Wednesday, 29 November 2017
Salsabeel : فلم ٹائٹینک میں روز نے جیک کو تختے پر جگہ کیوں نہی...
Salsabeel : فلم ٹائٹینک میں روز نے جیک کو تختے پر جگہ کیوں نہی...: BBC URDU ہالی وڈ کی مقبول فلم 'ٹائٹینک' ایک حقیقی حادثے پر مبنی ایسی فلم ہے جس میں ایک داستان محبت کو پروان چڑھتے دیکھا جا ...
فلم ٹائٹینک میں روز نے جیک کو تختے پر جگہ کیوں نہیں دی؟
BBC URDU
ہالی وڈ کی مقبول فلم 'ٹائٹینک' ایک حقیقی حادثے پر مبنی ایسی فلم ہے جس میں ایک داستان محبت کو پروان چڑھتے دیکھا جا سکتا ہے۔
فلم
کا انجام انتہائی دردناک ہے جس میں ہیرو اپنی محبوبہ کو بچانے کے لیے اپنی
جان دے دیتا ہے اور محبوبہ اس کی محبت دل میں چھپائے زندگی گزار دیتی ہے۔
یہ
فلم 'آر ایم ایس ٹائٹینک' نامی جہاز کی کہانی ہے جو انگلینڈ کے ساؤتھ
ایمپٹن سے نیویارک کے پہلے سفر کے دوران 14 اپریل سنہ 1912 کو بحر
اوقیانوس میں حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس حادثے میں 1500 سے زائد
مرد، خواتین اور بچے ہلاک ہو گئے تھے۔ ٹائٹینک کے غرق ہونے سے قبل گھنٹوں
جہاز پر کیا ہوتا رہا اس کے بارے میں بہت سے افسانے اور کہانیاں ہیں۔ لیکن
سنہ 1997 میں بننے والی جیمز کیمرون کی فلم سب سے زیادہ مقبول ہوئی۔
فلم کے اختتام پر یہ منظر سامنے آتا ہے کہ جہاز کے غرقاب ہونے کے بعد
جیک اور روز کو ایک لکڑی کا تختہ مل جاتا ہے جس پر دونوں سوار ہونے کی کوشش
کرتے ہیں کیونکہ سمندر کے یخ بستہ پانی میں زیادہ دیر رہنا موت کو دعوت
دینا ہے۔
لیکن جب دونوں تختے پر بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں تو تختہ
ڈوبنے لگتا ہے اور دونوں کا وزن ایک ساتھ نہیں اٹھا پاتا ہے۔ بہر حال تختہ
اتنا بڑا تھا کہ دونوں اس پر سوار ہو سکتے تھے۔
بہت سے ناظرین کے دل
میں یہ سوال پیدا ہوئے کہ کیا واقعی دونوں کی جان نہیں بچ سکتی تھی کیا
واقعی وہ تختہ ان دونوں کا وزن اٹھانے لائق نہیں تھا؟
فلم ساز جیمز کیمرون سے کئی بار یہ سوال پوچھا گیا اور اب انھوں نے اس کا جواب دیا ہے۔
وینٹی فيئر کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان سے پوچھا گیا کہ روز نے جیک کو تختے پر جگہ کیوں نہیں دی؟
انھوں نے کہا: ’اس کا سہل سا جواب یہ ہے کہ سکرپٹ کے 147 ویں صفحے پر
لکھا گیا تھا کہ جیک مر گیا۔ یہ فنی اعتبار سے کیا جانے والا فیصلہ تھا۔‘
کیمرون
نے کہا: 'وہ تختہ صرف اتنا ہی بڑا تھا کہ وہ روز کو سنبھال لے، دونوں کو
نہیں۔۔۔ یہ بہت بچگانہ بات ہے کہ فلم کے 20 سال بعد بھی ہم اسی کے بارے میں
بات کر رہے ہیں۔ لیکن اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ فلم اس قدر متاثر کن
رہی اور جیک لوگوں کو اتنا پیارا لگا کہ ناظرین کو اس کا مر جانا غمزدہ کر
گیا۔'
انھوں نے کہا: 'اگر وہ زندہ رہتا تو فلم کا اختتام بے معنی ہو جاتا۔۔۔ یہ
فلم موت اور علیحدگی پر مبنی تھی۔ فلم میں جیک کو مرنا ہی تھا۔ اگر اس طرح
نہیں مرتا تو اس پر جہاز کا کوئی ٹکڑا گرتا، آخر میں اسے مرنا ہی تھا۔ اسے
ہی آرٹ کہتے ہیں اور بعض چیزیں طبعیات کے اصول کے بجائے فنی نقطۂ نظر سے
لکھی جاتی ہیں۔‘
ان سے دوسرا سوال کیا گیا جس میں پوچھا گیا کہ آپ طبعیات کے سلسلے میں بہت سنجیدہ ہیں تو پھر ایسا کیوں ہوا۔
انھوں
نے جواب دیا: ’ہاں میں ہوں۔ دو دنوں تک میں لکڑی کے اس تختے پر دو لوگوں
کو بیٹھا کر دیکھنے کی کوشش کرتا رہا کہ وہ دو لوگوں کا وزن نہ اٹھا سکے
جبکہ ایک کا بار اٹھا لے کیونکہ یخبستہ پانی میں روز اس پر بیٹھے اور وہ نہ
ڈوبے۔'
انھوں نے کہا: 'جیک کو پتہ نہیں تھا کہ ایک گھنٹے لائف بوٹ
اسے بچانے آ جائے گی۔ اس سے قبل وہ مر چکا تھا۔ فلم میں آپ نے جو دیکھا اس
کے بارے میں یہ خیال تھا اور آج بھی ہے کہ ایک ہی کو بچنا تھا۔‘
Monday, 27 November 2017
Salsabeel : فوج اپنے کام سے کام رکھے : جن فوجیوں کو ریاست کا ش...
Salsabeel : فوج اپنے کام سے کام رکھے : جن فوجیوں کو ریاست کا ش...: دھرنے کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے آج فرمایا: فوج کو کس نے آئینی اختیار دیا کہ وہ...
