Monday, 28 May 2018

اداکارہ میرا 9 سال بعد عتیق الرحمان کی بیوی قرار


 پير 28 مئ 2018


اداکارہ میرا کا نکاح نامہ حقائق پر مبنی ہے جسکی تصدیق نکاح خواں حامد خان نےکی ہے، عدالت ؛ فوٹو : فائل
اداکارہ میرا کا نکاح نامہ حقائق پر مبنی ہے جسکی تصدیق نکاح خواں حامد خان نےکی ہے، عدالت 
 
لاہورفیملی کورٹ نے 9 سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ اداکارہ میرا اور عتیق الرحمان کے نکاح نامے کی تصدیق ہوچکی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اداکارہ میرا اور ان کے مبینہ شوہر عتیق الرحمان کے درمیان تنسیخ نکاح کے کیس کا معاملہ لاہور کی فیملی عدالت میں طویل عرصے سے زیر سماعت تھا۔ مارچ میں ہونے والی سماعت میں اداکارہ میرا کے نکاح سے متعلق نکاح خواں حامد خان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اداکارہ میرا اور ان کے مبینہ شوہرعتیق الرحمان کا نکاح حقیقت ہے جو میں نے خود گواہان کی موجودگی میں اسلامی شریعت کے مطابق پڑھایا۔








لاہورفیملی کورٹ نے 9 سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ اداکارہ میرا اور عتیق الرحمان کے نکاح نامے کی تصدیق ہوچکی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اداکارہ میرا اور ان کے مبینہ شوہر عتیق الرحمان کے درمیان تنسیخ نکاح کے کیس کا معاملہ لاہور کی فیملی عدالت میں طویل عرصے سے زیر سماعت تھا۔ مارچ میں ہونے والی سماعت میں اداکارہ میرا کے نکاح سے متعلق نکاح خواں حامد خان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اداکارہ میرا اور ان کے مبینہ شوہرعتیق الرحمان کا نکاح حقیقت ہے جو میں نے خود گواہان کی موجودگی میں اسلامی شریعت کے مطابق پڑھایا۔

لاہور کی فیملی کورٹ میں ہونے والی آج کی سماعت میں جج بابر ندیم نے اداکارہ میرا کو عتیق الرحمان کی بیوی قرار دیتے ہوئے 18 صفحات پر مشتمل فیصلہ سنا دیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اداکارہ میرا کا نکاح نامہ حقائق پر مبنی ہے اور نکاح خواں حامد خان نے باقاعدہ اس کی تصدیق کی ہے۔  ادکارہ میرا نے اپنی مرضی سے عتیق الرحمان سے نکاح کیا اور نکاح کے وقت تصاویر بھی حقائق پر مبنی ہیں۔ دلہن نے نکاح کے وقت عروسی لباس پہن رکھا ہے اور تصاویر میں جو افراد موجود ہیں وہ بطور گواہ عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے نکاح کی تصدیق کی ہے۔
عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ نکاح کے بعد دونوں میاں بیوی سیاحت کے لیے بیرون ملک بھی گئے تھے جس کے شواہد بھی عدالت میں پیش کیے گئے، بعد میں دونوں میاں بیوی کے مابین ایک گھر پر تنازع پیدا ہوگیا تھا۔
واضح رہے کہ لاہور کی فیملی عدالت میں ادکارہ میرا نے 25 جولائی 2009 کو نکاح نامہ چیلنج کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ عتیق الرحمان کو جانتی تک نہیں،  عتیق الرحمٰن سستی شہرت کے لیے میرا شوہر ہونے کا دعوی کررہا ہے۔ جس پر عدالت نے وکلاء کی حتمی بحث اور گواہان کی شہادت کے بعد کیس کا فیصلہ سنا دیا اور میرا کی تکذیب نکاح کیس کی درخواست مسترد کردی۔

Sunday, 27 May 2018

Tighten Your Breasts in Week with This Home Remedy



Tighten Your Breasts in Week with This Home Remedy

Today we are going to share already tasted remedy that will help you lift your breasts and make them firm and perkier. Great boobs are the huge part of the every women life; they make them feel sexier and beautiful.
Sagging breasts can make women very insecure. Let`s be real every woman in the world is dreaming about perfect breasts.
Well, unfortunately, that`s not possible. When the ladies are coming close, or they are already at the age of 40, their breasts are starting to droop a bit because of many reasons.
There is a couple of reasons for sagging breasts, like poor nutrition, pregnancy, weight loss in the short amount of time, breastfeeding and much more. Some women have sagging breasts because of wearing the wrong bra for a long time.
Ladies be aware that sagging breasts can happen even in the younger age, not at the age of 40 or older.
This natural mask that we are going to show you is made with ingredients that are available everywhere and you can apply it to the breasts without any hesitation of side effects. Before spending a fortune to lift your breasts with surgeries.



We suggest you, to find the best natural ways for lifting your breasts. It`s healthier, cheaper and you will benefit without spending thousands of dollars for surgery. So this works for you in many ways.

Vitamin E, Honey, and Egg White Breast Tightening Mask

Ingredients:
  • 1 Tablespoon of Vitamin E
  • 1 Teaspoon of honey
  • 1 Egg white
How to prepare it:
  • Mix all of the ingredients in a bowl.
  • Make sure you make a paste from those components.
  • Wear a bra that won`t absorb the mask. Make sure that bra is the perfect for your breasts.
  • After half hour you are ready to remove the bra and clean your boobs with warm water.
  • Do this routine every day, and the results will amaze you.
This natural formula is the best thing that happened to women with this problem, it`s efficient, and there is no risk of any side effects. After using this remedy, you will be in the best possible shape, and you will feel confident and sexy again. The first results are going to be visible after only seven days.
If you can`t find Vitamin E, there is a liquid of Vitamin E available in every store. You can find capsules also.
Notice: We highly suggest you to avoid using this mask if you are allergic to any ingredients that we have listed above.


Natural Ways To Improve Saggimg Breasts

Overview
As a result of aging or pregnancy, the women very often get saggy breasts. Some of the ways which will make the problem disappear are to put implants or breast lift, but, to put implants is very expensive plus the time you are going to spend on a recovery. There are healthier ways to fix the sagging breasts, some of them are aerobic with chest strengthening exercises.

You may also like to see Tighten Your Breasts in Week!
Pushups:

One of the Chest exercises is push-ups many people don`t like them, but, they are beneficial. Ladies pay attention; push-ups can help you if you have sagging breasts. We don`t need to explain to you how to do pushups because everyone has done it at least once in their life. Do it in 3 times with ten reps.
Aerobic Exercise:

Aerobic exercises are perfect for the fat around your breasts. We suggest you try cross country skiing, swimming which is cardio training will also help you. If you don`t like swimming or cross country skiing, there are other ways, like running, walking or jumping rope. The best way to fix the problem is to have at least 30 min cardio training every day or at least four times a week.
Yoga:

Yoga can also fit into your daily exercise routine. By doing yoga, your muscles are improving not only that helps with the muscles it contributes to calm your mind.
Don`t Smoke!

Smoking is the reason for many diseases, like lung cancer or bad blood flow, it`s going to harm your body, and that`s not good. In this case, when we are speaking about saggy breasts, smoking is not good for your skin because it causes skin tissue to fall apart.



جنرل اسد درانی کو باقیوں کے لیے نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے

بابا کوڈا کی اس تحریر کو زیادہ سے زیادہ شیر کریں۔ جنرل اسد درانی کو باقیوں کے لیے نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سے ٹھیک تین سال قبل عثمان درانی اپنی جرمن کمپنی کی طرف سے جنوبی بھارت کے شہر کوچی جاتا ہے۔ کام ختم کرنے کے بعد قواعد کی رُو سے اسے واپس کوچی ائیرپورٹ سے فلائی کرکے جرمنی واپس جانا تھا لیکن اس کی فلائیٹ کا روٹ براستہ ممبئی بن گیا۔ پھر اسے ممبئی میں ویزہ کی خلاف ورزی پر گرفتار کر لیا گیا۔ اعلی سطحی رابطے ہوئے، عثمان کا والد بذات خود بھارتی افسران سے رابطہ کرتا ہے اور بالآخر پورا ایک دن حراست میں رہنے کے بعد عثمان کو واپس جرمنی روانہ کردیا جاتا ہے۔
عثمان درانی، پاکستان کے سابق آئی ایس آئی چیف اسد درانی کا بیٹا ہے۔ اس واقعے کے ایک سال بعد اسد درانی سے بھارتی صحافی ادیتیا سنہا رابطہ کرتا ہے اور اسے را کے سابق چیف امرجیت سنگھ دلت کے ساتھ مل کر ایک کتاب لکھنے کی آفر کرتا ہے جو قبول کرلی جاتی ہے۔
پھر اسد درانی، امرجیت دلت اور ادیتیا سنہا جرمنی، ترکی اور نیپال کے شہروں میں اکٹھے ہوتے ہیں جہاں پاکستان اور انڈیا کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان انٹرویو کے انداز میں صحافی سنہا کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں جسے سپائی کرونکلز کے نام سے کتابی شکل میں ریلیز کردیا گیا۔
کتاب کی اشاعت کے بعد پاکستانی فوج کی طرف سے سخت ردعمل آیا کیونکہ امرجیت کی نسبت اسد درانی نے زیادہ بڑے انکشافات کئے ہیں۔
اسد درانی کی جی ایچ کیو طلبی ہوچکی، مجھے نہیں پتہ کہ اسد درانی اپنی صفائی میں کیا کہتا ہے لیکن پاک فوج کو اس پہلو کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ کہیں عثمان درانی کو کسی لڑکی وغیرہ کے ذریعے پھانس کر اسد درانی کو مجبور تو نہیں کیا گیا تھا؟ عین ممکن ہے کہ برخوردار کی کچھ تصاویر یا ویڈیو کلپس کو استعال کرتے ہوئے اسد درانی کو مجبور کیا گیا ہو کہ وہ کتاب لکھنے میں مدد دے۔
بہرحال یہ کیس اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنے کا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حساس عہدوں پر کام کرنے والے افسران کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ نہ تو وہ خود بیرون ممالک میں نوکری یا رہائش اختیار کریں گے اور نہ ہی ان کے اہل خانہ۔ اگر پاکستان میں اعلی عہدے پر فائز ہونا ہے تو پھر قربانی بھی اعلی دینا ہوگی۔
جہانگیر کرامت سے لے کر مشرف، پرویز کیانی اور راحیل شریف تک، سب کے سب آرمی چیفس باہر کے ممالک میں رہائش پذیر ہیں اور وہیں ان کے کمرشل مفادات بھی وابستہ ہیں۔
آرمی کے سابق افسران کو واپس بلایا جائے، اور اس کے ساتھ ساتھ سول حکمرانوں اور سیاستدانوں کو بھی اس بات کا پابند بنایا جائے کہ آئینی عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ اور ان کے اہل خانہ کسی بھی صورت بیرون ممالک کاروبار یا رہائش اختیار نہیں رکھیں گے، بصورت دیگر ان پر غداری کے مقدمات درج ہوں گے۔
یہ کڑوا گھونٹ اگر آج نہ بھرا گیا تو آنے والے دنوں میں یہ عام پریکٹس ہوجائے گی کہ پاکستان میں عہدے سے ریٹائرڈ یا حکومت سے علیحدگی کے بعد غیرملکی ایجنسیوں کو پاکستانی راز بیچنے شروع کردیئے جائیں۔
ملک ایسے نہیں چلتے، ہم نے آج تک کسی کو غداری کے جرم میں پھانسی نہیں دی۔ دو چار سر قلم کرنا ہوں گے تاکہ سب کو سبق حاصل ہو اور آئیندہ محتاط رہیں!!! بقلم خود باباکوڈا
------------------------------------------
نوٹ ۔۔۔۔۔۔ اس پوسٹ میں راحیل شریف والی بات سے قطعاً متفق نہیں۔ راحیل شریف کی اسلامی اتحادی کی سربراہی پاکستان کے وسیع تر مفاد میں اور بہت ضروری ہے۔ اس پر کافی کچھ لکھ چکا ہوں۔

