Sunday, 20 May 2018

قوم کی بیٹی سے متعلق کچھ حقائق ۔۔۔۔۔ !

قوم کی بیٹی سے متعلق کچھ حقائق ۔۔۔۔۔ !
عافیہ صدیقی ایک ماہر نیورالوجسٹ تھیں ۔ اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ امریکہ میں گزارا اور وہ امریکی شہریت رکھتی تھیں ۔ اس نے دو شادیاں کی ہیں جن میں پہلی شادی پسند کی تھی۔
امریکہ کا دعوی ہے کہ "انہیں القاعدہ سے تعلقات کے شبے میں پکڑا گیا ہے۔ خالد شیخ محمد نے دوران تفتیش انکا نام لیا تھا اور وہ القاعدہ کے لیے رقوم بھی منتقل کرتی تھیں۔ گرفتاری کے بعد قید کے دوران اسنے امریکی فوجیوں سے بندوق چھین کر ان پر فائرنگ کی ۔ جسکی وجہ سے انہیں سزا سنائی گئی۔ "
( یہ امریکی الزامات ہیں آپ نظر انداز کر سکتے ہیں)
آگے بڑھنے سے پہلے ایک سوال ۔۔
مشرف نے کب اور کہاں عافیہ صدیقی کو امریکہ کے ہاتھ بیچنے کا اعتراف کیا ہے؟
اس سوال کا جواب مجھے آج تک نہیں ملا۔
اب آتے ہیں اصل مضمون پر۔۔۔۔
یہ بات قطعاً جھوٹ ہے کہ عافیہ صدیقی ہی بگرام جیل کی قیدی نمبر 650 تھیں۔
معظم بیگ وہ شخص ہے جس کے بیان پر عافیہ کو قیدی نمبر 650 بنا دیا گیا۔
مگر معظم بیگ فروری 2002 میں بگرام جیل لایا گیا، اور پھر اسکے ایک سال بعد ٹھیک 2 فروری 2003 کو وہ بگرام سے گوانتاناموبے کی جیل میں منتقل کر دیا گیا۔
جبکہ عافیہ اسکے دو مہینے بعد تک کراچی میں اپنی فیملی کے ساتھ موجود تھیں اور وہ یکم اپریل 2003 کو روپوش ہوئیں۔ جبکہ معظم بیگ جس قیدی عورت کے چیخنے کی آوازیں سننے کی بات کرتا تھا، وہ تو معظم بیگ سے بھی پہلے جیل میں موجود تھی۔
تو اب کوئی عقلمند یہ بتا سکتا ہے کہ پھر صدیقی فیملی، مس ریڈلی اور قوم کے دانشوران نے سالہا سال کی عافیہ کیس پر تحقیق کے بعد بھی عافیہ کو قیدی نمبر 650 کیوں بنا کر پیش کرتے رہے؟
درحقیقت عافیہ صدیقی کی امریکنز کے ہاتھوں گرفتاری 2008ء کے بعد ہوئی جس وقت مشرف کی حکومت ختم ہو چکی تھی۔ اس دوران یہ اپنے ماموں شمس الدین، مفتی ابولبابہ شاہ منصور اور مفتی رفیع عثمانی سمیت کئی لوگوں سے رابطے میں رہیں اور اسی دوران اس نے القاعدہ کے لیے حیاتیاتی ہتھیار بھی بنانےکی کوشش کی۔
22 مئی 2009 کو امت اخبار میں عافیہ کے سابق شوہر ڈاکٹر امجد کا طویل انٹرویو شائع ہوا ہے جس سے معلوم ہوا کہ عافیہ نے اپنی روپوشی کا ڈرامہ خود رچایا تھا۔ اس انٹرویو کے چیدہ چیدہ اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
1۔ عافیہ جنونی کیس ہے۔
2۔ عافیہ اگر جہادی تنظیموں کی ممبر نہیں تھیں، مگر پھر بھی عافیہ کے جہادی تنظیموں سے رابطے تھے، اور خالد شیخ گروپ سے بھی رابطے تھے، امریکہ میں بھی اور پاکستان میں بھی۔ نیو ہمپشائر میں گروپ کے ساتھ کیمپنگ کیا کرتیں جس کا مقصد جہاد کی تیاری تھا جس میں پانچ چھ بار وہ خود لے کر گئے۔ نیز انہوں نے نائٹ ویژن اسکوپ اور دو بلٹ پروف شکاری جیکٹس، سی فور دھماکہ خیز مواد بنانے کے مینوئل وغیرپ خریدے جس کی وجہ فطری دلچسپی اور شکار بتائی اور ان کی خرید و فروخت ممنوع نہیں تھی ملک سے باہر لے جانا ممنوع تھا۔