فوج اپنے کام سے کام رکھے : جن فوجیوں کو ریاست کا شوق ہے وہ فوج چھوڑ کر سیاست میں آجائیں ، جسٹس شوکت عزیز نے فوج کو کھری کھری سنا دیں
دھرنے کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے آج فرمایا:
فوج کو کس نے آئینی اختیار دیا کہ وہ دھرنے والوں اور حکومت کے درمیان ضامن بنے؟
ایجنسیوں نے تیسری مرتبہ اسلام آباد میں دھرنا کروایا - اگر فوج نے سیاست کرنی ہے تو استعفی دے کر سیاست میں آجائے
ختم نبوت ﷺ کیلئے میں نے بھی جیلیں کاٹی ہیں، مجھ سے بڑا عاشق رسول ﷺ کون ہوگا ؟
وجہ تلاش کی جائے کہ اسلام آباد انتظامیہ کیوں ناکام ہوئی اور اسے ناکام بنانے والا کون تھا؟
جسٹس شوکت صدیقی پزل کا وہ آخری ٹکڑا تھا جسے جوڑنے کے بعد تمام منظر بالکل واضح دکھائی دینے لگتا ہے۔
22 دن سے اسلام آباد مفلوج تھا، حکومت کی نااہلی کی وجہ سے پورے ملک میں دھرنے والوں کے حق میں جذبات ہموار ہورہے تھے، پھر چند روز قبل اسی جسٹس شوکت صدیقی نے دھرنے کے خلاف سخت ایکشن لینے کا حکم صادر کردیا۔ اس حکم کا مخاطب وزارت داخلہ ہی تھی کیونکہ اسلام آباد کی انتظامیہ پنجاب حکومت یا پنجاب پولیس کے نیچے نہیں آتی۔
پھر جب اسلام آباد انتظامیہ نے دھرنے کے خلاف آپریشن لانچ کیا تو انتظامیہ کی نااہلی کھل کر سامنے آگئی۔ پورے ملک میں آگ لگ گئی اور حکومتی اراکین کا پبلک میں نکلنا مشکل ہوگیا۔ ن لیگی اراکین نے استعفی دینے شروع کردیئے۔
یہ وہ وقت تھا کہ اگر دھرنے والے اعلان کردیتے کہ عدالتوں اور پارلیمنٹ پر قبضہ کرلو تو یہ جج اس وقت نالہ لئی کے کنارے کسی جھگی میں بیٹھ کر چائے پی رہے ہوتے۔
پلان بالکل واضح تھا۔ انتظامیہ کے زریعے آگ بھڑکائی جائے اور پھر فوج کو بلا کر براہ راست عوام کے سامنے لا کھڑا کردیا جائے۔ جنرل باجوہ پر قادیانی ہونے کا الزام پہلے ہی لگ چکا، جب فوج ختم نبوت ﷺ پر کئے گئے دھرنے کے مظاہرین پر قوت کا استعمال کرتی تو پوری فوج پر قادیانی ہونے کا لیبل لگ جاتا۔ پھر فوجیوں کیلئے اپنی وردی میں باہر نکلنا بھی مشکل ہوجاتا۔ یوں پاکستان ایک ناکام ریاست کا منظر پیش کرتا، غالباً یہی وہ وقت ہوتا جب اقوام متحدہ کے زریعے قرارداد منظور کروا کر پاکستان کے حساس مقامات کی تحفظ کیلئے انٹرنیشنل فوجوں کے دستے تعینات کرنے پر کام شروع ہوجاتا۔
دھرنے والے حکومت پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھے، انہیں کسی کی ضمانت درکار تھی اور اس مقصد کیلئے ان کی واحد شرط فوج تھی۔ چنانچہ اس ساری صورتحال کو ڈی فیوز کرنے کیلئے ایک میجر جنرل صاحب ضمانتی بنے اور دونون کے درمیان معاہدے کی شرائط پر اپنی ضمانت دی جس سے دھرنا ختم ہوا۔
چونکہ سازش ناکام ہوگئی تھی اس لئے جسٹس شوکت صدیقی نے آج بطور جج اپنے کیرئیر میں پانچویں مرتبہ ملکہ جذبات بنتے ہوئے آنسوؤں کی لڑیاں بہاتے ہوئے اوپر بیان کئے گئے الفاظ کو بطور آبزرویشن سماعت کا حصہ بنایا۔
کیا آئین کسی فوج کو اتنظامیہ اور مظاہرین کے درمیان ضامن بننے سے روکتا ہے؟ کوئی ایک ایسی شق جو فاضل جج صاحب بطور ریفرینس بتا سکیں، بڑی عنایت ہوگی۔
دوسری بات جو یہ جج بھول گیا تھا وہ یہ کہ دو دن قبل وزارت داخلہ آئین کے آرٹیکل کے تحت فوج کو اسلام آباد طلب کرچکی تھی اور اس آرٹیکل کے تحت فوج کے پاس وہ تمام انتظامی اختیارات آجاتے ہیں جو پولیس، کمشنرز اور مجسٹریٹس کے پاس ہوتے ہیں۔ ان اختیارات میں صرف گولی یا لاٹھی چارج ہی شامل نہیں ہوتا بلکہ مذاکرات بھی شامل ہوتے ہیں اور انہی کے تحت پاک فوج نے دھرنے کو پرامن طریقے سے ڈی فیوز کروانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
اب آجائیں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف۔
موصوف گورڈن کالج سے پڑھے ہیں، جہاں ان کے قریبی عزیز اور نوازشریف کے مشیر جناب عرفان صدیقی بھی غالباً پڑھایا کرتے تھے۔ جج صاحب زمانہ طالبعلمی میں جمیعت کا حصہ رہے اور بعد میں جماعت اسلامی میں شامل ہوکر الیکشن بھی لڑتے رہے اور حسب توفیق ہارتے رہے۔
ابھی چند ماہ گزرے ہیں جب موصوف اپنے آپ کو ناموس رسالت ﷺ کا سب سے بڑا نگہبان ڈیکلئیر کرکے آبزریشن جاری کرچکے کہ ناموس رسالت ﷺ کی خاطر پوری سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ بھی بند کرنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
آج ختم نبوت ﷺ کی خاطر جب مظاہرین نے صرف فیض آباد بند کیا تو یہی جج منہ سے آگ برساتے ہوئے ان مظاہرین کے خلاف پوری شدت سے کاروائی کرنے کا حکم دینے لگ گیا۔
یاد رہے، یہ وہی جج صاحب ہیں جن پر سی ڈی اے کے حکام نے جوڈیشل کمیشن میں کاروائی کی درخواست دی تھی۔ موصوف دو مرتبہ گھر الاٹ کروا چکے، کروڑوں روپوں سے تزئین و آرائش کروا چکے، اپنے دوست کی بیٹی کو لاکھوں روپے تنخواہ پر نوکری دلوا چکے اور اس کے علاوہ پتہ نہیں کہاں کہاں سے مراعات بھی حاصل کرچکے اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہی کیا۔
جج صاحب معمہ کا وہ آخری ٹکڑا ہیں جو اس پورے معاملے کی منظرکشی واضح کردیتا ہے۔ جج صاحب، آپ نے اپنے منصب کا جس طرح استعمال کیا، اس کا جواب آپ سے اللہ ہی لے گا!!! بقلم خود باباکوڈا
فوج کو کس نے آئینی اختیار دیا کہ وہ دھرنے والوں اور حکومت کے درمیان ضامن بنے؟
ایجنسیوں نے تیسری مرتبہ اسلام آباد میں دھرنا کروایا - اگر فوج نے سیاست کرنی ہے تو استعفی دے کر سیاست میں آجائے
ختم نبوت ﷺ کیلئے میں نے بھی جیلیں کاٹی ہیں، مجھ سے بڑا عاشق رسول ﷺ کون ہوگا ؟
وجہ تلاش کی جائے کہ اسلام آباد انتظامیہ کیوں ناکام ہوئی اور اسے ناکام بنانے والا کون تھا؟
جسٹس شوکت صدیقی پزل کا وہ آخری ٹکڑا تھا جسے جوڑنے کے بعد تمام منظر بالکل واضح دکھائی دینے لگتا ہے۔
22 دن سے اسلام آباد مفلوج تھا، حکومت کی نااہلی کی وجہ سے پورے ملک میں دھرنے والوں کے حق میں جذبات ہموار ہورہے تھے، پھر چند روز قبل اسی جسٹس شوکت صدیقی نے دھرنے کے خلاف سخت ایکشن لینے کا حکم صادر کردیا۔ اس حکم کا مخاطب وزارت داخلہ ہی تھی کیونکہ اسلام آباد کی انتظامیہ پنجاب حکومت یا پنجاب پولیس کے نیچے نہیں آتی۔
پھر جب اسلام آباد انتظامیہ نے دھرنے کے خلاف آپریشن لانچ کیا تو انتظامیہ کی نااہلی کھل کر سامنے آگئی۔ پورے ملک میں آگ لگ گئی اور حکومتی اراکین کا پبلک میں نکلنا مشکل ہوگیا۔ ن لیگی اراکین نے استعفی دینے شروع کردیئے۔