کشن گنگا ڈیم کی تعمیر خارجہ امور کا قلمدان وزیر اعظم میاں نواز شریف

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
پاکستانی قوم متوجہ ہوں؟
توقع کے عین مطابق عالمی بینک نے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر پاکستان کی شکایات اور شواہد کو ناکافی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔۔۔۔یہ پاکستان کی بھارت سے سفارتی محاذ پر ایک بڑی شکست ہے۔۔۔۔۔کشن گنگا ڈیم کی تعمیر 2009 میں شروع ہوئی جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور ن لیگ مضبوط اپوزیشن تھی۔۔۔2011 کے بعد دو سال تک یہ کیس عالمی عدالت میں چلتا رہا لیکن بالآخر عالمی ثالثی عدالت نے نہ صر ف پاکستان کے اعتراضات مسترد کر دیے بلکہ بھارت کو پانی کا رخ موڑنے کی اجازت دے دی۔۔۔۔۔یاد رہے کہ یہ وہ دور تھا جب بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دیا جارہا تھا اور خارجہ امور کا قلمدان بھی وزیر اعظم میاں نواز شریف کے پاس تھا۔۔۔۔بھارت نوازی کی داستان صرف یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ دریائے سندھ پر بنائے جانے والے متنازعہ پن بجلی کے منصوبے نیموباز گو کے خلاف بھی وزیر اعظم صاحب کے احکامات کے مطابق عالمی عدالت میں جانے سے روک دیا گیا کہ "خوامخواہ اس کیس پر وقت ضائع ہوگا"۔۔۔بھارت نے یہ منصوبہ مکمل کر لیا ، یہی نہیں اس دوران "چٹک" کا منصوبہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچ گیا اور ہم صرف بھارت سے پینگیں بڑھانے کے خواب دیکھتے رہے۔۔۔۔۔۔
میں عموماً سیاسی شخصیات پر تنقید سے اجتناب کرتا ہوں لیکن گزشتہ ایک دہائی میں زراعت اور آبی وسائل کی زبوں حالی کو دیکھ کر خون کھول اٹھتا ہے۔۔۔۔مسلم لیگ ن کی ذمہ داریوں کا یہاں سے اندازہ کر لیں کہ اس دور میں بھارت صرف دریائے سندھ پر چودہ چھوٹے ڈیم اور دو بڑے ڈیم مکمل کر چکا ہے۔۔۔یہی وجہ ہے کہ منگلا ڈیم اکتوبر 2017 سے خالی پڑا ہے جبکہ تربیلا ڈیم بھی اس وقت بارش کا محتاج ہے۔۔۔یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی، پانی کے حوالہ سے ہمارا مستقبل بہت دردناک ہے، دو سال قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بیان دیا کہ وہ پاکستان کو پانی کی بوند بوند کے لیے محتاج کر دے گا اور وہ اس پر عمل کر رہا ہے۔۔۔۔ بھارت دریائے چناب پر سلال ڈیم اور بگلیہار ڈیم سمیت چھوٹے بڑے 11ڈیم مکمل کر چکا ہے ۔ دریائے جہلم پر وولر بیراج اور ربڑ ڈیم سمیت 52ڈیم بنا رہا ہےدریائے چناب پر مزید24ڈیموں کی تعمیر جاری ہے اسی طرح آگے چل کر مزید190ڈیم فزیبلٹی رپورٹس ، لوک سبھا اور کابینہ کمیٹی کے پراسس میں ہیں۔۔۔۔۔
یہ سب کچھ ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے، لیکن کسی کو اس سے غرض نہیں، کوئی نیا پاکستان بنانے کے زعم میں ہے، کوئی ووٹرز کو عزت دینے کا مطالبہ کر رہا ہے، کوئی مذہب پر سیاست کر رہا ہے تو کوئی محض کرسی کے لیے اس گیم کا حصہ ہے۔۔۔اگر یہ مسئلہ کسی پارٹی کے منشور میں شامل نہیں ہے تو اس کے ذمہ دار ہم ہیں۔۔۔عوام کے ووٹ دینے کے معیار نالیاں پکی کرنا، قیمے والا نان یا نام نہاد نمائشی سکیمیں ہیں، دراصل عوام ذہنی غلام بن چکے ہیں جن کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ان کے سیاسی خداؤں کے تابع ہیں۔۔۔اگر مجھ جیسے کم علم کو یہ حقائق ملکی مستقبل کے لیے فکر مند کرسکتے ہیں تو ہمارے نام نہاد دانشور اور میڈیا ہاؤسز کیوں ان موضوعات پر بات نہیں کرتے؟کیوں کہ ہم بطورِ عوام ان موضوعات پر بات کرنا ہی نہیں چاہتے۔۔۔۔مجھے سیاستدانوں سے گلہ نہیں کیوں کہ ان کی جائیدادیں پاکستان سے باہر ہیں، خدانخواستہ پاکستان پر کوئی آنچ آئی تو وہ اسے چھوڑ کر باہر بھاگنے میں دیر نہیں کریں گے۔۔۔مجھے شکوہ عام لوگوں سے ہے جنہوں نے یہاں رہنا ہے، خدا وہ دن نہ دکھائے جب پانی کے گھونٹ کے لیے ایک بھائی دوسرے کا گلا کاٹ رہا ہو۔۔۔۔۔۔!
نوٹ:
تمام پاکستانی اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں اپنے تمام گروپس کے اندر اور ممکن ہو سکے تو اپنے فرینڈ لسٹ میں اور واٹس ایپ میں موجود تمام دوستوں عزیز اقارب کو ایک ایک کر کے بھی سینڈ کریں۔
یہ مسلہ بہت سنگین ھے جسکا ہمیں اندازہ نہیں جس کی طرف ہماری توجہ نہیں جاتی 2025 تک پانی کی اس قدر قلت ہو جائے گی کہ آپ کی فصلوں کو پانی نہیں ملے گا اور پینے کا پانی تک آسانی سے دستیاب نہیں ہوگا۔
یہ سیاست دان ہم پر یہ ظلم کرنے چلے ھیں اور یاد رکھیے ظلم کرنے والا اور چپ کر کے ظلم سہنے والا ایک برابر ھیں.
اللہ پاک کا واسطہ ھے خود پر اور اپنی آنے والی نسلوں پر رحم کریں انکا سوچیں۔
آج آواز نہیں اٹھاؤ گے تو پیاسے تو ویسے ہی مر جانا...!
جزاک اللہ خیر۔


Monday, 21 May 2018

ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻓﻀﻞ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ اور ﻓﺎﭨﺎ