3۔ جب پہلی مرتبہ امریکی اداروں نے ان کا انٹرویو لیا تو عافیہ نے جان بوجھ کر ان ادارے والوں سے جھوٹ بولنا شروع کر دیا، حالانکہ تمام چیزں بینک سٹیٹمنٹ وغیرہ کے ذریعے ثابت تھیں اور ناقابل انکار تھیں (یعنی بلٹ پروف جیکٹیں اور نائٹ ویژن اسکوپ وغیرہ۔ جب ڈاکٹر امجد نے اس کی وجہ پوچھی تو عافیہ کہنے لگیں کہ کافروں کو انکے سوالات کے صحیح جوابات دینا جرم ہے اور ان سے جھوٹ بولنا جہاد۔ [پتا نہیں پھر وہ کافروں کے ملک امریکہ گئی ہی کیوں تھیں]
4۔عافیہ کے اس جھوٹ کے بعد ڈاکٹر امجد اور عافیہ امریکہ میں مشتبہ ہو گئے اور انہیں امریکا چھوڑ کر پاکستان شفٹ ہونا پڑا۔
5۔ پاکستان شفٹ ہونے کے بعد عافیہ نے ڈاکٹر امجد کو افغانستان میں جہاد پر جانے کے لیے لڑائی کی اور نہ جانے کی صورت میں طلاق کا مطالبہ کیا۔
6۔ دیوبند مکتبہ فکر کے مشہور عالم مفتی رفیع عثمانی نے عافیہ کو سمجھانے کی کوشش کی مگر بات نہ بنی۔
7۔ بہرحال طلاق ہوئی۔ مگر ڈاکٹر امجد بچوں سے طلاق کے بعد سے لیکر اب تک نہیں مل سکے ہیں۔ وجہ اسکی عافیہ اور اسکی فیملی کا انکار ہے۔ یہ ایک باپ پر بہت بڑا ظلم ہے جو بنت حوا اور اسکے حواریوں کی جانب سے کیا گیا اور ابھی تک کیا جا رہا ہے۔
8۔ 2003 میں عافیہ نے خالد شیخ کے بھانجے عمار بلوچی سے دوسری شادی کر لی تھی، مگر اسکو خفیہ رکھا گیا، ورنہ قانونی طور پر بچے ڈاکٹر امجد کو مل جاتے۔
9۔ 2003 میں ہی خالد شیخ کو پکڑا گیا، اور وہاں سے چھاپے کے دوران ملنے والے کاغذات سے پتا چلا کہ عافیہ کا اس گروپ سے تعلق ہے اور یہ کہ وہ خالد شیخ کے بھانجے سے دوسری شادی کر چکی ہیں اور نکاح نامہ پر انکے دستخط ہیں۔ عمار بلوچی کے خاندان والوں نے بھی اسکی تصدیق کی، مگر صدیقی خاندان مستقل طور پر جھوٹ بولتا رہا کہ عافیہ نے دوسری شادی نہیں کی۔ بعد مین عافیہ نے عدالتی کاروائی کے دوران خود اس دوسری شادی کی تصدیق کی۔
10۔عافیہ خفیہ طور پر 5 دن کے لیے امریکہ گئیں اور وہاں پر خالد شیخ کے ساتھی ماجد خان کے لیے اپنے شوہر ڈاکٹر امجد کے کاغذات استعمال کرتے ہوئے ایک عدد پوسٹ بکس کو کرائے پر لے لیا۔ ڈاکٹر امجد کی تحریر کے مطابق انہیں اس پوسٹ باکس کا علم تھا نہ عافیہ کے اس 5 دن کے خفیہ دورے کا۔
11۔ سن 2003 میں خالد شیخ کے پکڑے جانے کے بعد عافیہ بہت خطرے میں آ گئی اور خالد شیخ کے گروہ اور عافیہ نے بہتر سمجھا کہ وہ روپوش ہو جائیں کیونکہ انکا تعلق خالد شیخ سے ثابت تھا اور پھر خالد شیخ کے بھانجے عمار بلوچ سے شادی کرنے کے بعد اور امریکہ میں غیر قانونی طور پر ماجد خان کے لیے پوسٹ بکس باکس لینے کے بعد یہ یقینی تھا کہ ایف بی آئی انکا پیچھا کرتی۔
