زلزلے قدرتی ہیں یا دراصل کچھ اور چل رہا ہے؟ تہلکہ خیز دعویٰ سامنے آگیا، سائنسدانوں نے امریکہ کی طرف انگلی اٹھادی
ویب سائٹ beforeitisnews.comکے مطابق 26 اکتوبر 2015ءکو شمالی افغانستان میں 7.5 طاقت کا زلزلہ آیا۔ اس موقع پر جیالوجی کے عالمی شہرت یافتہ ماہر ابراہیم بشپ کا کہنا تھا کہ اس زلزلے کی مزید تحقیقات کی ضرورت تھی کیونکہ یہ ایک ایسی علاقے میں آیا تھا کہ جہاں زیر زمین ارضیاتی تبدیلیاں بہت محدود تھیں اور اس علاقے میں زلزلہ آنے کا امکان انتہائی کم تھا۔ ان کا کہنا تھا ”دراصل یہاں پر ایسی تباہی آنے کی کوئی بھی قدرتی وجہ موجود نہیں تھی۔“ اسی طرح دیگر کئی ارضیاتی سائنسدانوں نے بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا اور اس ضمن میںامریکا کے دفاعی تحقیق کے ادارے ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پراجیکٹ ایجنسی کا بار بار ذکر ہوا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ادارہ 1980ءکی دہائی سے جیوفزیکل ہتھیار بنارہا ہے۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ہتھیار اس قدر طاقتور ہیں کہ سینکڑوں کلومیٹر پر محیط علاقے میں خوفناک زلزلہ پیدا کرسکتے ہیں۔ ماہرین 2010ءمیں افریقی ملک ہیٹی میں آنے والے تباہ کن زلزلے کو بھی انہی ہتھیاروں کا نتیجہ قرار دے چکے ہیں۔ ارضیاتی ماہرین افغانستان اور پاکستان میں حالیہ زلزلے کے بعد پھر یہی سوال اٹھارہے ہیں کہ ارضیاتی تبدیلویں کے لحاظ سے خاموش اور پرسکون علاقے میں مشکوک نوعیت کے زلزلے کیسے آرہے ہیں۔
کئی ماہرین نے اس معاملے کے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ شاید سچ ہمارے سامنے کبھی نہیں آسکے گا، کیونکہ مبینہ جیو فزیکل ہتھیاروں کی موجودگی کو کبھی واضح الفاظ میں تسلیم نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس طرح کے سوالات اٹھانے والوں کو بھی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر نک بیجک کی مثال بھی دی جاتی ہے، جو امریکی کانگرس کے رکن نک بیجک سینئر کے بیٹے تھے اور امریکا کے جیوفزیکل ہتھیاروں کی خفیہ لیبارٹریوں کے متعلق اکثر سوال اٹھاتے رہے تھے۔ پھر ایک دن وہ پراسرار طور پر غائب ہوگئے اور بعد ازاں کبھی بھی اس معاملے کے اصل حقائق سامنے نہیں آسکے۔ ایسے میں یہ سوال اور بھی اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ کیا کبھی سچ سامنے آئے گا؟
No comments:
Post a Comment