ﻓﺎﭨﺎ ﮐﻮ ﮐﮯ ﭘﯽ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺿﻢ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﮐﯽ ﺳﺎﺯﺵ ﮨﮯ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻓﻀﻞ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ..
ﯾﮧ ﻭﮨﯽ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻧﮯ 2007 ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﮐﻮ ﺧﻂ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﺍﺳﮑﯽ ﺣﻤﺎﯾﺖ ﮐﺮﮮ ﻭﮦ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﻣﻔﺎﺩﺍﺕ ﮐﻮ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮐﺮ ﮮ ﮔﺎ ... wikileaks
مولانا مفتی محمود کو اللہ نے پانچ صاحبزادوں سے نوازا، سب سے پہلے تو ان کے عہدے دیکھ لیں:
مولانا فضل الرحمان، 6 مرتبہ ایم این اے، تیسری مرتبہ کشمیر کمیٹی کا چئیرمین، مراعات وفاقی وزیر کے برابر
ایک بھائی مولانا عطا الرحمان آج کل سینیٹر ہے۔
دوسرا بھائی مولانا لطف الرحمان خیبرپختون خواہ اسمبلی کا اپوزیشن لیڈر ہے، مراعات وزیراعلی کے برابر۔
تیسرا بھائی مولانا ضیا الرحمان 2007 میں وزیراعلی اکرم درانی کے زریعے غیرقانونی ڈیپوٹیشن کے زریعے افغان مہاجرین کا ایڈیشنل سیکرٹری مقرر ہوا - پچھلے سال پانامہ لیکس میں فضل الرحمان نے نوازشریف کے حق میں بیان دیا تو نوازشریف نے ضیا الرحمان کو کمشنر افغان مہاجرین کے عہدے پر ترقی دے دی - مراعات اور اوپر کی آمدنی کے لحاظ سے یہ گریڈ 20 کے 30 افسروں کی آمدن سے بھی زیادہ پرکشش عہدہ ہے۔
چوتھا بھائی مولانا عبیدالرحمان ضلع کونسل ڈیرہ اسماعیل خان میں اپوزیشن لیڈر ہے۔
لوگوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں تو وہ خوش نصیب کہلاتے ہیں، مفتی محمود کے یہ پانچوں فرزند پورے کے پورے گھی میں ہیں، ان کی خوش نصیبی کے کیا کہنے۔
اس سے پہلے میڈیا میں خبر آچکی ہے کہ فضل الرحمان کے ایک بھائی کو پی آئی اے میں ایک نیا شعبہ " اسلامی " تخلیق کرکے اہم عہدے پر فائز کردیا گیا۔ مولانا صاحب کو بطور انسٹرکٹر پی آئی اے مسجد کے امام اور مؤذن کی " ٹریننگ " کرنا تھی لیکن موصوف ظہر کی چار فرض رکعات پڑھ کر ہی مسجد سے بھاگ جاتے۔
پھر یہ چھٹیاں لے کر، پی آئی اے کی بزنس کلاس کی مفت کی ٹکٹ پر امریکہ گئے، وہاں خود ہی اپنے آپ کو پی آئی اے کی طرف سے امریکہ میں پورا رمضان تراویح پڑھانے کی ڈیوٹی تفویض کردی اور 6 ہفتے امریکہ گزارنے کے بعد واپس آئے تو لاکھوں روپے ٹی اے ڈی اے کی مد میں چارج کرلئے۔
پھر ایک دن اپنے ہی شعبہ اسلامی میں رکھا قیمتی سامان، فرنیچر، کمپیوٹر، ٹی وی وغیرہ اپنے گھر پہنچا کر کہہ دیا کہ چوری ہوگئی۔
مولانا نے پی آئی اے میں ترقی پا کر اگلے گریڈ میں جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس مقصد کیلئے ان کیلئے علیحدہ سے ایک آسان سا اسلامی امتحان رکھا گیا جس میں مولانا بمشکل 50 نمبر ہی لے پائے اور بعد میں سارا الزام ممتحن پر ڈال دیا کہ اس نے " آؤٹ آف سلیبس " پرچہ لیا۔
پتہ نہیں مفتی محمود مرحوم کو کس کی نظر لگ گئی، اللہ نے پانچ صاحبزادے دیئے، پانچوں کے پانچوں حرامخور، کرپٹ اور حکمرانوں کے دربار کے باہر بیٹھے کنجروں سے بدتر۔
ظلمت کو ضیاء، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا ۔












Sunday, 20 May 2018

قوم کی بیٹی سے متعلق کچھ حقائق ۔۔۔۔۔ !

