بصیرت سے عاری باطل پرست ملا
قیام پاکستان کے وقت جب ہندو اور مسلمان آمنے سامنے تھے تو مولانا فضل الرحمن کے اکابرین ہندوؤں کے طرف دار تھے۔
ایوب خان کےسنہری دور میں یہ ایوب خان کے بڑے مخالفین میں سے تھے۔
بھٹو جیسے سیکولر فاشسٹ کے خلاف اسلامی تحریک منظم ہوئی تو اس تحریک کا ساتھ دینے کے بجائے انہوں نے نعرہ لگایا کہ ” ایک مودودی سو یہودی ” اور پھر بھٹو کی سوشلزم کو تقویت دینے کے لیے فتوی داغا کہ ” اسلامی سوشلزم جائز ہے ” نعوذ بااللہ
اسی بھٹو کی بیٹی نے جنرل ضیاء جیسے کٹر اسلامی ذہن رکھنے والے جرنیل کے خلاف ایم آر ڈی نامی تحریک منظم کی تو فوراً اس کے جھنڈے تلے کھڑے ہوگئے۔
روس کے خلاف تقرییاً تمام عالم اسلام جہاد کے لیے امڈ آیا تو اس جہاد کو ” ڈالر جہاد” قرار دے کر رد کر دیا۔ آج بھی جے یو آئی کے مولانا شیرانی اس کو "ڈالر جہاد” قرار دیتے ہیں۔
فضل الرحمن کو پڑھانے کے لیے دارلعلوم دیوبند کے بجائے جامعہ الازہر جیسے نیم سیکولر ادارے کا انتخاب کیا گیا اور شائد وہیں پر موصوف نے طاغوت وقت کے ساتھ نبھاہ کرنے کا ہنر مزید پختہ کیا۔
1988 میں جب دائیں اور بائیں بازو کی جماعتیں ایک دوسرے کے مقابل آئیں تو مولانا بے نظیر کی کابینہ میں پائے گئے۔
بے نظیر کی حکومت کو شرعی طور پر ناجائز کہا لیکن جب ایران سے ڈیزل درآمد کرنے اور افغانستان سپلائی کرنے کے پرمٹ ملے تو اسی کے قدموں میں بیٹھ گئے۔
1993 جماعت اسلامی کی بے نظیر کے خلاف مہم کو غیر موثر کردیا۔
2002ء میں انڈیا کے دورے میں مسئلہ کشمیر اٹھانے کے بجائے کشمیر کے جہاد کو دہشت گردی قرار دے دیا اور مسئلہ کشمیر کو ہندو مسلم قومیت کا مسئلہ قرار دینے کے بجائے علاقائی تنازع قرار دے ڈلا۔
کشمیر کمیٹی کے چیرمین بنے تو انڈیا نے کشمیری مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کردی، اقوام متحدہ نے اسکو متنازعہ ایشوز کی فہرست سے نکال دیا، پاکستانی میڈیا سے یہ مسئلہ ہی غائب ہوگیا، انڈیا نے کشمیر میں ہندوؤں کی آباد کاری شروع کر دی لیکن مولانا جن کا کام ان سب معاملات پر آواز اٹھانا تھا بلکل خاموش رہے۔
لال مسجد والے واقعے میں کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے عین موقعے پر لندن تشریف لے گئے۔
جب ٹی ٹی پی اور پاک فوج آمنے سامنے آئی تو پاک فوج کو خوب نشانے پر رکھا اور ڈٹ کر مخالفت کی البتہ ٹی ٹی پی کے ہلاک شدگان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی اور ان کی شہادت کے فتوے صادر فرماتے رہے۔
جب زرداری جیسا کرپٹ سیکولر پاکستان پر مسلط ہوا تو یہ ملا اسکے خلاف کھڑے ہونے کے بجائے اس کا اتحادی بن گیا۔
جب پوری قوم الطاف حسین کو گالیاں دے رہی تھی تو مولانا فضل الرحمن اس کو حکومتی اتحاد میں شامل کرنے کے لیے منا رہے تھے۔