یہ وہ وقت تھا کہ اگر دھرنے والے اعلان کردیتے کہ عدالتوں اور پارلیمنٹ پر قبضہ کرلو تو یہ جج اس وقت نالہ لئی کے کنارے کسی جھگی میں بیٹھ کر چائے پی رہے ہوتے۔
پلان بالکل واضح تھا۔ انتظامیہ کے زریعے آگ بھڑکائی جائے اور پھر فوج کو بلا کر براہ راست عوام کے سامنے لا کھڑا کردیا جائے۔ جنرل باجوہ پر قادیانی ہونے کا الزام پہلے ہی لگ چکا، جب فوج ختم نبوت ﷺ پر کئے گئے دھرنے کے مظاہرین پر قوت کا استعمال کرتی تو پوری فوج پر قادیانی ہونے کا لیبل لگ جاتا۔ پھر فوجیوں کیلئے اپنی وردی میں باہر نکلنا بھی مشکل ہوجاتا۔ یوں پاکستان ایک ناکام ریاست کا منظر پیش کرتا، غالباً یہی وہ وقت ہوتا جب اقوام متحدہ کے زریعے قرارداد منظور کروا کر پاکستان کے حساس مقامات کی تحفظ کیلئے انٹرنیشنل فوجوں کے دستے تعینات کرنے پر کام شروع ہوجاتا۔
دھرنے والے حکومت پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھے، انہیں کسی کی ضمانت درکار تھی اور اس مقصد کیلئے ان کی واحد شرط فوج تھی۔ چنانچہ اس ساری صورتحال کو ڈی فیوز کرنے کیلئے ایک میجر جنرل صاحب ضمانتی بنے اور دونون کے درمیان معاہدے کی شرائط پر اپنی ضمانت دی جس سے دھرنا ختم ہوا۔
چونکہ سازش ناکام ہوگئی تھی اس لئے جسٹس شوکت صدیقی نے آج بطور جج اپنے کیرئیر میں پانچویں مرتبہ ملکہ جذبات بنتے ہوئے آنسوؤں کی لڑیاں بہاتے ہوئے اوپر بیان کئے گئے الفاظ کو بطور آبزرویشن سماعت کا حصہ بنایا۔
کیا آئین کسی فوج کو اتنظامیہ اور مظاہرین کے درمیان ضامن بننے سے روکتا ہے؟ کوئی ایک ایسی شق جو فاضل جج صاحب بطور ریفرینس بتا سکیں، بڑی عنایت ہوگی۔
دوسری بات جو یہ جج بھول گیا تھا وہ یہ کہ دو دن قبل وزارت داخلہ آئین کے آرٹیکل کے تحت فوج کو اسلام آباد طلب کرچکی تھی اور اس آرٹیکل کے تحت فوج کے پاس وہ تمام انتظامی اختیارات آجاتے ہیں جو پولیس، کمشنرز اور مجسٹریٹس کے پاس ہوتے ہیں۔ ان اختیارات میں صرف گولی یا لاٹھی چارج ہی شامل نہیں ہوتا بلکہ مذاکرات بھی شامل ہوتے ہیں اور انہی کے تحت پاک فوج نے دھرنے کو پرامن طریقے سے ڈی فیوز کروانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
اب آجائیں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف۔
موصوف گورڈن کالج سے پڑھے ہیں، جہاں ان کے قریبی عزیز اور نوازشریف کے مشیر جناب عرفان صدیقی بھی غالباً پڑھایا کرتے تھے۔ جج صاحب زمانہ طالبعلمی میں جمیعت کا حصہ رہے اور بعد میں جماعت اسلامی میں شامل ہوکر الیکشن بھی لڑتے رہے اور حسب توفیق ہارتے رہے۔
ابھی چند ماہ گزرے ہیں جب موصوف اپنے آپ کو ناموس رسالت ﷺ کا سب سے بڑا نگہبان ڈیکلئیر کرکے آبزریشن جاری کرچکے کہ ناموس رسالت ﷺ کی خاطر پوری سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ بھی بند کرنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
آج ختم نبوت ﷺ کی خاطر جب مظاہرین نے صرف فیض آباد بند کیا تو یہی جج منہ سے آگ برساتے ہوئے ان مظاہرین کے خلاف پوری شدت سے کاروائی کرنے کا حکم دینے لگ گیا۔
یاد رہے، یہ وہی جج صاحب ہیں جن پر سی ڈی اے کے حکام نے جوڈیشل کمیشن میں کاروائی کی درخواست دی تھی۔ موصوف دو مرتبہ گھر الاٹ کروا چکے، کروڑوں روپوں سے تزئین و آرائش کروا چکے، اپنے دوست کی بیٹی کو لاکھوں روپے تنخواہ پر نوکری دلوا چکے اور اس کے علاوہ پتہ نہیں کہاں کہاں سے مراعات بھی حاصل کرچکے اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہی کیا۔
جج صاحب معمہ کا وہ آخری ٹکڑا ہیں جو اس پورے معاملے کی منظرکشی واضح کردیتا ہے۔ جج صاحب، آپ نے اپنے منصب کا جس طرح استعمال کیا، اس کا جواب آپ سے اللہ ہی لے گا!!! بقلم خود باباکوڈا
Sunday, 26 November 2017
Traders shut down major markets in Lahore as ‘anti-blasphemy’ protests intensify
LAHORE – Traders at Lahore’s prominent markets have announced to shut down their business on Monday in the wake of anti-blasphemy protests that have nearly paralysed the whole country.
A complete shutter down strike will be observed in all major markets. These include Auto Market Badami Bagh, Hall Road, Sarafa (gold) Bazaar, Anarkali bazaar, Urdu Bazaar, McLeod Road Market, Bradenth Road, Medicine markets, Hafeez Centre, Bilal Ganj market, Shah Alam Market, Goods Transport Agencies, Ganpat Road paper market, Ichhra Bazaar, Bandhan Road markets, Azam Cloth market, Chungi Amar Sadhu markets, Circular Road, Akbari Mandi and many others.
The announcement follows the deadly clashes in the federal capital on Saturday, where Islamabad Police along with FC troops launched ‘Faizabad Operation’ to uproot a protest sit-in by the demonstrators.
Following the operation, protests were started in major cities of the country. Rangers were called in Punjab to maintain law and order.
The protesters have been blocking the Islamabad expressway, the main road into the capital, since November 8, demanding the resignation of Federal Law Minister Zahid Hamid over a perceived softening of the state’s position on blasphemy.
Army was called in Saturday night to restore order to the capital after clashes between the protesters and police left at least six dead, including a police official, and 200 people injured.
A complete shutter down strike will be observed in all major markets. These include Auto Market Badami Bagh, Hall Road, Sarafa (gold) Bazaar, Anarkali bazaar, Urdu Bazaar, McLeod Road Market, Bradenth Road, Medicine markets, Hafeez Centre, Bilal Ganj market, Shah Alam Market, Goods Transport Agencies, Ganpat Road paper market, Ichhra Bazaar, Bandhan Road markets, Azam Cloth market, Chungi Amar Sadhu markets, Circular Road, Akbari Mandi and many others.