قوم کی بیٹی سے متعلق کچھ حقائق ۔۔۔۔۔ !
عافیہ صدیقی ایک ماہر نیورالوجسٹ تھیں ۔ اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ امریکہ میں گزارا اور وہ امریکی شہریت رکھتی تھیں ۔ اس نے دو شادیاں کی ہیں جن میں پہلی شادی پسند کی تھی۔
امریکہ کا دعوی ہے کہ "انہیں القاعدہ سے تعلقات کے شبے میں پکڑا گیا ہے۔ خالد شیخ محمد نے دوران تفتیش انکا نام لیا تھا اور وہ القاعدہ کے لیے رقوم بھی منتقل کرتی تھیں۔ گرفتاری کے بعد قید کے دوران اسنے امریکی فوجیوں سے بندوق چھین کر ان پر فائرنگ کی ۔ جسکی وجہ سے انہیں سزا سنائی گئی۔ "
( یہ امریکی الزامات ہیں آپ نظر انداز کر سکتے ہیں)
آگے بڑھنے سے پہلے ایک سوال ۔۔
مشرف نے کب اور کہاں عافیہ صدیقی کو امریکہ کے ہاتھ بیچنے کا اعتراف کیا ہے؟
اس سوال کا جواب مجھے آج تک نہیں ملا۔
اب آتے ہیں اصل مضمون پر۔۔۔۔
یہ بات قطعاً جھوٹ ہے کہ عافیہ صدیقی ہی بگرام جیل کی قیدی نمبر 650 تھیں۔
معظم بیگ وہ شخص ہے جس کے بیان پر عافیہ کو قیدی نمبر 650 بنا دیا گیا۔
مگر معظم بیگ فروری 2002 میں بگرام جیل لایا گیا، اور پھر اسکے ایک سال بعد ٹھیک 2 فروری 2003 کو وہ بگرام سے گوانتاناموبے کی جیل میں منتقل کر دیا گیا۔
جبکہ عافیہ اسکے دو مہینے بعد تک کراچی میں اپنی فیملی کے ساتھ موجود تھیں اور وہ یکم اپریل 2003 کو روپوش ہوئیں۔ جبکہ معظم بیگ جس قیدی عورت کے چیخنے کی آوازیں سننے کی بات کرتا تھا، وہ تو معظم بیگ سے بھی پہلے جیل میں موجود تھی۔
تو اب کوئی عقلمند یہ بتا سکتا ہے کہ پھر صدیقی فیملی، مس ریڈلی اور قوم کے دانشوران نے سالہا سال کی عافیہ کیس پر تحقیق کے بعد بھی عافیہ کو قیدی نمبر 650 کیوں بنا کر پیش کرتے رہے؟
درحقیقت عافیہ صدیقی کی امریکنز کے ہاتھوں گرفتاری 2008ء کے بعد ہوئی جس وقت مشرف کی حکومت ختم ہو چکی تھی۔ اس دوران یہ اپنے ماموں شمس الدین، مفتی ابولبابہ شاہ منصور اور مفتی رفیع عثمانی سمیت کئی لوگوں سے رابطے میں رہیں اور اسی دوران اس نے القاعدہ کے لیے حیاتیاتی ہتھیار بھی بنانےکی کوشش کی۔
22 مئی 2009 کو امت اخبار میں عافیہ کے سابق شوہر ڈاکٹر امجد کا طویل انٹرویو شائع ہوا ہے جس سے معلوم ہوا کہ عافیہ نے اپنی روپوشی کا ڈرامہ خود رچایا تھا۔ اس انٹرویو کے چیدہ چیدہ اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
1۔ عافیہ جنونی کیس ہے۔
2۔ عافیہ اگر جہادی تنظیموں کی ممبر نہیں تھیں، مگر پھر بھی عافیہ کے جہادی تنظیموں سے رابطے تھے، اور خالد شیخ گروپ سے بھی رابطے تھے، امریکہ میں بھی اور پاکستان میں بھی۔ نیو ہمپشائر میں گروپ کے ساتھ کیمپنگ کیا کرتیں جس کا مقصد جہاد کی تیاری تھا جس میں پانچ چھ بار وہ خود لے کر گئے۔ نیز انہوں نے نائٹ ویژن اسکوپ اور دو بلٹ پروف شکاری جیکٹس، سی فور دھماکہ خیز مواد بنانے کے مینوئل وغیرپ خریدے جس کی وجہ فطری دلچسپی اور شکار بتائی اور ان کی خرید و فروخت ممنوع نہیں تھی ملک سے باہر لے جانا ممنوع تھا۔
3۔ جب پہلی مرتبہ امریکی اداروں نے ان کا انٹرویو لیا تو عافیہ نے جان بوجھ کر ان ادارے والوں سے جھوٹ بولنا شروع کر دیا، حالانکہ تمام چیزں بینک سٹیٹمنٹ وغیرہ کے ذریعے ثابت تھیں اور ناقابل انکار تھیں (یعنی بلٹ پروف جیکٹیں اور نائٹ ویژن اسکوپ وغیرہ۔ جب ڈاکٹر امجد نے اس کی وجہ پوچھی تو عافیہ کہنے لگیں کہ کافروں کو انکے سوالات کے صحیح جوابات دینا جرم ہے اور ان سے جھوٹ بولنا جہاد۔ [پتا نہیں پھر وہ کافروں کے ملک امریکہ گئی ہی کیوں تھیں]
4۔عافیہ کے اس جھوٹ کے بعد ڈاکٹر امجد اور عافیہ امریکہ میں مشتبہ ہو گئے اور انہیں امریکا چھوڑ کر پاکستان شفٹ ہونا پڑا۔
5۔ پاکستان شفٹ ہونے کے بعد عافیہ نے ڈاکٹر امجد کو افغانستان میں جہاد پر جانے کے لیے لڑائی کی اور نہ جانے کی صورت میں طلاق کا مطالبہ کیا۔
6۔ دیوبند مکتبہ فکر کے مشہور عالم مفتی رفیع عثمانی نے عافیہ کو سمجھانے کی کوشش کی مگر بات نہ بنی۔
7۔ بہرحال طلاق ہوئی۔ مگر ڈاکٹر امجد بچوں سے طلاق کے بعد سے لیکر اب تک نہیں مل سکے ہیں۔ وجہ اسکی عافیہ اور اسکی فیملی کا انکار ہے۔ یہ ایک باپ پر بہت بڑا ظلم ہے جو بنت حوا اور اسکے حواریوں کی جانب سے کیا گیا اور ابھی تک کیا جا رہا ہے۔
8۔ 2003 میں عافیہ نے خالد شیخ کے بھانجے عمار بلوچی سے دوسری شادی کر لی تھی، مگر اسکو خفیہ رکھا گیا، ورنہ قانونی طور پر بچے ڈاکٹر امجد کو مل جاتے۔
9۔ 2003 میں ہی خالد شیخ کو پکڑا گیا، اور وہاں سے چھاپے کے دوران ملنے والے کاغذات سے پتا چلا کہ عافیہ کا اس گروپ سے تعلق ہے اور یہ کہ وہ خالد شیخ کے بھانجے سے دوسری شادی کر چکی ہیں اور نکاح نامہ پر انکے دستخط ہیں۔ عمار بلوچی کے خاندان والوں نے بھی اسکی تصدیق کی، مگر صدیقی خاندان مستقل طور پر جھوٹ بولتا رہا کہ عافیہ نے دوسری شادی نہیں کی۔ بعد مین عافیہ نے عدالتی کاروائی کے دوران خود اس دوسری شادی کی تصدیق کی۔
10۔عافیہ خفیہ طور پر 5 دن کے لیے امریکہ گئیں اور وہاں پر خالد شیخ کے ساتھی ماجد خان کے لیے اپنے شوہر ڈاکٹر امجد کے کاغذات استعمال کرتے ہوئے ایک عدد پوسٹ بکس کو کرائے پر لے لیا۔ ڈاکٹر امجد کی تحریر کے مطابق انہیں اس پوسٹ باکس کا علم تھا نہ عافیہ کے اس 5 دن کے خفیہ دورے کا۔
11۔ سن 2003 میں خالد شیخ کے پکڑے جانے کے بعد عافیہ بہت خطرے میں آ گئی اور خالد شیخ کے گروہ اور عافیہ نے بہتر سمجھا کہ وہ روپوش ہو جائیں کیونکہ انکا تعلق خالد شیخ سے ثابت تھا اور پھر خالد شیخ کے بھانجے عمار بلوچ سے شادی کرنے کے بعد اور امریکہ میں غیر قانونی طور پر ماجد خان کے لیے پوسٹ بکس باکس لینے کے بعد یہ یقینی تھا کہ ایف بی آئی انکا پیچھا کرتی۔
12۔ چنانچہ ڈاکٹر عافیہ نے باقاعدہ طور پر اپنی روپوشی کا ڈرامہ کھیلا۔
روپوش تو عافیہ 31 مارچ سے کچھ دن پہلے ہی ہو چکی تھی، مگر پھر عافیہ نے اپنی فیملی کو فون کر کے بتایا کہ وہ باقاعدہ ساز و سامان باندھ کر کراچی سے اسلام آباد اپنے ماموں سمش الدین واجد صاحب کے پاس جا رہی ہیں۔
مگر پھر راستے میں روپوش ہو گئیں۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ انہیں اس روپوشی کا جواز بھی دینا تھا کیونکہ ڈاکٹر امجد بچوں سے ملنے کی خاطر عافیہ کے خلاف قانونی کاروائی کر رہے تھے۔ اس لیے اس روپوشی کا جواز یہ بنایا گیا کہ عافیہ کو ایجنسی کے لوگ ہی بچوں سمیت اغوا کر کے لے گئے ہیں۔
یوں عافیہ نہ صرف ڈاکٹر امجد سے بچ گئیں، بلکہ ان کے خاندان والے بھی ان سوالات سے بچ گئے کیونکہ اس دوران عافیہ کا نام گیارہ ستمبر کے حملوں کے حوالے سے سب سے زیادہ مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہو چکا تھا۔
13۔ مگر ڈاکٹر امجد نے عافیہ کے غائب ہو جانے پر یقین نہیں کیا، اور خاندان کی درزن اور دو اور لوگوں نے اسکے بھی عافیہ کو کراچی میں دیکھا، اور داکٹر امجد لکھتے ہیں کہ انہوں نے ان لوگوں کو بطور گواہ عدالت میں بھی پیش کیا۔
14۔ لیڈی صحافی ریڈلی نے دعوی کیا عافیہ بگرام جیل میں قیدی نمبر 650 ہے۔ مگر مس ریڈلی نے یہاں چیٹنگ کی اور یہ بالکل صاف اور سیدھی سی بات تھی کی عافیہ قیدی نمبر 650 نہیں ہو سکتی کیونکہ معظم بیگ 2 فروری 2003 کو بگرام سے گوانتانا موبے منتقل ہو چکا تھا جبکہ عافیہ اسکے دو مہینے بعد 31 مارچ 2003 کو روپوش ہوئی۔
15 سب سے بڑا ثبوت: عافیہ کا 2008 میں اپنے ماموں شمس الدین واجد کے گھر نمودار ہونا ھے-
ڈاکٹر امجد لکھتے ہیں دو بڑے انگریزی اخبارات میں انہیں ایک دن شمس الدین واجد [عافیہ کے ماموں] کا بیان پڑھنے کو ملا جس سے انہیں شاک لگا۔ شمس الدین واجد کہتے ہیں کہ سن 2008 میں عافیہ ان کے گھر ایک دن اچانک نمودار ہوئی۔ اور تین دن تک رہی۔
ڈاکٹر امجد نے پھر بذات خود شمس الدین واجد صاحب سے رابطہ کیا اور ان سے تفصیلات طلب کیں۔ شمس الدین واجد صاحب نے جواب میں انہیں باقاعدہ ای میل تحریر کی ہے جو کہ بطور ثبوت ڈاکٹر امجد کے پاس موجود ہے۔ شمس الدین واجد صاحب کے مطابق انہوں نے عافیہ کی ماں کو بھی وہاں پر بلایا اور انکی بھی عافیہ سے ملاقات ہوئی۔
مزید یہ کہ عافیہ نے کھل کر نہیں بتایا کہ وہ کن لوگوں کے ساتھ ہے، مگر اس دوران میں شمس الدین واجد صاحب کو عافیہ کی ناک پر سرجری محسوس ہوئی جو زخم کی وجہ سے تھی یا پھر شکل تبدیل کرنے کی غرض سے، بہرحال عافیہ پورے عرصے نقاب کا سہارا لیتی رہی اور کھل کر سامنے نہیں آئی۔
پھر عافیہ نے اپنے ماموں سے ضد شروع کر دی کہ وہ انہیں طالبان کے پاس افغانستان بھیج دیں کیونکہ طالبان کے پاس وہ محفوظ ہوں گی۔ مگر ماموں نے کہا کہ انکے 1999 کے بعد طالبان سے کوئی رابطے نہیں ہیں اور وہ اس سلسلے میں عافیہ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ اس پر عافیہ تیسرے دن وہاں سے غائب ہو گئی۔
گمان غالب ہے کہ ان کو امریکنز نے افغانستان میں ہی گرفتار کیا تھا جہاں وہ جانے کے لے بےتاب تھیں۔
------------------------------------------------------------------
------------------------------------------------------------------
حقیقت یہ ھے کہ عافیہ نے یہ کھیل امریکی گرفت اور سابقہ خاوند کو بچوں سے دور رکھنے کیلئے کھیلا اور وہ اس پورے عرصے کے دوران خالد شیخ کے گروہ یا کسی اور جہادی گروہ کی مدد سے روپوش رہی، اور اسی گروہ کے لوگ عافیہ کے گھر والوں کو اس عرصے میں فون کر کے عافیہ کی خیریت کی خبر دیتے رہے۔
نیز واجد شمس الدین کی گواہی کے مطابق جس عافیہ سے سن 2008 میں ملے تھے، وہ اپنے پورے ہوش و حواس تھی۔ جبکہ بگرام کی قیدی 650 اپنے ہوش و حواس کھو چکی تھی۔ اس حقیقت کے بعد قیدی نمبر 650 کی حقیقت بالکل واضح ہو چکی تھی مگر افسوس کہ یہ فوج دشمنی ھے کہ جس کی وجہ سے یہ لوگ ابھی تک قیدی نمبر 650 کا پروپیگنڈہ کرتے ہوئے اپنے ہی ادارے پر تہمتیں لگائے جا رہے ہیں۔
"عافیہ کے بچے تمام عرصے عافیہ کے پاس تھے":-
عافیہ کے ساتھ اسکا بیٹا احمد موجود تھا جس کے متعلق پکڑے جانے پر عافیہ نے جھوٹ بولا تھا کہ احمد اسکا بیٹا نہیں بلکہ احمد مر چکا ہے اور تمام عرصے وہ احمد کو علی حسن بتلاتی رہی۔ مگر ڈی این اے ٹیسٹ سے تصدیق ہو گئی کہ وہ احمد ہی ہے۔ نیز احمد اپنی ماں کو عافیہ کے نام سے نہیں جانتا تھا، بلکہ صالحہ کے نام سے جانتا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ عافیہ اس پورے عرصے کے دوران اپنی آئڈنٹیٹی تبدیل کر کے صالحہ کے نام سے روپوشی کی زندگی گذارتی رہی-!
تو اب سچ کو بے نقاب ہو جانا چاہیے۔ اگر مشرف پر قوم کی بیٹی بیچنے کا الزام ہے تو اس کو سزا ہو جائے، لیکن اگر یہ فقط تہمت ہے تو اس میڈیا پر ایک آدم کے بیٹے پر یہ مسلسل اور نہ ختم ہونے والی تہمت کے دہرانے پر جتنی بھی لعنت کی جائے وہ کم ہو گی۔
کیا یہ کہنا درست نہیں کہ عافیہ کیس میری قوم کی جذبات میں آ کر اندھا ہو جانے کی بدترین مثال ہے کہ جہاں قوم کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور اُسے جذبات میں کچھ نظر نہیں آ رہا ہوتا۔
نوٹ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ تحقیق و تحریر میرے دوست اویس صابر کی جو زیادہ تر مختلف اخبارات میں چھپنے والے مواد پر مشتمل ہے ۔۔۔۔ !

