکن سی آئی اے سالانہ 80 ارب ڈالر کماتی ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان کا کل قرضہ 83 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان کے راستے ہونے والی افیون کی یہ نقل و حمل متاثر ہوگی۔
افغانیوں کی وطن واپسی
باڑ لگنے کے بعد افغانستان بھیجے جانے والے افغانیوں کے چور راستوں سے واپس آنے کا امکان ختم ہوجائیگا۔ یاد رہے کہ پاکستان میں مقیم 60 لاکھ افغانیوں کو انڈیا اور انکی پشت پر امریکہ اپنا اثاثہ خیال کرتا ہے۔
اسی لیے امریکہ نے پاک فوج سے پاک افغان سرحد کی نگرانی کے لیے دئیے جانے والے ہیلی کاپٹرز بھی واپس لے لیے ہیں۔
افغانستان کا انحصار پاکستان پر کم کرنے کے لیے پاکستان سے براستہ واہگہ انڈیا کو افغانستان تک رسائی دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اور امریکہ و انڈیا کے اس مشترکہ مطالبے کی حمایت میں اٹھنے والی سب سے طاقتور آواز مسلم لیگ ن کے "غیر اعلانیہ ترجمان" جاوید ھاشمی کی ہے۔
انڈیا نے پہلی بار براستہ چاہ بہار 11 لاکھ ٹن گندم افغانستان بھیجی ہے۔ اس سلسلے میں افغانستان، ایران اور انڈیا کے سفارت کاروں کو درمیان باقاعدہ کانفرنس کال ہوئی ہے۔
آپ نے سنا ہوگا کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی وزارت خارجہ لندن میں بیٹھ کر نواز شریف کو بچانے کی راہیں ڈھونڈ رہی ہے اچانک پاکستان کے سپاہ سالار جنرل باجوہ نے ایرانی سفیر سے خصوصی ملاقات کی ہے۔
اشرف غنی نے انڈیا میں بیٹھ کر بھڑک ماری ہے کہ اگر انڈیا کو پاکستان نے راستہ نہیں دیا تو ہم پاکستان کا وسطی ایشیائی ریاستوں سے رابطہ کاٹ دینگے۔
یہ ایک ایسی شخص کی بھڑک ہے جس کا کابل پر بھی کنٹرول نہیں ہے باقی افغانستان میں یہ خود نقل و حرکت نہیں کر سکتے تو کسی اور کا راستہ کیا روکیں گے؟؟