The announcement follows the deadly clashes in the federal capital on Saturday, where Islamabad Police along with FC troops launched ‘Faizabad Operation’ to uproot a protest sit-in by the demonstrators.
Following the operation, protests were started in major cities of the country. Rangers were called in Punjab to maintain law and order.
The protesters have been blocking the Islamabad expressway, the main road into the capital, since November 8, demanding the resignation of Federal Law Minister Zahid Hamid over a perceived softening of the state’s position on blasphemy.
Army was called in Saturday night to restore order to the capital after clashes between the protesters and police left at least six dead, including a police official, and 200 people injured.
Salsabeel : ختم نبوتﷺپرغیرمشروط ایمان رکھتاہوں
Salsabeel : ختم نبوتﷺپرغیرمشروط ایمان رکھتاہوں: مجهے ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺳﮑﺎﻟﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ .. " ﮬﻤﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﻐﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ' ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﻻﺋﻒ ﺳﭩﺎﺋﻞ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﮬﻮ...
ختم نبوتﷺپرغیرمشروط ایمان رکھتاہوں
مجهے ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺳﮑﺎﻟﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ .. " ﮬﻤﯿﮟ ﮐﭽﮫ
ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﻐﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ '
ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﻻﺋﻒ ﺳﭩﺎﺋﻞ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ' ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﺎﻡ
ﺷﺮﻋﯽ ﻋﯿﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮬﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ ' ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﺍﺳﻼﻡ
ﺍﻭﺭ
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺑﺎﺭﮎ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ
ﺫﮐﺮ ﺁﺗﺎ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﮐﭩﺮ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﮐﮯ ﺭﺩِ
ﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﻮﺗﺎ .. ﮐﯿﻮﮞ .. ؟
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ .. " ﯾﮧ ﻭﮦ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺑﺎﺕ ﮬﮯ ﺟﺴﮯ ﻣﻐﺮﺏ
ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﺳﮑﺘﺎ .. ﯾﮧ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻮﺩﮮ ﮬﻮﺗﮯ
ﮬﯿﮟ ..
ﺍﻭﺭ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻮﺩﮮ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﯿﻮﭘﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ
ﺁﺳﮑﺘﮯ ..
ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺑﺎﺭﮎ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ
ﺫﺍﺕ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻭﮦ ﺣﺴﺎﺱ ﺭﮒ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺑﺮﻑ ﺳﮯ
ﺑﻨﮯ
ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺁﮒ ﮐﺎ ﺑﮕﻮﻟﮧ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ .. ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺩﻧﯿﺎ
ﮐﮯ
ﮬﺮ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﭘﺮ ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﮧ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﮬﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ
ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺑﺎﺭﮎ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﭘﺮ
ﮐﺒﮭﯽ
ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ..
ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺁﮒ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺟﻼﺗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ' ﺍﺳﮯ
ﺑﻨﺎﺗﯽ ﮬﮯ .. ﺍﺳﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺯﻧﺪﮦ ﮐﺮﺗﯽ ﮬﮯ .. ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺍﻭﺭ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ
ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﯿﻔﯿﺖ ' ﺍﺱ ﺳﺮﻭﺭ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ
ﺳﮑﺘﮯ ..
ﺗﻢ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ
ﻭﺁﻟﮧ
ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺑﺎﺭﮎ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﻣﺰﮦ ﭼﮑﮭﺎ ﮬﯽ ﻧﮩﯿﮟ ..
ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﻐﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ '
ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﻻﺋﻒ ﺳﭩﺎﺋﻞ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ' ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﺎﻡ
ﺷﺮﻋﯽ ﻋﯿﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮬﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ ' ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﺍﺳﻼﻡ
ﺍﻭﺭ
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺑﺎﺭﮎ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ
ﺫﮐﺮ ﺁﺗﺎ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﮐﭩﺮ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﮐﮯ ﺭﺩِ
ﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﻮﺗﺎ .. ﮐﯿﻮﮞ .. ؟
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ .. " ﯾﮧ ﻭﮦ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺑﺎﺕ ﮬﮯ ﺟﺴﮯ ﻣﻐﺮﺏ
ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﺳﮑﺘﺎ .. ﯾﮧ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻮﺩﮮ ﮬﻮﺗﮯ
ﮬﯿﮟ ..
ﺍﻭﺭ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻮﺩﮮ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﯿﻮﭘﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ
ﺁﺳﮑﺘﮯ ..
ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺑﺎﺭﮎ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ
ﺫﺍﺕ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻭﮦ ﺣﺴﺎﺱ ﺭﮒ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺑﺮﻑ ﺳﮯ
ﺑﻨﮯ
ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺁﮒ ﮐﺎ ﺑﮕﻮﻟﮧ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ .. ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺩﻧﯿﺎ
ﮐﮯ
ﮬﺮ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﭘﺮ ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﮧ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﮬﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ
ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺑﺎﺭﮎ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﭘﺮ
ﮐﺒﮭﯽ
ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ..
ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺁﮒ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺟﻼﺗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ' ﺍﺳﮯ
ﺑﻨﺎﺗﯽ ﮬﮯ .. ﺍﺳﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺯﻧﺪﮦ ﮐﺮﺗﯽ ﮬﮯ .. ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺍﻭﺭ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ
ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﯿﻔﯿﺖ ' ﺍﺱ ﺳﺮﻭﺭ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ
ﺳﮑﺘﮯ ..
ﺗﻢ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ
ﻭﺁﻟﮧ
ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺑﺎﺭﮎ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﻣﺰﮦ ﭼﮑﮭﺎ ﮬﯽ ﻧﮩﯿﮟ ..