Thursday, 17 May 2018

تاریخ اپنے آپ کو دُہراتی ہے

تاریخ اپنے آپ کو دُہراتی ہے
---------------------------------
یہ جُملہ شاید آپ نے سُنا ہوگا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ جی ۔ بالکل اس کا عملی مظاہرہ بھی آپ دیکھ سکتے ہیں اگر دیکھنا چاہیں تو ۔ کچھ جعلی پشتون قوم پرست عرصہ دراز سے یہ دعویٰ کرتے چلے آرہے ہیں کہ ہم نے انگریز کو یہاں (پاکستان) سے بھگایا اور لوگوں نے ان کے کُتے نہلائے ۔ (حالانکہ ان کا اس سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں )
یہ تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے انگریز کو اپنے اپنے علاقے میں حفاظت کے نام پربُلایا اور اسے آکرباقاعدہ قبضہ کرنے کی دعوت دی تھی اور انگریز کی اتنی خدمت کی کہ القابات پائے اور اس کے بدلے انگریز سے وظیفے کھائے۔
جن کے باپ دادا نے یہ کام کیا تھا آج اُن کے پوتے پوتیاں آج بھی یہی کام کررہے ہیں لیکن چونکہ زمانہ جدید ہوگیا طریقہ واردات بدل گیا تو لہٰذہ اب ان کے پوتے پوتیاں اب وہی کام جدید طریقوں سے مختلف نظریوں و تنظیموں کی آڑ لیکر کرتے ہیں اور کررہے ہیں ۔
زیر نظر ویڈیو میں جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں یہ برطانیہ کی دارلحکومت لندن میں پشتونخواملی عوامی پارٹی (محمود خان اچکزئی کی پارٹی ) کی جانب سے پاکستان کے خلاف اور پی ٹی ایم کے حق میں ہونے والے مظاہرے میں ایک انگریز کی تقریر ہے۔ جواحباب انگریزی سمجھتے ہیں ۔ وہ اسے غور سے سُنیں ۔ اور جن کو انگریزی نہیں آتی وہ کسی سے اس کا ترجمہ کراوکے سمجھ لیں ۔ کہ کیا یہ پاکستان کو توڑنے کی کھلم کُھلا سازش نہیں ہے ۔ اور کیا برطانیہ ،امریکہ سمیت پوری نیٹو کو پاکستان میں آکر باقاعدہ فوجی کاروائی کی دعوت دینا ہے یا نہیں ہے ۔۔ یہاں میں صرف اس کے چند اہم جملے ترجمہ کردیتا ہوں ۔ باقی آپ خود دیکھ لیں ۔
انگریز کہہ رہا ہے ۔ کہ ۔۔۔ پاکستان انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کررہا ہے ۔ اور اس نے (پاکستان) دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر خود دہشتگردی کی ہے ۔ لیکن اس کے (پاکستان) کےاس ظلم سے ہم تبھی جان چُھڑا سکتے ہیں جب ہم (انگریز و پشتون ) مل کر اس کے خلاف شانہ بشانہ لڑِیں ۔ اور وہ دن دور نہیں جب پشتون آزاد ہونگے (یعنی آزاد پشتونستان کے جھوٹے خواب دکھا رہا ہے گورا) ۔ اس میں سب سے پہلے جو ہماری برطانوی حکومت کرسکتی ہے اور کرنا چاہیئے وہ یہ ہے کہ پاکستان کو کامن ویلتھ سے نکالا جائے ۔ دوسرا یہ کرسکتی ہے کہ پاکستان کے اُن فوجی و سیاسی لیڈروں کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کرے ۔ اور ان پر مقدمہ چلائے ۔ جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں ۔ اس کے علاوہ برطانوی حکومت کو پاکستان پر ہرقسم کی امداد بند کرنی چاہیئے ۔ پاکستان پر ہرقسم کی اسلحے کی فروخت پر پابندی لگانی چاہیئے ۔ آج اس مظاہرے سے ہم اپنی برطانوی وزیراعظم تھرزامے کو یہ بتانا چاہتے ہیں ۔ کہ پشتون آزادی چاہتے ہیں۔ پشتوں حق ارادیت چاہتے ہیں ۔ اور ہم( انگریز) پشتون قوم کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ تب تک کھڑے ہیں جب تک یہ لوگ یہ جنگ جیت نہیں جاتے ہیں ۔۔ (پاکستان سے آزادی کی جنگ)
اب ذرا نہیں بہت زیادہ سوچئِے ۔ یہ وہی لوگ ہیں۔ جنہوں نے لبییا، عراق و شام کے لوگوں کو بھی یہی لالچ دیا تھا اور آج اُن کی کیا حالت ہے خود ہی دیکھ لیں ۔۔
یاد رہے یہ مظاہرہ پشتونخواملی عوامی پارٹی لندن (محمود خان اچکزئی کی پارٹی ) کی جانب سے ارگنائز کیا گیا تھا ۔۔ جبکہ نوازشریف کا بھی یہی موقف ہے اور یہ دونوں پارٹیاں عالمی سطح پر پاکستان کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں ۔۔




Wednesday, 9 May 2018

The Modern Science of Mental Health

To day 9 May 1950, Lafayette Ronald Hubbard (1911-1986) publishes Dianetics: The Modern Science of Mental Health. With this book, Hubbard introduced a branch of self-help psychology called Dianetics, which quickly caught fire and, over time, morphed into a belief system boasting millions of subscribers: Scientology.
Hubbard was already a prolific and frequently published writer by the time he penned the book that would change his life. Under several pseudonyms in the 1930s, he published a great amount of pulp fiction, particularly in the science fiction and fantasy genres. In late 1949, having returned from serving in the Navy in World War II, Hubbard began publishing articles in the pages of Astounding Science Fiction, a magazine that published works by the likes of Isaac Asimov and Jack Williamson. Out of these grew the elephantine text known as Dianetics: The Modern Science of Mental Health.
In Dianetics, Hubbard explained that phenomena known as “engrams” (i.e. memories) were the cause of all psychological pain, which in turn harmed mental and physical health. He went on to claim that people could become “clear,” achieving an exquisite state of clarity and mental liberation, by exorcising their engrams to an “auditor,” or a listener acting as therapist.
Though discredited by the medical and scientific establishment, over 100,000 copies of Dianetics were sold in the first two years of publication, and Hubbard soon found himself lecturing across the country. He went on to write six more books in 1951, developing a significant fan base, and establishing the Hubbard Dianetics Research Foundation in Elizabeth, New Jersey.
Despite his fast-growing popularity from books and touring, strife within his organization and Hubbard’s own personal troubles nearly crippled his success. Several of his research foundations had to be abandoned due to financial troubles and he went through a divorce from his second wife.
By 1953, however, Hubbard was able to rebound from the widespread condemnation beginning to be heaped upon him, and introduced Scientology. Scientology expanded on Dianetics by bringing Hubbard’s popular version of psychotherapy into the realm of philosophy, and ultimately, religion. In only a few years, Hubbard found himself at the helm of a movement that captured the popular imagination. As Scientology grew in the 1960s, several national governments became suspicious of Hubbard, accusing him of quackery and brainwashing his followers. Nonetheless, Hubbard built his religion into a multi-million dollar movement that continues to have a considerable presence in the public eye, due in part to its high profile in Hollywood.