12۔ چنانچہ ڈاکٹر عافیہ نے باقاعدہ طور پر اپنی روپوشی کا ڈرامہ کھیلا۔
روپوش تو عافیہ 31 مارچ سے کچھ دن پہلے ہی ہو چکی تھی، مگر پھر عافیہ نے اپنی فیملی کو فون کر کے بتایا کہ وہ باقاعدہ ساز و سامان باندھ کر کراچی سے اسلام آباد اپنے ماموں سمش الدین واجد صاحب کے پاس جا رہی ہیں۔
مگر پھر راستے میں روپوش ہو گئیں۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ انہیں اس روپوشی کا جواز بھی دینا تھا کیونکہ ڈاکٹر امجد بچوں سے ملنے کی خاطر عافیہ کے خلاف قانونی کاروائی کر رہے تھے۔ اس لیے اس روپوشی کا جواز یہ بنایا گیا کہ عافیہ کو ایجنسی کے لوگ ہی بچوں سمیت اغوا کر کے لے گئے ہیں۔
یوں عافیہ نہ صرف ڈاکٹر امجد سے بچ گئیں، بلکہ ان کے خاندان والے بھی ان سوالات سے بچ گئے کیونکہ اس دوران عافیہ کا نام گیارہ ستمبر کے حملوں کے حوالے سے سب سے زیادہ مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہو چکا تھا۔
13۔ مگر ڈاکٹر امجد نے عافیہ کے غائب ہو جانے پر یقین نہیں کیا، اور خاندان کی درزن اور دو اور لوگوں نے اسکے بھی عافیہ کو کراچی میں دیکھا، اور داکٹر امجد لکھتے ہیں کہ انہوں نے ان لوگوں کو بطور گواہ عدالت میں بھی پیش کیا۔
14۔ لیڈی صحافی ریڈلی نے دعوی کیا عافیہ بگرام جیل میں قیدی نمبر 650 ہے۔ مگر مس ریڈلی نے یہاں چیٹنگ کی اور یہ بالکل صاف اور سیدھی سی بات تھی کی عافیہ قیدی نمبر 650 نہیں ہو سکتی کیونکہ معظم بیگ 2 فروری 2003 کو بگرام سے گوانتانا موبے منتقل ہو چکا تھا جبکہ عافیہ اسکے دو مہینے بعد 31 مارچ 2003 کو روپوش ہوئی۔
15 سب سے بڑا ثبوت: عافیہ کا 2008 میں اپنے ماموں شمس الدین واجد کے گھر نمودار ہونا ھے-
ڈاکٹر امجد لکھتے ہیں دو بڑے انگریزی اخبارات میں انہیں ایک دن شمس الدین واجد [عافیہ کے ماموں] کا بیان پڑھنے کو ملا جس سے انہیں شاک لگا۔ شمس الدین واجد کہتے ہیں کہ سن 2008 میں عافیہ ان کے گھر ایک دن اچانک نمودار ہوئی۔ اور تین دن تک رہی۔
ڈاکٹر امجد نے پھر بذات خود شمس الدین واجد صاحب سے رابطہ کیا اور ان سے تفصیلات طلب کیں۔ شمس الدین واجد صاحب نے جواب میں انہیں باقاعدہ ای میل تحریر کی ہے جو کہ بطور ثبوت ڈاکٹر امجد کے پاس موجود ہے۔ شمس الدین واجد صاحب کے مطابق انہوں نے عافیہ کی ماں کو بھی وہاں پر بلایا اور انکی بھی عافیہ سے ملاقات ہوئی۔
مزید یہ کہ عافیہ نے کھل کر نہیں بتایا کہ وہ کن لوگوں کے ساتھ ہے، مگر اس دوران میں شمس الدین واجد صاحب کو عافیہ کی ناک پر سرجری محسوس ہوئی جو زخم کی وجہ سے تھی یا پھر شکل تبدیل کرنے کی غرض سے، بہرحال عافیہ پورے عرصے نقاب کا سہارا لیتی رہی اور کھل کر سامنے نہیں آئی۔