Saturday, 25 November 2017
ڈی این اے ٹیسٹ کیا ہے
ہمارے جسم کے
ہر ایک سیل میں ڈی این اے موجود ہوتا ہے جو دو کروموسوم پر مشتمل ہوتاہے جن
میں ہر شخص کی انفرادی خصوصیات کا مظہر موجود ہوتا ہے اور یہی خصوصیات
آئندہ نسل میں بھی منتقل ہوتی ہیں جس کی وجہ سے آئندہ نسل شکل و صورت، قد و
کاٹھ اور عادت و اطوار کے لحاظ سے پچھلی نسل سے مشابہت رکھتی ہے۔
حادثات میں ڈی این اے ٹیسٹ ہی وہ واحد طریقہ رہ جاتا ہے جس کے ذریعے لاشوں کو شناخت کر کے لواحقین کے حوالے کیا جاتا ہے جس کے بعد تدفین کا مرحلہ طے پاتا ہے تا ہم اس ٹیسٹ کے پروسیجر میں ایک ہفتہ بھی لگ سکتاہے۔
ڈی این اے میں موجود جینیٹک کوڈ کے تقابلی جانچ سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ دو مختلف اشخاص میں کوئی خونی رشتہ ہے کہ نہیں، اسی لیے جھلسی ہوئی یا ناقابل شناخت لاشوں کے ڈی این اے نمونے لے کر دعوی دار لواحقین کے نمونوں سے ملایا جاتا ہے اگر جینیٹک کوڈ یکساں پائے گئے تو مرنے والے کا لواحقین سے خونی رشتہ ثابت ہو جاتا ہےاور میت ورثاء کے حوالے کر دی جاتی ہے۔
ڈی این اے چونکہ جسم کے ہر حصے میں پایا جاتا ہے لہذا جلد سے لے کر دل تک اور خون سے لے کر ہڈیوں تک کہیں سے بھی تشخیصی نمونہ لیا جا سکتا ہے۔
تاہم زیادہ تر فرانزک سائنس دان جاں بحق افراد کے ناخن کے نیچے والی جلد سے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونہ حاصل کرتے ہیں اس نمونے کو لواحقین کے لیے گئےخون کے نمونے سے ملایا جاتا ہے اگر جینیٹک کوڈ یکساں آ جائے تو ثابت ہو جاتا ہے کہ جاں بحق ہونے والا شخص اس ہی خاندان کا ممبر تھا۔
جاں بحق افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے لیے گئے نمونے سے پولی میرز طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے ڈی این اے کی سیکڑوں کاپیاں بنا لی جاتی ہیں یہ طریقہ کار نہ صرف یہ کہ قدرتی ہے بلکہ محفوظ ترین بھی ہے جس میں مختلف اینزائمز کے ذریعے جینیٹک کوڈ بنائے جاتے ہیں اور پھر ان جینیٹک کوڈ کا تقابل لواحقین میں سے کسی شخص سے لیے گئے جینیٹک کوڈ سے کیا جاتا ہے اور جینیٹک کوڈ میچ کر جانے پر لاش کو متعلقہ لواحقین کے حوالے کردیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں فرانزک لیب میں ڈی این اے ٹیسٹ کی دستیابی ماہر چوروں کی گرفتاری اور عادی مجرم کو پکڑنے میں کار کرگر ثابت ہوتی ہے جب کہ اسی کے ذریعے کئی ایسے مقدمات کی گتھی سلجھائی گئی ہے جو کرائم کی دنیا میں نا قابلِ تفتیش سمجھے جاتے تھے اور اس ٹیسٹ سے قبل داخلِ از دفتر کردیے جاتے تھے۔
حادثات میں ڈی این اے ٹیسٹ ہی وہ واحد طریقہ رہ جاتا ہے جس کے ذریعے لاشوں کو شناخت کر کے لواحقین کے حوالے کیا جاتا ہے جس کے بعد تدفین کا مرحلہ طے پاتا ہے تا ہم اس ٹیسٹ کے پروسیجر میں ایک ہفتہ بھی لگ سکتاہے۔
ڈی این اے میں موجود جینیٹک کوڈ کے تقابلی جانچ سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ دو مختلف اشخاص میں کوئی خونی رشتہ ہے کہ نہیں، اسی لیے جھلسی ہوئی یا ناقابل شناخت لاشوں کے ڈی این اے نمونے لے کر دعوی دار لواحقین کے نمونوں سے ملایا جاتا ہے اگر جینیٹک کوڈ یکساں پائے گئے تو مرنے والے کا لواحقین سے خونی رشتہ ثابت ہو جاتا ہےاور میت ورثاء کے حوالے کر دی جاتی ہے۔
تمام انسانوں میں جینیٹک کوڈ یکساں ہی ہوتا ہے
تا ہم معمولی سا فرق ضرور ہوتا ہے جو ایک انسان کی خصوصیات کو دوسرے خاندان
سے علیحدہ کرتا ہے اسے جینیٹک مارکر کہا جاتا ہے اسی کی مدد سے لواحقین کا
پتہ چلائے جانے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
ڈی این اے چونکہ جسم کے ہر حصے میں پایا جاتا ہے لہذا جلد سے لے کر دل تک اور خون سے لے کر ہڈیوں تک کہیں سے بھی تشخیصی نمونہ لیا جا سکتا ہے۔
تاہم زیادہ تر فرانزک سائنس دان جاں بحق افراد کے ناخن کے نیچے والی جلد سے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونہ حاصل کرتے ہیں اس نمونے کو لواحقین کے لیے گئےخون کے نمونے سے ملایا جاتا ہے اگر جینیٹک کوڈ یکساں آ جائے تو ثابت ہو جاتا ہے کہ جاں بحق ہونے والا شخص اس ہی خاندان کا ممبر تھا۔
جاں بحق افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے لیے گئے نمونے سے پولی میرز طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے ڈی این اے کی سیکڑوں کاپیاں بنا لی جاتی ہیں یہ طریقہ کار نہ صرف یہ کہ قدرتی ہے بلکہ محفوظ ترین بھی ہے جس میں مختلف اینزائمز کے ذریعے جینیٹک کوڈ بنائے جاتے ہیں اور پھر ان جینیٹک کوڈ کا تقابل لواحقین میں سے کسی شخص سے لیے گئے جینیٹک کوڈ سے کیا جاتا ہے اور جینیٹک کوڈ میچ کر جانے پر لاش کو متعلقہ لواحقین کے حوالے کردیا جاتا ہے۔
اس طریقہ کار میں غلطیوں کا اندیشہ نہ ہونے کے برابر ہے تاہم پاکستان میں فرانزک لیب، فرانزک سائنس دان اور ماہر عملے کی کمی کے باعث اس ٹیسٹ کو انجام دینے میں کافی مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور اس کو مکمل ہونے میں ہفتہ بھی لگ جاتا ہے۔
دنیا بھر میں فرانزک لیب میں ڈی این اے ٹیسٹ کی دستیابی ماہر چوروں کی گرفتاری اور عادی مجرم کو پکڑنے میں کار کرگر ثابت ہوتی ہے جب کہ اسی کے ذریعے کئی ایسے مقدمات کی گتھی سلجھائی گئی ہے جو کرائم کی دنیا میں نا قابلِ تفتیش سمجھے جاتے تھے اور اس ٹیسٹ سے قبل داخلِ از دفتر کردیے جاتے تھے۔
شناختی کارڈ کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ لازمی قرار
سعودی عرب میں لاگر کیئے گئے نئے قانون
کے مطابق قومی شناختی کارڈ کے حصول کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کرانا لازمی
قرار دیدیا گیا ہے ٹیسٹ کے منفی آنے پر شناختی کارڈ جاری نہیں کیا جائے گا۔
بین الااقوامی خبر رساں ایجنسی کے مطابق شناختی
کارڈ کے اجراء کو ڈی این اے ٹیسٹ سے مشروط کرنے والا یہ قانون محکمہ احوال
مدینہ اور علماء بورڈ نے مشاورت کے بعد ترتیب دیا ہے جو کہ وراثت کے مسائل
کو بہ خوبی نمٹنے کے لیے مرتب کیا گیا ہے.
اس ترمیم شدہ لائحہ عمل میں واضح کیا گیا ہے کہ
سعودی عرب کے شہری کو والدین کے انتقال کے بعد شناختی کارڈ بنوانے کے لیے
ڈی این اے ٹیسٹ لازمی کرانا ہوگا اس کے بعد ہی وہ وراثت میں حصہ دار ہونے
کا دعوی کرسکتا ہے.
اس قانون کے تحت مقررہ عمر تک پہنچنے کے بعد
شناختی کارڈ بنوانا لازمی ہو گا اگر 20 سال کی عمر کو پہنچنے کے باوجود
شناختی کارڈ نہ بنوایا تو والد اور اگر والد انتقال ہوچکے ہیں تو بڑے بھائی سے باز
پرس کی جائے گا.
