Wednesday 26 February 2020

لال مسجد تنازعہ

لال مسجد تنازعہ ...... قطعہ زمین کی ملکیت پر ہے:

محکمہ اوقاف نے جتنی زمین لال مسجد اور جامعہ حفصہ کیلئے وقف کی تھی مفتی عبداللہ صاحب نے اس سے کئی گنا زیادہ پر قبضہ کرلیا تھا. اب حکومت اس سرکاری زمین کو محکمہ اوقاف کے نام کرنا چاہتی ہے مگر ام حسان اور
مولانا عبدالعزیز اسے اپنے نام کرنے پر بضد ہے.

لال مسجد سرکاری مسجد ہے اور مولانا عبدالعزیز سرکاری ملازم تھا, اب وہ سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہوچکا ہے , انکی جگہ مولانا فضل رحمان صاحب کا حمایت یافتہ مولانا عامر تعینات ہوگیا ہے جوکہ مولانا عبدالعزیز کا سگا بھتیجا بھی ہے. مولانا عامر کی تعیناتی کے چند دن بعد مولانا عبدالعزیز نے ڈنڈا بردار ساتھیوں کی مدد سے مسجد پر دوبارہ قبضہ کردیا اور ریٹائرمنٹ کو ماننے سے انکار کردیا ہے.

محکمہ اوقاف کے ایک افسر کیمطابق عبدالعزیز صاحب کے چند مطالبات ہیں :
1- میں تاحیات خطیب رہوگا.
یا
2- میرے دوسرے بھتیجے کو خطیب مقرر کیا جائے اور سرپرست کے طور پر مجھے تعینات کیا جائے.
3- متنازعہ سرکاری زمین محکمہ اوقاف کے بجائے میرے اور ام حسان کے نام لکھا جائے.
یا
4- مجھے تین کروڑ روپے دیا جائے جو میں نے مدرسہ پر خرچ کیے ہیں.
اب سوشل میڈیا پر ام حسان مجاہدہ رقت آمیز جذباتی دعائیں شیئر کرکے اس معاملے کو کفر و اسلام کی جنگ قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے.
دوسری طرف مولانا عبدالعزیز صاحب "کھانا نہ ہونے" کی وجہ سے سبز پتےکھانے اور دیگرقسم کی ویڈیوز شیئر کرکے مولانا فضل رحمان , مفتی تقی عثمانی اور مولانا زاھدالراشدی صاحبان کو طعنے دے رہے ہیں.

لال مسجد آفیشل پیج سے جو پوسٹیں , پریس ریلیز اور نیوز شیئر ہورہے ہیں اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ کفر اور اسلام کے درمیان معرکۂ حق برپا ہے اور اسلام سخت خطرے میں ہے.

جبکہ
کچھ لوگ اس معاملے کو پھر پرویز مشرف دور کے ڈرامے سے جوڑ رہے ہیں جسمیں دنیا کو تاثر دیا گیا تھا کہ ہم انتہا پسندی اور دہشتگردی کیخلاف کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں.یعنی ایکبار پھر "گرے لسٹ" اور "گرین لسٹ" کے چکر میں ایک اور گیم کھیلا جارہا ہے.
اگر خدانخواستہ یہ سچ ہے تو پھر سب سے بڑے مجرم مولانا عبدالعزیز اور ام حسان صاحبہ ہوگی جو اس ڈرامے کے مرکزی کردار ہونگے جسمیں ایکبار پھر کچھ کلیوں اور پھولوں کو کچلا جائیگا مسلا جائیگا-
 
 
 
 

No comments:

Post a Comment