پھر عافیہ نے اپنے ماموں سے ضد شروع کر دی کہ وہ انہیں طالبان کے پاس افغانستان بھیج دیں کیونکہ طالبان کے پاس وہ محفوظ ہوں گی۔ مگر ماموں نے کہا کہ انکے 1999 کے بعد طالبان سے کوئی رابطے نہیں ہیں اور وہ اس سلسلے میں عافیہ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ اس پر عافیہ تیسرے دن وہاں سے غائب ہو گئی۔
گمان غالب ہے کہ ان کو امریکنز نے افغانستان میں ہی گرفتار کیا تھا جہاں وہ جانے کے لے بےتاب تھیں۔
------------------------------------------------------------------
------------------------------------------------------------------
حقیقت یہ ھے کہ عافیہ نے یہ کھیل امریکی گرفت اور سابقہ خاوند کو بچوں سے دور رکھنے کیلئے کھیلا اور وہ اس پورے عرصے کے دوران خالد شیخ کے گروہ یا کسی اور جہادی گروہ کی مدد سے روپوش رہی، اور اسی گروہ کے لوگ عافیہ کے گھر والوں کو اس عرصے میں فون کر کے عافیہ کی خیریت کی خبر دیتے رہے۔
نیز واجد شمس الدین کی گواہی کے مطابق جس عافیہ سے سن 2008 میں ملے تھے، وہ اپنے پورے ہوش و حواس تھی۔ جبکہ بگرام کی قیدی 650 اپنے ہوش و حواس کھو چکی تھی۔ اس حقیقت کے بعد قیدی نمبر 650 کی حقیقت بالکل واضح ہو چکی تھی مگر افسوس کہ یہ فوج دشمنی ھے کہ جس کی وجہ سے یہ لوگ ابھی تک قیدی نمبر 650 کا پروپیگنڈہ کرتے ہوئے اپنے ہی ادارے پر تہمتیں لگائے جا رہے ہیں۔
"عافیہ کے بچے تمام عرصے عافیہ کے پاس تھے":-
عافیہ کے ساتھ اسکا بیٹا احمد موجود تھا جس کے متعلق پکڑے جانے پر عافیہ نے جھوٹ بولا تھا کہ احمد اسکا بیٹا نہیں بلکہ احمد مر چکا ہے اور تمام عرصے وہ احمد کو علی حسن بتلاتی رہی۔ مگر ڈی این اے ٹیسٹ سے تصدیق ہو گئی کہ وہ احمد ہی ہے۔ نیز احمد اپنی ماں کو عافیہ کے نام سے نہیں جانتا تھا، بلکہ صالحہ کے نام سے جانتا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ عافیہ اس پورے عرصے کے دوران اپنی آئڈنٹیٹی تبدیل کر کے صالحہ کے نام سے روپوشی کی زندگی گذارتی رہی-!
تو اب سچ کو بے نقاب ہو جانا چاہیے۔ اگر مشرف پر قوم کی بیٹی بیچنے کا الزام ہے تو اس کو سزا ہو جائے، لیکن اگر یہ فقط تہمت ہے تو اس میڈیا پر ایک آدم کے بیٹے پر یہ مسلسل اور نہ ختم ہونے والی تہمت کے دہرانے پر جتنی بھی لعنت کی جائے وہ کم ہو گی۔
کیا یہ کہنا درست نہیں کہ عافیہ کیس میری قوم کی جذبات میں آ کر اندھا ہو جانے کی بدترین مثال ہے کہ جہاں قوم کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور اُسے جذبات میں کچھ نظر نہیں آ رہا ہوتا۔
نوٹ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ تحقیق و تحریر میرے دوست اویس صابر کی جو زیادہ تر مختلف اخبارات میں چھپنے والے مواد پر مشتمل ہے ۔۔۔۔ !

No comments:

Post a Comment