تاہم یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ ایسی کسی صورت
حال میں قومی شناختی کارڈ اس وقت تک جاری نہیں کیا جائے گا تا وقت یہ کہ
وہ ڈی این اے ٹیسٹ نہ کرا لے جس کے بعد ہی شناختی کارڈ جاری کیا جائے گا
اور ترکہ کا حق حاصل ہوسکے گا.
ترکہ اور وراثت کے معاملات کی سنگینی کو دیکھتے
ہوئے ایک طویل نشست میں مشاورت کے بعد علماء بورڈ نے بھی اس قانون کی
منظوری دے دی ہے جس کے بعد یہ قانون آئندہ ہفتے سے نافذ العمل ہوگا.
Black Friday
In the 1980s, the term “Black Friday” began to be used by retailers to refer to the single day of the year when retail companies finally go “into the black” (make a profit) after being "in the red" for much of the year.
But that's not the only theory behind the name.
Rumours have also circulated that the term came from an invented tradition to sell slaves the day after Thanksgiving, while others think its original could be much more recent.
In an article from 1994, the late journalist wrote that the cops used the term to describe the horrible traffic jams that happened when people poured into town on the Friday after Thanksgiving.
He wrote: "It was the day that Santa Claus took his chair in the department stores and every kid in the city wanted to see him. It was the first day of the Christmas shopping season. Schools were closed. Late in the day, out-of-town visitors began arriving for the Army-Navy football game.
"Every 'Black Friday', no traffic policeman was permitted to take the day off. The division was placed on 12 tours of duty, and even the police band was ordered to Center City."
"Today the term seems lost in antiquity, but it was a traffic cop who started it, the guy who directed traffic with a semaphore while standing on a small wooden platform, in the days before traffic lights."
In the early 1960s, Barrett put together a front-page story for Thanksgiving and appropriated the police term "Black Friday" to describe the terrible traffic conditions.
The name stuck and began spreading across the US, and then the globe.
Black Friday has also been used historically to refer to any awful event that happens on that day.
The first recorded use of Black Friday was applied not to holiday shopping but to the crash of the U.S. gold market on September 24, 1869, caused by two unscrupulous criminals.
Two ruthless Wall Street financiers, Jay Gould and Jim Fisk, worked together to buy up as much as they could of the nation’s gold, to drive the price sky-high and sell it for huge profits.
But on that Friday, the conspiracy collapsed and the market went into free fall and bankrupted everyone from Wall Street bankers to farmers.
Another Black Friday, January 31, 1919, refers to the Battle of George Square in Glasgow - one of the most intense riots in the city's history.
It has also been used to refer to bad days of battle in the Second World War, devastating Australian bush fires and a peaceful protest in Malé, the capital of the Maldives, which saw police firing tear gas on protestors.
But that's not the only theory behind the name.
Rumours have also circulated that the term came from an invented tradition to sell slaves the day after Thanksgiving, while others think its original could be much more recent.
Traffic trouble
According to Joseph P. Barrett, who was police reporter for the Philadelphia Bulletin, the term "Black Friday" came out of the old Philadelphia Police Department's traffic squad.In an article from 1994, the late journalist wrote that the cops used the term to describe the horrible traffic jams that happened when people poured into town on the Friday after Thanksgiving.
He wrote: "It was the day that Santa Claus took his chair in the department stores and every kid in the city wanted to see him. It was the first day of the Christmas shopping season. Schools were closed. Late in the day, out-of-town visitors began arriving for the Army-Navy football game.
"Every 'Black Friday', no traffic policeman was permitted to take the day off. The division was placed on 12 tours of duty, and even the police band was ordered to Center City."
"Today the term seems lost in antiquity, but it was a traffic cop who started it, the guy who directed traffic with a semaphore while standing on a small wooden platform, in the days before traffic lights."
In the early 1960s, Barrett put together a front-page story for Thanksgiving and appropriated the police term "Black Friday" to describe the terrible traffic conditions.
The name stuck and began spreading across the US, and then the globe.
Black Friday has also been used historically to refer to any awful event that happens on that day.
The first recorded use of Black Friday was applied not to holiday shopping but to the crash of the U.S. gold market on September 24, 1869, caused by two unscrupulous criminals.
Two ruthless Wall Street financiers, Jay Gould and Jim Fisk, worked together to buy up as much as they could of the nation’s gold, to drive the price sky-high and sell it for huge profits.
But on that Friday, the conspiracy collapsed and the market went into free fall and bankrupted everyone from Wall Street bankers to farmers.
Another Black Friday, January 31, 1919, refers to the Battle of George Square in Glasgow - one of the most intense riots in the city's history.
It has also been used to refer to bad days of battle in the Second World War, devastating Australian bush fires and a peaceful protest in Malé, the capital of the Maldives, which saw police firing tear gas on protestors.
Tuesday, 21 November 2017
How to Transfer Balance From Zain or STC To Ufone, Telenor, Jazz
Transfer Mobile Balance From Saudi Arabia To Pakistani Mobile Networks
Many of us are living in Saudi Arabia are confused that is it possible to transfer my mobile Balance from KSA to Pakistan. Yeah its totally possible and its very simple to Share balance from your KSA mobile to any of Pakistani mobile network. below are the step by step method.
From Zain to Pakistani mobile number: dial *111*Pakistani Number*amount#'
you should type 0092 before any pakistani mobile number
For Example: if you want to send 20 riyals to pakistani number.
dial *111*0092xxxx*20#
From STC Sawa to Pakistani mobile number: write 133*pakistani number*1 and send 801500
you will get a confirmation message. reply with Y and the balance will be transfered.
More details:
- always put 0092 before any pakistani number.
For STC Sawa things are different.
for amount you choose 1 for 100PKR, 2 for 250 and 3 for 500PKR.
and the prices are as follows.
100 PKR : 5 SAR
250 PKR : 12 SAR
500 PKR : 23 SAR
if you have a question in mind feel free to ask us in the comments below, also share this amazing website with your friends and family, after all sharing is caring.
Thursday, 16 November 2017
40سالہ ازدواجی زندگی میں46کاببلو،44کی پشپااور42کاڈبلو
او کون لوگ او تسی یدی دیو کنجرو ؟؟🤔🤔میاں
ساب نےآج40سالہ ازدواجی زندگی میں46کاببلو،44کی
پشپااور42کاڈبلوپیداکرنےکاانکشاف کرکےمیڈیکل سائنس میں تہلکہ مچادیاہےمیاں
ساب نےآج40سالہ ازدواجی زندگی میں46کاببلو،44کی
پشپااور42کاڈبلوپیداکرنےکاانکشاف کرکےمیڈیکل سائنس میں تہلکہ مچادیاہے
Thursday, 9 November 2017
’’کیوں نکالا ‘‘
رہزن کو سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلہ میں’’کیوں نکالا‘‘ کا تسلی بخش جواب مل گیا اب عالمی لٹیرے جواب دیں کہ پاکستان کو ’’کیوں لوٹا ‘‘۔قوم نے خزانے کی چابیاں دے کر امانت سونپی تھی اس میں خیانت کیوں کی، سپریم کورٹ میں جھوٹے بیا ن حلفی جمع کرانے والوں کو اعلیٰ عدلیہ کے خلاف مہم جوئی پر شرم آنی چاہیے ۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے آئینی اداروں سے 3سوالات کرتے ہوئے کہا کہ نیب اور حکومت جواب دے قومی لٹیروں کو گرفتار کیوں نہیں کیا ؟ای سی ایل پر کیوں نہیں ڈالا؟ جیل کیوں نہیں بھیجا؟ جعلی حلف نامے دینے والوں کو فوری جیل نہ بھیج کر سپریم کورٹ نے بھی نرمی دکھائی ۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ نواز شریف جھوٹ، فراڈ اور بے ایمانی کا دوسرا نام ہے۔سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے بعد نواز شریف کی لوٹ مار کے حوالے سے ہر قسم کا ابہام ختم ہو گیا
Saturday, 4 November 2017
.شرمین عبید بد کردار عورت
وطن فروش……….شرمین
عبید بد کردار عورتوں کی حرکات سے ملک بدنام ہو رہا ہے – اور ان سے چھٹکارہ
بہت مشکل ہے – کیونکه ان کی رسیاں حکومت کے ہاتھ میں ہیں – حکومت اور ان
جیسے تمام اداکار ملک بھر میں پھیلے ہوۓ ہیں – اور ان کی تعداد سینکڑوں
نہیں , ہزاروں میں ہے – عاصمہ جہانگیر(sold out ) , نجم سیٹھی , جگنو سیٹھی , پرویز
ہود بھائی , ماروی سرمد , ایک لمبی لسٹ ہے – ان سب کی منزل اکھنڈ بھارت
بنانا ہے – اور ہم لوگوں کو ان کی چالاکی سمجھ نہیں آ رہی – کیونکه یہ بہت
ہوشیاری سے ہم لوگوں کو زہر جلیبی میں ڈال کر دے رہے ہیں….