جب پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اسفند یار ولی جیسی لبرل قوتیں بکھر رہی ہیں تو مولانا ان کو سمیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جب پانامہ والے معاملے میں پوری قوم نواز شریف کے احتساب کا مطالبہ کر رہی تھی تو مولانا ڈٹ کر نواز شریف کے ساتھ کھڑے تھے۔
جب پوری قوم فاٹا کا کے پی کے میں انضمام چاہ رہی تھی تو مولانا اس کے خلاف تھے۔
آج جب پوری قوم افغانیوں کو پاکستان سے نکالنے پر متفق ہے تو فضل الرحمن محمود اچکزئی اور اسفند یارولی کے ہم زبان بن کر ان کو روکنے پر اصرار کر رہے ہیں۔
میرے ایک دوست نے کہا تھا کہ ” باطل کو شناخت کرنا ہو تو دیکھو کہ مولانا فضل الرحمن کہاں کھڑے ہیں۔ جہاں نظر آئیں سمجھو وہ باطل ہے”
اپنے ہی مدارس میں تیار کیے گئے کئی لاکھ علماء انکی اندھا دھند تائید کرتے ہیں اور اسی تائید کو ہی مولانا کے حق ہونے کی دلیل بھی بنا لیتے ہیں کہ ” فضل الرحمن غلط ہوتا تو لاکھوں علماء اسکی پیروی نہ کرتے "
قوم پرستی کے جھنڈے تلے پاکستان بھر کے لبرلز کھڑے ہوچکے ہیں تو علماء ہی ان کے اس عصبیت کے جائز ہونے کے فتوے پیش کر رہے ہیں۔
پورے پاکستان کی ضرورت کالا باغ ڈیم کے خلاف ہیں اور مزے دار بات یہ ہے کہ خود ہی اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ” ہمیں علم نہیں کہ اس کا کیا نقصان ہے۔ ہم نے تو اوروں کو دیکھ دیکھ کر مخالفت شروع کی تھی "
اللہ کی پناہ ان بے بصیرت، بے عقل اور باطل پرست علماء سے!
قیام پاکستان کے وقت جب ہندو اور مسلمان آمنے سامنے تھے تو مولانا فضل الرحمن کے اکابرین ہندوؤں کے طرف دار تھے۔
ایوب خان کےسنہری دور میں یہ ایوب خان کے بڑے مخالفین میں سے تھے۔
بھٹو جیسے سیکولر فاشسٹ کے خلاف اسلامی تحریک منظم ہوئی تو اس تحریک کا ساتھ دینے کے بجائے انہوں نے نعرہ لگایا کہ ” ایک مودودی سو یہودی ” اور پھر بھٹو کی سوشلزم کو تقویت دینے کے لیے فتوی داغا کہ ” اسلامی سوشلزم جائز ہے ” نعوذ بااللہ
اسی بھٹو کی بیٹی نے جنرل ضیاء جیسے کٹر اسلامی ذہن رکھنے والے جرنیل کے خلاف ایم آر ڈی نامی تحریک منظم کی تو فوراً اس کے جھنڈے تلے کھڑے ہوگئے۔
روس کے خلاف تقرییاً تمام عالم اسلام جہاد کے لیے امڈ آیا تو اس جہاد کو ” ڈالر جہاد” قرار دے کر رد کر دیا۔ آج بھی جے یو آئی کے مولانا شیرانی اس کو "ڈالر جہاد” قرار دیتے ہیں۔
فضل الرحمن کو پڑھانے کے لیے دارلعلوم دیوبند کے بجائے جامعہ الازہر جیسے نیم سیکولر ادارے کا انتخاب کیا گیا اور شائد وہیں پر موصوف نے طاغوت وقت کے ساتھ نبھاہ کرنے کا ہنر مزید پختہ کیا۔
1988 میں جب دائیں اور بائیں بازو کی جماعتیں ایک دوسرے کے مقابل آئیں تو مولانا بے نظیر کی کابینہ میں پائے گئے۔
بے نظیر کی حکومت کو شرعی طور پر ناجائز کہا لیکن جب ایران سے ڈیزل درآمد کرنے اور افغانستان سپلائی کرنے کے پرمٹ ملے تو اسی کے قدموں میں بیٹھ گئے۔
1993 جماعت اسلامی کی بے نظیر کے خلاف مہم کو غیر موثر کردیا۔