Monday, 7 May 2018

غیرت کا جنازہ

چلیں ہم امریکا سے شروع کرتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے موجودہ صدر ہیں۔ انھوں نے صدر منتخب ہونے سے پہلے ایک امریکی ٹی- وی کو انٹرویو دیا اور اپنی بیٹی کے حسن پر تبصرہ کرتے ہوئے بولے " اگر یہ میری بیٹی نہ ہوتی تو میں ضرور اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتا " اور ساری محفل گویا زعفران بن گئی۔
امریکا اس وقت " ریپ زدہ " ممالک میں سر فہرست ہے۔ نیشنل وائلنس کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں ہر چھ میں سے ایک عورت اور ہر تینتیس میں سے ایک مرد جنسی زیادتی کا شکار ہے اور یہ درج ہونے والے مقدموں کا سولہ فیصد ہے۔ جنوبی افریقا کو دنیا میں " ریپ کا دار الحکومت " کہا جاتا ہے۔ صرف 2012 میں 65،000 سے زیادہ جنسی تشدد کی واقعات پیش آئے۔ میڈیکل ریسرچ کونسل کی تحقیقات کے مطابق دنیا میں بچوں کے ساتھ زیادتی کا سب سے زیادہ اوسط جنوبی افریقا میں ہی ہے ۔ آپ جنت نظیر اور دنیا کی ہر عیاشی سے مالا مال سوئیڈن کو لے لیں جہاں ہر چوتھی خاتون یا لڑکی " ریپ شدہ " ہے۔ صرف 2009 میں 15،700 خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور یہ تعداد 2008 کے مقابلے میں آٹھ فیصد زیادہ ہے۔ پچھلے دس سالوں میں سوئیڈن میں جنسی تشدد کے واقعات میں 58 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
آپ نام نہاد اور سیکولر ریاست کا راگ الاپنے والے بھارت کی بات کرلیں جہاں ہر بائیس منٹ پر ایک عورت جنسی تشدد کا نشانہ بنائی جاتی ہے اور کبھی اپنے بھائی، باپ یا رشتے داروں کے ہاتھوں ہی یہ کارنامہ سر انجام پاتا ہے۔ نیشنل کرائم رپورٹ بیورو کی رپورٹ کے مطابق صرف 2012 میں 24،923 خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی جن میں سے 24،470 کو ان کے اپنے ہی رشتے داروں یا پڑوسیوں نے نشانہ بنایا۔ یاد رہے بھارت دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں مردوں کو تعداد خواتین سے زیادہ ہے کیونکہ روزانہ سینکڑوں بچیاں دوران حمل یا پیدائش کے فوراً بعد مار دی جاتی ہیں۔ برطانیہ اور جرمنی جنسی زیادتیوں کے حوالے سے سخت پریشان ہیں کیونکہ برطانیہ کی ہی وزارت انصاف کے مطابق 2013 میں 85000 خواتین کی عصمتیں زبردستی پامال کی گئیں۔ برطانیہ میں ہر پانچویں عورت اپنی عزت سے ہاتھ دھو چکی ہے اس معاشرے میں خواتین کی کتنی " عزت " ہے؟ اس کے لیے آپ یو آن ریڈلے کی کتاب " ان دی ہینڈز آف طالبان " پڑھ لیں۔ فرانس میں صرف 10 فیصد شکایتوں کے مطابق ایک سال میں 75000 خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ ہم بھی ان ہی تمام اقوام کی ذہنی اور عملی غلامی کا شکار ہیں اس لیے پچھلے سال سات سو سے زیادہ واقعات پاکستان میں بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جانوروں سے زیادہ جنسی خواہشات کی آزادی دیے جانے کے باوجود یہ سب کیوں؟ آپ " نچ پنجابن نچ "، منی کی بدنامی، شیلا کی جوانی، کریکٹر ڈھیلا اور " اچھی باتیں کرلیں بہت اب کروں گا گندی بات تیرے ساتھ " کرتے رہیں، " ساری نائیٹ بے شرمی اپنی ہائیٹ کو چھوتی رہے "۔ صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر رات تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر ٹیوی چینل پر سوائے بے ہودگی اور بد معاشی کے اور کونسا ڈھنگ کا کام وقوع پذیر ہو رہا ہے؟ پہلے آپ معصوم بچیوں کو قندیل بلوچ بنائیں پھر اس کا قتل کروائیں، اس پر ماتم کریں اور پھر ڈرامے بنا کر اس کو " مادر ملّت " بنا دیں۔ تمام کے تمام ٹیوی چینلز سوائے عاشقی معشوقی، اس کی لڑکی اس کے ساتھ اور اس کی بیوی فلاں کے ساتھ بھاگنے کے ڈرامے دکھائیں۔ لباس کو تنگ سے تنگ اور چھوٹے سے چھوٹا کر کے ملک کے نوجوانوں کو ہوس زدہ اور حواس باختہ کردیں۔ اس کے بعد 4 روپے 99 پیسے میں "لگے رہو ساری رات" کے اشتہارات چلائیں۔ ایسے شاندار اور اخلاق یافتہ اشتہارات جس میں فون پر بات کر کر کے لڑکے کے کان تک پر نشان پڑ جائے اور پھر شادی کو مشکل ترین کر کے " گرل فرینڈ" کو آسان بنادیں۔
میرے ایک دوست ترکی گئے اور آکر بتانے لگے ترکی میں سم پاکستانی چار ہزار روپے کی ہے۔ بے حیا بنانے اور اخلاق باختہ کرنے کے لیے آپ کو میرے ملک کے ہی نوجوان ملے تھے؟ آپ ساحر لودھی، شائستہ واحدی اور وینا ملک سے " رمضان ٹرانسمیشن " کروائیں۔ فہد مصطفیٰ سے شرم اور حیا کا جنازہ نکلوائیں۔ خواتین اور بچیوں سے ہر بے شرمی کا کام کروانے والے وقار زکا کو سر پر بٹھائیں، لفظ مولوی کو گالی بنا کر دین، اسلام، مذہب اور قرآن کو اپنے میڈیا، شوبز حتیٰ کے تعلیمی اداروں تک سے نکال کر باہر پھینک دیں اور پھر انتظار کریں کوئی حسن بصری اور امام بخاری پیدا ہوجائے؟ ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، ہم پاگلوں کے دیس کے باسی ہیں؟
ریپ اور بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کو آڑ بنا کر اسلامی ملک میں لبرل ازم کی بنہاد رکھیں اور سیکس ایجوکیشن کا نفاز کروانے کے لیے کوششیں کریں اور سمجھیں کے اسطرح ایسے واقعات کی روک تھام ہو جاۓ گی صریحاً خود کشی ہے اور یہی ایجنڈا ان ممالک کا ہے جن کی آنکھ کو پاکستان کا وجود چبھتا ہے
یاد رکھیں جب تک آپ زنا کی سزا " رجم " اور 100 کوڑے نہیں رکھتے ہیں، شادی کو آسان اور زنا کو مشکل نہیں کرتے ہیں، حلال کو آرام دہ اور حرام کو دشوار نہیں کریں گے یہ واقعات مسلسل ہوتے رہیں گے۔ قرآن کے نظام میں برکت ہے، شریعت میں عزت ہے، آپ ہر چوک اور چوراہے پر بھی کیمرہ لگادیں تب بھی یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ سوائے اسلامی نظام کے نفاذ کے اور کوئی دوسرا راستہ ہمارے پاس نہیں ہے۔
لیبل ایجنڈہ جاری کر کے اس قوم کے اندر سے رہی سہی غیرت اور شرم کا جنازہ نکالا جانا مقصود ہے.
اب یہ طے کرنا قوم کا کام ہے کہ قرآن کی برکتیں درکار ہیں یا پھر کوئی اور زینب
اور ہاں زینب ہمیں تنگ مت کرو !
ہم مردہ قوم ہیں، بے ضمیر اور بے حمیّت معاشرے کے لوگ ہیں اور ہاں! ابھی میرے ملک کے نوجوانوں کو نجانے کتنی لڑکیوں کی فوٹوز کو فیوی کول سے سینے سے چپکانا بھی ہوگا۔ اس لیے خدارا تم ہمیں معاف کردو!

5000 سال تو کیا پچھلے 300 تک افغانستان نام کے کسی ملک کا کوئ وجود نہیں تھا

افغانستان پر بیرونی قبضوں کی تاریخ:
ھم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پاکستان کے حوالے سے جو بھی پوسٹ یا خبر ہوتی ھے افغانی وہاں آکر پاکستان کو گالیاں دینے لگتے ہیں۔ انڈیا کی تعریفیں کرنے لگتے ہیں۔ پنجابیوں کو سکھوں کی اولاد کہنے لگتے ہیں اور پاکستانی پختونوں کو پنجابیوں کا غلام کہنے لگ جاتے ہیں۔ سی دوران وہ اپنی 5000 سالہ تاریخ بھی بتانے لگتے ہیں۔ اکثر پاکستانی بھائ علم نہ ہونے کی وجہ سے ان کا جواب نہیں دے پاتے۔ حالانکہ یہ بہت ہی آسان ھے۔ آج میں آپ کو افغانستان کی تاریخ بتاتا ہوں۔ افغانیوں کا دعوی کہ افغانستان پر کبھی کسی نے قبضہ نہیی کیا بہت بڑا جھوٹ ھے۔ اور یہ جھوٹ صرف اور صرف افغانستان میں افغانیوں کے درمیان ہی بولا جاتا ھے۔ باقی دینا میں کوئ یہ بات نہیں مانتا۔
در حقیقت افغانستان سب سے زیادہ بیرونی قوتوں کے زیر قبضہ رہا۔ اور افغانستان پر قبضوں کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ھے۔ یہں وجہ ھے کہ افغانستان پر جو بھی اقوام قابض رہی ان کی نسل آج بھی موجودہ افغانستان میں موجود ھے۔ منگول حکمران چنگیز خان نے 1220 میں موجودہ افغانستان کے علاقے فتح کیے۔ چنگیز خان کی نسل ہزارہ برادری آج بھی افغانستان میں بڑی تعداد میں موجود ھے جو افغانستان میں چنگیز خان کے قبضے کے دوران پیدا ہوئ یا آباد ہوئ۔ اور آج بھی اپنے نام کے ساتھ چنگیزی لکھتے ہیں۔
محمود غزنوی سلطان سبکتگین کا بیٹا تھا۔ سلطان سبکتگین ترک تھا۔ سبکتگین ترک زبان کا لفظ ھے جس کی معنی "ہر دلعزیز شہزادہ" کے ہیں۔ محمود غزنوی ترک حکمران اور باپ سبکتگین کے افغانستان پر حکومت کے دوران افغانستان کے علاقے غزنی میں پیدا ہوا۔ اور اسی مناسبت سے محمود غزنوی کے نام سے مشہور ہوا۔
330 قبل از مسیح میں سکندر اعظم جو کہ یونانی تھا نے موجودہ افغانستان کے علاقوں کو اہنے زیر تسلط لیا۔ افغان سردار کی بیٹی رخسانہ سے شادی کی۔ افغانستان میں ایک شہر قائم کیا جس کا نام ای خانم ھے اور آج بھی موجود ھے۔ موجودہ افغانستان کے علاقے فتح کرنے کے بعد اپنے اگلے مہم پر ہندوستان روانہ ہو گیا۔ سکندر اعظم کو افغانستان میں کسی قابل ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
موجودہ افغانستان کے علاقے صدیوں تک اشوک، کوشان اور بدھ سلطنتوں کا حصہ رھے جس کا واضح ثبوت افغان صوبے بامیان میں بدھا کے دو مجسمے جن میں ایک 140 فٹ اونچا اور دوسرا 115 فٹ اونچا تھا 2001 میں طالبان نے ٹینکوں سے تباہ کر دیا تھا۔ موجودہ حکومت نے اقوام متحدہ کے ذریعے ان مجسموں کو دوبارہ تعمیر کر دیا۔ اس کے علاوہ بھی افغانستان کے مختلف علاقوں میں بدھ مت کے آثار موجود ہیں۔ افغانستان کے موجودہ شہر قندھار کا نام بھی بدھ مت کی سلطنت گندھارا کا جدید نام ھے۔ موجودہ قندھار گندھارا تہذیب کا مرکز رہا۔
539 قبل مسیح سے لیکر 331 قبل مسیح موجودہ افغانستان کے علاقے سلطنت فارس کا حصہ تھے۔ فارسی آثار آج بھی افغان علاقوں میں غالب ہیں۔ یہی وجہ ھے کہ کہ فارسی آج بھی افغانستان کی پشتو کے ساتھ مشترکہ قومی زبان ھے۔
1530 سے 1605 تک موجودہ افغانستان کے حصے مغل سلطنت کا حصہ تھے۔
اس لئے 5000 سال تو کیا پچھلے 300 تک افغانستان نام کے کسی ملک کا کوئ وجود نہیں تھا۔ البتہ پختونوں کی تاریخ پرانی ہو سکتی ھے۔ مگر پختون بھی صرف افغانستان میں نہیں تھی بلکہ پختونوں کی اکثریت آج کے پاکستان کے پختون علاقوں میں آباد تھی اور آج تک آباد ھے۔
1979 سے 1989 تک روس افغانستان پر قابض رہا۔ جس کی تفصیل الگ سے لکھوں گا۔
2001 سے تا حال امریکہ سمیت 14 نیٹو ممالک افغانستان پر قابض ہیں۔

ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺒﺮﺕ ﺁﻣﻮﺯ ﻭﺍﻗﻌﮧ

ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﮔﻨﺘﯽ ﮬﮯ ' ﺩﺳﺘﺮ ﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﭘﮍﮮ ﺍﻧﮉﮮ ،ﺟﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﻣﮑﮭﻦ ﻧﮩﯿﮟ "!!
ﯾﮧ 1973 ﺀ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ۔ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺟﻨﮓ ﭼﮭﮍﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺳﻨﯿﭩﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﮨﻢ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺁﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﮐﻤﯿﭩﯽ ﮐﺎ ﺳﺮﺑﺮﺍﮦ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺳﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯽ ﻭﺯﯾﺮﺍﻋﻈﻢ ” ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ “ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻟﮯ ﺟﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮔﮭﺮﯾﻠﻮ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﺳﻨﯿﭩﺮ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻘﺒﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮔﺌﯽ۔ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺳﻨﯿﭩﺮ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﮈﺍﺋﻨﻨﮓ ﭨﯿﺒﻞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﺮﺳﯽ ﭘﺮ ﺑﭩﮭﺎ ﮐﺮ ﭼﻮﻟﮩﮯ ﭘﺮ ﭼﺎﺋﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯿﮟ ﺁ ﺑﯿﭩﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻃﯿﺎﺭﻭﮞ، ﻣﯿﺰﺍﺋﻠﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﭘﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﻮﺩﺍ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮭﺎﺅ ﺗﺎﺅ ﺟﺎﺭﯼ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﭼﺎﺋﮯ ﭘﮑﻨﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺁﺋﯽ۔ ﻭﮦ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺋﮯ ﺩﻭ ﭘﯿﺎﻟﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮉﯾﻠﯽ۔ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﺎﻟﯽ ﺳﻨﯿﭩﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﮔﯿﭧ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﮔﺎﺭﮈ ﮐﻮ ﺗﮭﻤﺎ ﺩﯼ۔ ﭘﮭﺮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﺁ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺳﻨﯿﭩﺮ ﺳﮯ ﻣﺤﻮ ﮐﻼﻡ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﻔﺖ ﻭ ﺷﻨﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺅ ﺗﺎﺅ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺷﺮﺍﺋﻂ ﻃﮯ ﭘﺎ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﺍﭨﮭﯽ، ﭘﯿﺎﻟﯿﺎﮞ ﺳﻤﯿﭩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﮬﻮ ﮐﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺳﻨﯿﭩﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭘﻠﭩﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﯽ ” ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﺩﺍ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﮯ۔ ﺁﭖ ﺗﺤﺮﯾﺮﯼ ﻣﻌﺎﮨﺪﮮ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﯿﮑﺮﭨﺮﯼ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﯿﮑﺮﭨﺮﯼ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﺠﻮﺍ ﺩﯾﺠﺌﮯ۔ ﯾﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﻗﺘﺼﺎﺩﯼ ﺑﺤﺮﺍﻥ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﺗﮭﺎ، ﻣﮕﺮ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﻧﮯ ﮐﺘﻨﯽ ” ﺳﺎﺩﮔﯽ “ ﺳﮯ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻠﺤﮯ ﮐﯽ ﺧﺮﯾﺪﺍﺭﯼ ﮐﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮍﺍ ﺳﻮﺩﺍ ﮐﺮ ﮈﺍﻻ۔ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺧﻮﺩ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﮐﺎﺑﯿﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﺳﻮﺩﮮ ﮐﻮ ﺭﺩ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻒ ﺗﮭﺎ، ﺍﺱ ﺧﺮﯾﺪﺍﺭﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺗﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﮐﺘﻔﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ۔ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﻧﮯ ﺍﺭﮐﺎﻥ ﮐﺎﺑﯿﻨﮧ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻒ ﺳﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ : ” ﺁﭖ ﮐﺎ ﺧﺪﺷﮧ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﯾﮧ ﺟﻨﮓ ﺟﯿﺖ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮯ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﺴﭙﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮨﻤﯿﮟ ﻓﺎﺗﺢ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺴﯽ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﻓﺎﺗﺢ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ، ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻓﺎﺗﺢ ﻗﻮﻡ ﻧﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺍﻧﮉﮮ ﮐﮭﺎﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﮐﺘﻨﯽ ﺑﺎﺭ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺳﮑﮯ ﺩﺳﺘﺮ ﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﺷﮩﺪ، ﻣﮑﮭﻦ، ﺟﯿﻢ ﺗﮭﺎ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺟﻮﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﻨﮯ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﺗﮭﮯ ﯾﺎ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﻠﻮﺍﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﻧﯿﺎﻡ ﭘﮭﭩﮯ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻓﺎﺗﺢ ﺻﺮﻑ ﻓﺎﺗﺢ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ “ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﻭﺯﻥ ﺗﮭﺎ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﮐﺎﺑﯿﻨﮧ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺳﻮﺩﮮ ﮐﯽ ﻣﻨﻈﻮﺭﯼ ﺩﯾﻨﺎ ﭘﮍﯼ۔ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻭﻗﺖ ﻧﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﻗﺪﺍﻡ ﺩﺭﺳﺖ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺩﻧﯿﺎ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﺍﺳﯽ ﺍﺳﻠﺤﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﺯﻭﮞ ﺳﮯ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﻭﮞ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﮏ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺮﺻﮧ ﺑﻌﺪ ﻭﺍﺷﻨﮕﭩﻦ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﮯ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮮ ﻧﮯ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ : ” ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺩﻟﯿﻞ ﺗﮭﯽ، ﻭﮦ ﻓﻮﺭﺍً ﺁﭖ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ، ﯾﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺣﮑﻤﺖ ﻋﻤﻠﯽ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯽ؟ “ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﻭﮦ ﭼﻮﻧﮑﺎ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ”: ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺍﺳﺘﺪﻻﻝ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺷﻤﻨﻮﮞ ‏( ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ‏) ﮐﮯ ﻧﺒﯽ ‏( ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ‏) ﺳﮯ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﻃﺎﻟﺒﮧ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﻣﺬﺍﮨﺐ ﮐﺎ ﻣﻮﺍﺯﻧﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮦ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻧﮩﯽ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺳﻮﺍﻧﺢ ﺣﯿﺎﺕ ﭘﮍﮬﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﻨﻒ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﻭﺻﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﺭﻗﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﭼﺮﺍﻍ ﺟﻼﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﯿﻞ ﺧﺮﯾﺪﺍ ﺟﺎ ﺳﮑﮯ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﮨﻠﯿﮧ ‏( ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺻﺪﯾﻘﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ‏) ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺯﺭﮦ ﺑﮑﺘﺮ ﺭﮨﻦ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺗﯿﻞ ﺧﺮﯾﺪﺍ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺣﺠﺮﮮ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﻧﻮ ﺗﻠﻮﺍﺭﯾﮟ ﻟﭩﮏ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﺐ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﻨﮯ ﻟﻮﮒ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺟﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﺍﻗﺘﺼﺎﺩﯼ ﺣﺎﻟﺖ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺁﺩﮬﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻓﺎﺗﺢ ﮨﯿﮟ، ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﻟﮩٰﺬﺍ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﺭﮨﻨﺎ ﭘﮍﮮ، ﭘﺨﺘﮧ ﻣﮑﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺧﯿﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺴﺮ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ، ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﺧﺮﯾﺪﯾﮟ ﮔﮯ، ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺗﺢ ﮐﺎ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ “ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺳﮯ ﺗﻮ ﭘﺮﺩﮦ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ، ﻣﮕﺮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻧﮕﺎﺭ ﺳﮯ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﯽ ﺍﺳﮯ ” ﺁﻑ ﺩﯼ ﺭﯾﮑﺎﺭﮈ “ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﺋﻊ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﻭﺟﮧ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ، ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺒﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻗﻮﻡ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ، ﻭﮨﺎﮞ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻮﻗﻒ ﮐﻮ ﺗﻘﻮﯾﺖ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻭﺍﺷﻨﮕﭩﻦ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﮯ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮮ ﻧﮯ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺣﺬﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﻭﻗﺖ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﺭﮨﺎ، ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﺮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻧﮕﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﻋﻤﻠﯽ ﺻﺤﺎﻓﺖ ﺳﮯ ﺍﻟﮓ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﻣﮧ ﻧﮕﺎﺭ، ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﮐﮯ ﺑﯿﺲ ﺑﮍﮮ ﻧﺎﻣﮧ ﻧﮕﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻟﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﺳﯽ ﻧﺎﻣﮧ ﻧﮕﺎﺭ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻟﯿﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻭﺍﺷﻨﮕﭩﻦ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﮯ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮮ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺳﮯ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ، ﺟﻮ ﺳﯿﺮﺕ ﻧﺒﻮﯼ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺮﻣﻨﺪﮔﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﮩﺎ : ” ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﯿﺎ، ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻋﺮﺏ ﺑﺪﻭﺅﮞ ﮐﯽ ﺟﻨﮕﯽ ﺣﮑﻤﺖ ﻋﻤﻠﯿﺎﮞ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻃﺎﺭﻕ ﺑﻦ ﺯﯾﺎﺩ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺟﺒﺮﺍﻟﭩﺮ ‏( ﺟﺒﻞ ﺍﻟﻄﺎﺭﻕ ‏) ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺍﺳﭙﯿﻦ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﻓﻮﺝ ﮐﮯ ﺁﺩﮬﮯ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺠﺎﮨﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﻮﺭﺍ ﻟﺒﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﮩﺘﺮّ ﺑﮩﺘﺮّ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﺎﮔﻞ ﭘﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﮐﮭﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﭨﮑﮍﻭﮞ ﭘﺮ ﮔﺰﺍﺭﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﯾﮧ ﻭﮦ ﻣﻮﻗﻊ ﺗﮭﺎ، ﺟﺐ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻧﮕﺎﺭ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ” ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﮔﻨﺘﯽ ﮨﮯ، ﺩﺳﺘﺮ ﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﭘﮍﮮ ﺍﻧﮉﮮ، ﺟﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﻣﮑﮭﻦ ﻧﮩﯿﮟ۔ “ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻧﮕﺎﺭ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﺟﺐ ﮐﺘﺎﺑﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺋﻊ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﺍﺱ ﺳﺎﺭﯼ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﺁﮔﺎﮦ ﮨﻮﺋﯽ ۔ ﯾﮧ ﺣﯿﺮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﺩﺭﯾﭽﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﮭﺎﻧﮏ ﺟﮭﺎﻧﮏ ﮐﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﺎﻥ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﺟﮭﻨﺠﮭﻮﮌ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﺑﯿﺪﺍﺭﯼ ﮐﺎ ﺩﺭﺱ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﮨﻤﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺩﮬﮍﯼ ﻋﺒﺎﺅﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﭩﮯ ﺟﻮﺗﻮﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﻠﮧ ﺑﺎﻥ، ﭼﻮﺩﮦ ﺳﻮ ﺑﺮﺱ ﻗﺒﻞ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﺎﻥ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ؟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻧﻨﮕﯽ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﭼﺎﺭ ﺑﺮﺍﻋﻈﻢ ﻓﺘﺢ ﮐﺮ ﻟﺌﮯ؟ ﺍﮔﺮ ﭘُﺮﺷﮑﻮﮦ ﻣﺤﻼﺕ، ﻋﺎﻟﯽ ﺷﺎﻥ ﺑﺎﻏﺎﺕ، ﺯﺭﻕ ﺑﺮﻕ ﻟﺒﺎﺱ، ﺭﯾﺸﻢ ﻭ ﮐﻤﺨﻮﺍﺏ ﺳﮯ ﺁﺭﺍﺳﺘﮧ ﻭ ﭘﯿﺮﺍﺳﺘﮧ ﺁﺭﺍﻡ ﮔﺎﮨﯿﮟ، ﺳﻮﻧﮯ، ﭼﺎﻧﺪﯼ، ﮨﯿﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﺗﺠﻮﺭﯾﺎﮞ، ﺧﻮﺵ ﺫﺍﺋﻘﮧ ﮐﮭﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻧﺒﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﻨﮑﮭﻨﺎﺗﮯ ﺳﮑﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﮭﻨﮑﺎﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﭽﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﻮ ﺗﺎﺗﺎﺭﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﭨﮉﯼ ﺩﻝ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﮐﻮ ﺭﻭﻧﺪﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﻌﺘﺼﻢ ﺑﺎﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻣﺤﻞ ﺗﮏ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﭽﺘﯽ۔ﺁﮦ ! ﻭﮦ ﺗﺎﺭﯾﺦِ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﮐﺘﻨﺎ ﻋﺒﺮﺕ ﻧﺎﮎ ﻣﻨﻈﺮ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﻣﻌﺘﺼﻢ ﺑﺎﻟﻠﮧ ، ﺁ ﮨﻨﯽ ﺯﻧﺠﯿﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﮍﻭﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮑﮍﺍ ، ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﻮﺗﮯ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺳﺎﺩﮦ ﺑﺮﺗﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎ ﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻃﺸﺘﺮﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﺭﮐﮫ ﺩﺋﯿﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﻣﻌﺘﺼﻢ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ۔ : ’’ ﺟﻮ ﺳﻮﻧﺎ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﺗﻢ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍُﺳﮯ ﮐﮭﺎﺅ ‘‘! ۔
ﺑﻐﺪﺍﺩ ﮐﺎ ﺗﺎﺝ ﺩﺍﺭ ﺑﮯ ﭼﺎﺭﮔﯽ ﻭ ﺑﮯ ﺑﺴﯽ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﺎ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ، ﺑﻮﻻ : ’’ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﻧﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮭﺎﺅﮞ؟ ‘‘ ﮨﻼﮐﻮ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﮐﮩﺎ ’’ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﻧﺎ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﺟﻤﻊ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ؟ ‘‘ ۔ ﻭﮦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺟﺴﮯ ﺍُﺳﮑﺎ ﺩﯾﻦ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺎﻟﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺗﺮﻏﯿﺐ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﮐﭽﮫ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﺎ۔ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﮔﮭﻤﺎ ﮐﺮ ﻣﺤﻞ ﮐﯽ ﺟﺎﻟﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ : ’’ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍِﻥ ﺟﺎﻟﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮕﮭﻼ ﮐﺮ ﺁﮨﻨﯽ ﺗﯿﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﺑﻨﺎﺋﮯ ؟ ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﭙﺎﮨﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺭﻗﻢ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﺩﯼ، ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺒﺎﺯﯼ ﺍﻭﺭ ﺩﻟﯿﺮﯼ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﮐﺮﺗﮯ؟ ‘‘ ۔ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻧﮯ ﺗﺎﺳﻒ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ۔ ’’ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﯾﮩﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﺗﮭﯽ ‘‘ ۔ ﮨﻼﮐﻮ ﻧﮯ ﮐﮍﮎ ﺩﺍﺭ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ : ’’ ﭘﮭﺮ ﺟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﻧﯿﻮﺍﻻ ﮨﮯ ، ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﮨﻮﮔﯽ۔ ‘‘ ۔ ﭘﮭﺮ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﻣﻌﺘﺼﻢ ﺑﺎﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻟﺒﺎﺩﮮ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﯿﭧ ﮐﺮ ﮔﮭﻮﮌﻭﮞ ﮐﯽ ﭨﺎﭘﻮﮞ ﺗﻠﮯ ﺭﻭﻧﺪ ﮈﺍﻻ، ﺑﻐﺪﺍﺩ ﮐﻮ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﺑﻨﺎ ﮈﺍﻻ۔ ﮨﻼﮐﻮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ’’ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﮐﻮ ﺻﻔﺤﮧ ﮨﺴﺘﯽ ﺳﮯ ﻣﭩﺎ ﮈﺍﻻ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍَﺏ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﺍﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺎ ﺳﮑﺘﯽ۔ ‘‘ ۔
ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺗﻮ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﮔﻨﺘﯽ ﮨﮯ ۔ ﻣﺤﻞ، ﻟﺒﺎﺱ، ﮨﯿﺮﮮ، ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﻟﺬﯾﺰ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺑﮭﯽ ﻋﻘﻞ ﻭ ﺷﻌﻮﺭ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﻮ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﻐﻠﯿﮧ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﺎ ﺁﻓﺘﺎﺏ ﮐﺒﮭﯽ ﻏﺮﻭﺏ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﺎ۔ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮐﺮﻭ ﺟﺐ ﯾﻮﺭﭖ ﮐﮯ ﭼﭙﮯ ﭼﭙﮯ ﭘﺮ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﮔﺎﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﺤﻘﯿﻘﯽ ﻣﺮﺍﮐﺰ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، ﺗﺐ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺷﮩﻨﺸﺎﮦ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻟﯿﮑﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺝ ﻣﺤﻞ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻭﺍ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺐ ﻣﻐﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻮﻡ ﻭ ﻓﻨﻮﻥ ﮐﮯ ﺑﻢ ﭘﮭﭧ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺗﺐ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﺎﻥ ﺳﯿﻦ ﺟﯿﺴﮯ ﮔﻮﯾﮯ ﻧﺌﮯ ﻧﺌﮯ ﺭﺍﮒ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺟﺐ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﻭﮞ، ﻓﺮﺍﻧﺴﯿﺴﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﻧﮕﺎﻟﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺤﺮﯼ ﺑﯿﮍﮮ ﺑﺮ ﺻﻐﯿﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﻭﮞ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﮏ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍَﺭﺑﺎﺏ ﻭ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺷﺮﺍﺏ ﻭ ﮐﺒﺎﺏ ﺍﻭﺭ ﭼﻨﮓ ﻭ ﺭﺑﺎﺏ ﺳﮯ ﻣﺪﮨﻮﺵ ﭘﮍﮮ ﺗﮭﮯ۔ ﺗﻦ ﺁﺳﺎﻧﯽ، ﻋﯿﺶ ﮐﻮﺷﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﯿﺶ ﭘﺴﻨﺪﯼ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺍ۔ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻤﮏ ﺯﺩﮦ ﻧﻈﺎﻡ ﺑﮑﮭﺮ ﮔﯿﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﻮ ﺍِﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﮐﻮ ﺋﯽ ﻏﺮﺽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﺠﻮﺭﯾﺎﮞ ﺑﮭﺮﯼ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﺧﺎﻟﯽ؟ ﺷﮩﻨﺸﺎﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺎﺝ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﺮﮮ ﺟﮍﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ؟ ﺩﺭﺑﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺷﺎﻣﺪﯾﻮﮞ ، ﻣﺮﺍﺛﯿﻮﮞ ، ﻃﺒﻠﮧ ﻧﻮﺍﺯﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﺧﻮﺍﺭ ﺷﺎﻋﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺟﮭﺮﻣﭧ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ؟ ﯾﺎ ﺩ ﺭﮐﮭﯿﮯ ! ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﻏﺮﺽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻋُﺬﺭ ﻗﺒﻮ ﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ۔
ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺻﺪ ﺍﻓﺴﻮﺱ ! ﺳﯿﺮﺕ ﻧﺒﻮﯼ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺳﺒﻖ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ۔ﻣﮕﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍِﺱ ﭘﮩﻠﻮ ﺳﮯ ﻧﺎﺁﺷﻨﺎ ﺭﮨﮯ۔ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﻭ ﭨﯿﮑﻨﺎﻟﻮﺟﯽ، ﻋﻠﻮﻡ ﻭ ﻓﻨﻮﻥ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﺮﺱ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﻻﺣﺎﺻﻞ ﺑﺤﺜﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮ ﺿﺮﺭﻭﯼ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻣﮕﻦ ﺭﮨﮯ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺯﻭﺍﻝ ﮨﻤﺎﺭﺭ ﻣﻘﺪﺭ ﭨﮭﮩﺮﺍ۔ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺑﮍﯼ ﺑﮯ ﺭﺣﻢ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ..
ﺣﻮﺍﻟﮧ : ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺒﺮﺕ ﺁﻣﻮﺯ ﻭﺍﻗﻌﮧ