-عریب لاچار تیزاب سے متاثرہ چہرے والی عورت کے چہرے پے کھڑی اس بے غیرت
عورت کی شہرت اس نے جو اس غربت کی ماری عورت کے ساتھ جو کیا اللہ کرے اس کے
ساتھ وہ ہو جس کا اس نے کھبی سوچا بھی نہ ہو……
انصاف ہو رہا ہے
دو دن پہلے لندن کے ایک ہسپتال میں
عجیب واقعہ ہوا
میاں نواز شریف اس ہسپتال گئے تو ایک پاکستانی نژاد برطانوی ان پر الفاظ کے ذریعے حملہ آور ہوا ،اور اتنے شدید غصے میں نواز شریف پر چیختا رہا
گو نواز گو ان کے منہ پر کہا ،لووٹر اور جور جیسے الفاظ سے نوازہ ،عجیب
لوگ ہیں یہ کافر بھی ،کوئی دوسرے انسان کو دھکا بھی نہیں دے سکتا ،تھپڑ مارنا تو درکنار ،اور حیرت ہے جو لوگ پاکستان میں پورا ٹبر مروا دیتے ہیں ،وہاں بھیگی بلی بنے ہوتے ہیں ،اور سر جھکا کر بھاگنے کو ترجیح دیتے ہیں
یہاں پولیس مار مار کر بھرکس نکال دیتی ہے ،وہاں پولیس ٹس سے مس نہیں ہوتی
نواز شریف اسحاق ڈار ،احسن اقبال ،فضل الرحمن اور شرجیل میمن کی بھی اسی طرح پاکستانی حوصلہ افزائی کر چکے ہیں ،اور وہ بھی بھاگتے بنے ،
ایک شاپنگ سٹور میں کلثوم نواز اور حسن نواز کے ساتھ یہی ہوا
کچھ عرصہ پہلے ایک عربی نے نواز شریف کو اللہ کا دشمن کہہ کر مخاطب کیا
اور ہر دفعہ نواز شریف کو نہ غصہ آتا ہے ،نہ تھپڑ مارتے ہیں ،حتی کہ گالی تو
پنجابی ویسے ہی دیتے رہتے ہیں ،وہ بھی نہیں ،اور بھاگتے بنے
خانہ کعبہ کا مطاف ہو ،مسجد نبوی کا حرم ہو ،یا کوئی اور جگہ جہاں پاکستانی ہوں
وہ حکمرانوں کو دیکھتے ہی سیخ پا ہو جاتے ہیں ،احتجاج ہم نے پچھلے 50 سال سے دیکھے ہیں ،لیکن یہ ذلت آمیز احتجاج نہیں ،دیکھا ،نواز شریف کے پاس جتنی دولت ہے ،اس کی سات پشتیں لندن میں بیٹھ کر کھا سکتی ہیں ،،لیکن حوس ختم نہیں ہوتی ،اتنی بے عزتی ،ہر روز بے عزتی ،میڈیا ذلیل کرتا ہے ،ہر مسخرہ جگتیں مارتا ہے ،سوشل میڈیا پر گالیاں ،یار کوئی حد ہوتی ہے
انسان اتنا اقتدار کیلئے بھی گر سکتا ہے پہلی دفعہ دیکھا ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے ،آدم کا بیٹا بوڑھا ہوتا ہے اور اس میں دو چیزیں جوان ہوتی ہیں ،حرص علی المال و حرص علی العمر ،یعنی مال کی حرص اور لمبی عمر کی حرص ،اور فرمایا ،اگر کسی کے پاس سونے کی دو وادیاں بھی ہوں تو یہی خواہش کرے گا ،کاش ایک تیسری بھی ہوتی
اقامے نکل رہے ہیں ،گھر کی خادمہ ،اور سیلون حمام کے
یہ کالا دھن چھپانے کے سیلون ہیں ،سرعام دن دیہاڑے جھوٹ بولے جا رہے ہیں
ایک دوسرے کو نا صرف جور کہہ رہے ہیں بلکہ ثابت کر رہے ہیں
اور اب چور قانون بنا رہے ہیں کہ چور جب تک خود نہ مانے کہ وہ چور
اس پر چوری ثابت نہیں کی جا سکتی ،شہزادی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے ،وزیر اعظم لوگوں کے ووٹوں سے آتا ہے ،اسے کسی عدالت کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ، عدالتیں صرف ووٹروں کیلئے ہیں اور جیلیں بھی ،اور تھانے اور پولیس کے ڈنڈے مقدس ووٹروں کیلئے ہیں ،انکی کوئی عزت نہیں ،لیکن انکے ووٹ اتنا مقدس ہے کہ کسی عدالت میں اسے سزا نہیں ہو سکتی
عدالتیں ختم کرو ،نیب ختم کرو ،جیلیں ختم کرو ،اور موج کرو
قتل کرکے قاتل پہلی ہی پیشی پر وکٹری کا نشان بناتے با عزت بری ہو رہے ہیں
مقتول پہلی ہی پیشی پر عدالت یہ ثابت کرتی ہے واپس آ گیا ہے ،لواحقین جھوٹے ہیں
86 ارب ڈالر کہاں گئے ،کوئی پتہ نہیں ،ایک آدمی کیلئے جس کے ساتھ لندن میں بیٹے بھی نہیں ہوتے ،یہاں سو گاڑیوں کے پرٹوکول میں سارے وزیر ساتھ ہوتے ہیں
کلثوم کے ساتھ ایک انگریز لڑکی ساتھ ہسپتال میں ہوتی ہے ،کوئی بہو ،کوئی بیٹی ،بیٹا ،نواسہ ،نواسی ،پوتا پوتی ،خاوند ساتھ نہیں ہوتا ،جو ہسپتال جاتا ہے ساتھ کیمرے والا جاتا ہے ،بغیر کسٹم ادا کیئے گاڑیوں کے ساتھ دروازہ پکڑ کر شہزادی کہتی ہے کونسی کرپشن کی ہے ثابت کرو
اور پھر با عزت بری
اور پھر الحمد للہ ایک پیسے کی کرپشن ثابت نہیں ہوئی ،کسی حکمران پر
شرجیل میمن کھرب پتی ویسے ہی بن گیا ،عدالتوں کو ثبوت نہیں ملتے
وکیل جونہی کیس لیتے ہیں انکو ہارٹ اٹیک ہو جاتا ہے ،لندن چیک اپ
اسحاق ڈار 4 سال سے لڑکوں کی طرح چلتا تھا ،اب اچانک اسکی انجوگرافی
کی ضرورت ہے اور لندن کے ڈاکٹر فارغ نہیں ہیں جونہی فارغ ہونگے