2002ء میں انڈیا کے دورے میں مسئلہ کشمیر اٹھانے کے بجائے کشمیر کے جہاد کو دہشت گردی قرار دے دیا اور مسئلہ کشمیر کو ہندو مسلم قومیت کا مسئلہ قرار دینے کے بجائے علاقائی تنازع قرار دے ڈلا۔
کشمیر کمیٹی کے چیرمین بنے تو انڈیا نے کشمیری مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کردی، اقوام متحدہ نے اسکو متنازعہ ایشوز کی فہرست سے نکال دیا، پاکستانی میڈیا سے یہ مسئلہ ہی غائب ہوگیا، انڈیا نے کشمیر میں ہندوؤں کی آباد کاری شروع کر دی لیکن مولانا جن کا کام ان سب معاملات پر آواز اٹھانا تھا بلکل خاموش رہے۔
لال مسجد والے واقعے میں کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے عین موقعے پر لندن تشریف لے گئے۔
جب ٹی ٹی پی اور پاک فوج آمنے سامنے آئی تو پاک فوج کو خوب نشانے پر رکھا اور ڈٹ کر مخالفت کی البتہ ٹی ٹی پی کے ہلاک شدگان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی اور ان کی شہادت کے فتوے صادر فرماتے رہے۔
جب زرداری جیسا کرپٹ سیکولر پاکستان پر مسلط ہوا تو یہ ملا اسکے خلاف کھڑے ہونے کے بجائے اس کا اتحادی بن گیا۔
جب پوری قوم الطاف حسین کو گالیاں دے رہی تھی تو مولانا فضل الرحمن اس کو حکومتی اتحاد میں شامل کرنے کے لیے منا رہے تھے۔
جب پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اسفند یار ولی جیسی لبرل قوتیں بکھر رہی ہیں تو مولانا ان کو سمیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جب پانامہ والے معاملے میں پوری قوم نواز شریف کے احتساب کا مطالبہ کر رہی تھی تو مولانا ڈٹ کر نواز شریف کے ساتھ کھڑے تھے۔
جب پوری قوم فاٹا کا کے پی کے میں انضمام چاہ رہی تھی تو مولانا اس کے خلاف تھے۔
آج جب پوری قوم افغانیوں کو پاکستان سے نکالنے پر متفق ہے تو فضل الرحمن محمود اچکزئی اور اسفند یارولی کے ہم زبان بن کر ان کو روکنے پر اصرار کر رہے ہیں۔
میرے ایک دوست نے کہا تھا کہ ” باطل کو شناخت کرنا ہو تو دیکھو کہ مولانا فضل الرحمن کہاں کھڑے ہیں۔ جہاں نظر آئیں سمجھو وہ باطل ہے”
اپنے ہی مدارس میں تیار کیے گئے کئی لاکھ علماء انکی اندھا دھند تائید کرتے ہیں اور اسی تائید کو ہی مولانا کے حق ہونے کی دلیل بھی بنا لیتے ہیں کہ ” فضل الرحمن غلط ہوتا تو لاکھوں علماء اسکی پیروی نہ کرتے "
قوم پرستی کے جھنڈے تلے پاکستان بھر کے لبرلز کھڑے ہوچکے ہیں تو علماء ہی ان کے اس عصبیت کے جائز ہونے کے فتوے پیش کر رہے ہیں۔
پورے پاکستان کی ضرورت کالا باغ ڈیم کے خلاف ہیں اور مزے دار بات یہ ہے کہ خود ہی اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ” ہمیں علم نہیں کہ اس کا کیا نقصان ہے۔ ہم نے تو اوروں کو دیکھ دیکھ کر مخالفت شروع کی تھی "
اللہ کی پناہ ان بے بصیرت، بے عقل اور باطل پرست علماء سے!
No comments:
Post a Comment