Monday 7 May 2018

5000 سال تو کیا پچھلے 300 تک افغانستان نام کے کسی ملک کا کوئ وجود نہیں تھا

افغانستان پر بیرونی قبضوں کی تاریخ:
ھم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پاکستان کے حوالے سے جو بھی پوسٹ یا خبر ہوتی ھے افغانی وہاں آکر پاکستان کو گالیاں دینے لگتے ہیں۔ انڈیا کی تعریفیں کرنے لگتے ہیں۔ پنجابیوں کو سکھوں کی اولاد کہنے لگتے ہیں اور پاکستانی پختونوں کو پنجابیوں کا غلام کہنے لگ جاتے ہیں۔ سی دوران وہ اپنی 5000 سالہ تاریخ بھی بتانے لگتے ہیں۔ اکثر پاکستانی بھائ علم نہ ہونے کی وجہ سے ان کا جواب نہیں دے پاتے۔ حالانکہ یہ بہت ہی آسان ھے۔ آج میں آپ کو افغانستان کی تاریخ بتاتا ہوں۔ افغانیوں کا دعوی کہ افغانستان پر کبھی کسی نے قبضہ نہیی کیا بہت بڑا جھوٹ ھے۔ اور یہ جھوٹ صرف اور صرف افغانستان میں افغانیوں کے درمیان ہی بولا جاتا ھے۔ باقی دینا میں کوئ یہ بات نہیں مانتا۔
در حقیقت افغانستان سب سے زیادہ بیرونی قوتوں کے زیر قبضہ رہا۔ اور افغانستان پر قبضوں کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ھے۔ یہں وجہ ھے کہ افغانستان پر جو بھی اقوام قابض رہی ان کی نسل آج بھی موجودہ افغانستان میں موجود ھے۔ منگول حکمران چنگیز خان نے 1220 میں موجودہ افغانستان کے علاقے فتح کیے۔ چنگیز خان کی نسل ہزارہ برادری آج بھی افغانستان میں بڑی تعداد میں موجود ھے جو افغانستان میں چنگیز خان کے قبضے کے دوران پیدا ہوئ یا آباد ہوئ۔ اور آج بھی اپنے نام کے ساتھ چنگیزی لکھتے ہیں۔
محمود غزنوی سلطان سبکتگین کا بیٹا تھا۔ سلطان سبکتگین ترک تھا۔ سبکتگین ترک زبان کا لفظ ھے جس کی معنی "ہر دلعزیز شہزادہ" کے ہیں۔ محمود غزنوی ترک حکمران اور باپ سبکتگین کے افغانستان پر حکومت کے دوران افغانستان کے علاقے غزنی میں پیدا ہوا۔ اور اسی مناسبت سے محمود غزنوی کے نام سے مشہور ہوا۔
330 قبل از مسیح میں سکندر اعظم جو کہ یونانی تھا نے موجودہ افغانستان کے علاقوں کو اہنے زیر تسلط لیا۔ افغان سردار کی بیٹی رخسانہ سے شادی کی۔ افغانستان میں ایک شہر قائم کیا جس کا نام ای خانم ھے اور آج بھی موجود ھے۔ موجودہ افغانستان کے علاقے فتح کرنے کے بعد اپنے اگلے مہم پر ہندوستان روانہ ہو گیا۔ سکندر اعظم کو افغانستان میں کسی قابل ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
موجودہ افغانستان کے علاقے صدیوں تک اشوک، کوشان اور بدھ سلطنتوں کا حصہ رھے جس کا واضح ثبوت افغان صوبے بامیان میں بدھا کے دو مجسمے جن میں ایک 140 فٹ اونچا اور دوسرا 115 فٹ اونچا تھا 2001 میں طالبان نے ٹینکوں سے تباہ کر دیا تھا۔ موجودہ حکومت نے اقوام متحدہ کے ذریعے ان مجسموں کو دوبارہ تعمیر کر دیا۔ اس کے علاوہ بھی افغانستان کے مختلف علاقوں میں بدھ مت کے آثار موجود ہیں۔ افغانستان کے موجودہ شہر قندھار کا نام بھی بدھ مت کی سلطنت گندھارا کا جدید نام ھے۔ موجودہ قندھار گندھارا تہذیب کا مرکز رہا۔
539 قبل مسیح سے لیکر 331 قبل مسیح موجودہ افغانستان کے علاقے سلطنت فارس کا حصہ تھے۔ فارسی آثار آج بھی افغان علاقوں میں غالب ہیں۔ یہی وجہ ھے کہ کہ فارسی آج بھی افغانستان کی پشتو کے ساتھ مشترکہ قومی زبان ھے۔
1530 سے 1605 تک موجودہ افغانستان کے حصے مغل سلطنت کا حصہ تھے۔
اس لئے 5000 سال تو کیا پچھلے 300 تک افغانستان نام کے کسی ملک کا کوئ وجود نہیں تھا۔ البتہ پختونوں کی تاریخ پرانی ہو سکتی ھے۔ مگر پختون بھی صرف افغانستان میں نہیں تھی بلکہ پختونوں کی اکثریت آج کے پاکستان کے پختون علاقوں میں آباد تھی اور آج تک آباد ھے۔
1979 سے 1989 تک روس افغانستان پر قابض رہا۔ جس کی تفصیل الگ سے لکھوں گا۔
2001 سے تا حال امریکہ سمیت 14 نیٹو ممالک افغانستان پر قابض ہیں۔

No comments:

Post a Comment