کردی جائۓ گی ،ایک پیشی پر اسحاق بیمار ہوتا ہے دوسری پر وکیل اور
تیسری پر جج صاحب چھٹی پر ہوتے ہیں
انصاف ہو رہا ہے
عجیب واقعہ ہوا
میاں نواز شریف اس ہسپتال گئے تو ایک پاکستانی نژاد برطانوی ان پر الفاظ کے ذریعے حملہ آور ہوا ،اور اتنے شدید غصے میں نواز شریف پر چیختا رہا
گو نواز گو ان کے منہ پر کہا ،لووٹر اور جور جیسے الفاظ سے نوازہ ،عجیب
لوگ ہیں یہ کافر بھی ،کوئی دوسرے انسان کو دھکا بھی نہیں دے سکتا ،تھپڑ مارنا تو درکنار ،اور حیرت ہے جو لوگ پاکستان میں پورا ٹبر مروا دیتے ہیں ،وہاں بھیگی بلی بنے ہوتے ہیں ،اور سر جھکا کر بھاگنے کو ترجیح دیتے ہیں
یہاں پولیس مار مار کر بھرکس نکال دیتی ہے ،وہاں پولیس ٹس سے مس نہیں ہوتی
نواز شریف اسحاق ڈار ،احسن اقبال ،فضل الرحمن اور شرجیل میمن کی بھی اسی طرح پاکستانی حوصلہ افزائی کر چکے ہیں ،اور وہ بھی بھاگتے بنے ،
ایک شاپنگ سٹور میں کلثوم نواز اور حسن نواز کے ساتھ یہی ہوا
کچھ عرصہ پہلے ایک عربی نے نواز شریف کو اللہ کا دشمن کہہ کر مخاطب کیا
اور ہر دفعہ نواز شریف کو نہ غصہ آتا ہے ،نہ تھپڑ مارتے ہیں ،حتی کہ گالی تو
پنجابی ویسے ہی دیتے رہتے ہیں ،وہ بھی نہیں ،اور بھاگتے بنے
خانہ کعبہ کا مطاف ہو ،مسجد نبوی کا حرم ہو ،یا کوئی اور جگہ جہاں پاکستانی ہوں
وہ حکمرانوں کو دیکھتے ہی سیخ پا ہو جاتے ہیں ،احتجاج ہم نے پچھلے 50 سال سے دیکھے ہیں ،لیکن یہ ذلت آمیز احتجاج نہیں ،دیکھا ،نواز شریف کے پاس جتنی دولت ہے ،اس کی سات پشتیں لندن میں بیٹھ کر کھا سکتی ہیں ،،لیکن حوس ختم نہیں ہوتی ،اتنی بے عزتی ،ہر روز بے عزتی ،میڈیا ذلیل کرتا ہے ،ہر مسخرہ جگتیں مارتا ہے ،سوشل میڈیا پر گالیاں ،یار کوئی حد ہوتی ہے
انسان اتنا اقتدار کیلئے بھی گر سکتا ہے پہلی دفعہ دیکھا ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے ،آدم کا بیٹا بوڑھا ہوتا ہے اور اس میں دو چیزیں جوان ہوتی ہیں ،حرص علی المال و حرص علی العمر ،یعنی مال کی حرص اور لمبی عمر کی حرص ،اور فرمایا ،اگر کسی کے پاس سونے کی دو وادیاں بھی ہوں تو یہی خواہش کرے گا ،کاش ایک تیسری بھی ہوتی
اقامے نکل رہے ہیں ،گھر کی خادمہ ،اور سیلون حمام کے
یہ کالا دھن چھپانے کے سیلون ہیں ،سرعام دن دیہاڑے جھوٹ بولے جا رہے ہیں
ایک دوسرے کو نا صرف جور کہہ رہے ہیں بلکہ ثابت کر رہے ہیں
اور اب چور قانون بنا رہے ہیں کہ چور جب تک خود نہ مانے کہ وہ چور
اس پر چوری ثابت نہیں کی جا سکتی ،شہزادی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے ،وزیر اعظم لوگوں کے ووٹوں سے آتا ہے ،اسے کسی عدالت کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ، عدالتیں صرف ووٹروں کیلئے ہیں اور جیلیں بھی ،اور تھانے اور پولیس کے ڈنڈے مقدس ووٹروں کیلئے ہیں ،انکی کوئی عزت نہیں ،لیکن انکے ووٹ اتنا مقدس ہے کہ کسی عدالت میں اسے سزا نہیں ہو سکتی
عدالتیں ختم کرو ،نیب ختم کرو ،جیلیں ختم کرو ،اور موج کرو
قتل کرکے قاتل پہلی ہی پیشی پر وکٹری کا نشان بناتے با عزت بری ہو رہے ہیں
مقتول پہلی ہی پیشی پر عدالت یہ ثابت کرتی ہے واپس آ گیا ہے ،لواحقین جھوٹے ہیں
86 ارب ڈالر کہاں گئے ،کوئی پتہ نہیں ،ایک آدمی کیلئے جس کے ساتھ لندن میں بیٹے بھی نہیں ہوتے ،یہاں سو گاڑیوں کے پرٹوکول میں سارے وزیر ساتھ ہوتے ہیں
کلثوم کے ساتھ ایک انگریز لڑکی ساتھ ہسپتال میں ہوتی ہے ،کوئی بہو ،کوئی بیٹی ،بیٹا ،نواسہ ،نواسی ،پوتا پوتی ،خاوند ساتھ نہیں ہوتا ،جو ہسپتال جاتا ہے ساتھ کیمرے والا جاتا ہے ،بغیر کسٹم ادا کیئے گاڑیوں کے ساتھ دروازہ پکڑ کر شہزادی کہتی ہے کونسی کرپشن کی ہے ثابت کرو
اور پھر با عزت بری
اور پھر الحمد للہ ایک پیسے کی کرپشن ثابت نہیں ہوئی ،کسی حکمران پر
شرجیل میمن کھرب پتی ویسے ہی بن گیا ،عدالتوں کو ثبوت نہیں ملتے
وکیل جونہی کیس لیتے ہیں انکو ہارٹ اٹیک ہو جاتا ہے ،لندن چیک اپ
اسحاق ڈار 4 سال سے لڑکوں کی طرح چلتا تھا ،اب اچانک اسکی انجوگرافی
کی ضرورت ہے اور لندن کے ڈاکٹر فارغ نہیں ہیں جونہی فارغ ہونگے
کردی جائۓ گی ،ایک پیشی پر اسحاق بیمار ہوتا ہے دوسری پر وکیل اور
تیسری پر جج صاحب چھٹی پر ہوتے ہیں
انصاف ہو رہا ہے
Subscribe to:
Posts (Atom)