زینب اور ن لیگ ۔
300 بچوں کے ساتھ زیادتی
زینب سے پہلے قصور میں 300 بچوں کے ساتھ زیادتی اور انکی ویڈیوز بنا کر عالمی مارکیٹ میں بیچنے کا انکشاف ہوا۔
بچوں کی نشاندہی پر کئی مجرم پکڑے گئے جن کو مقامی ن لیگی قیادت کے دباؤ پر چھوڑ دیا گیا۔
متاثرہ لوگوں نے الزام لگایا کہ واقعے میں پولیس اور مقامی ایم پی اے ملک احمد سعید بھی ملوث ہیں جنہوں نے بچوں کی ویڈیوز بنا کر ان کو عالمی مارکیٹ میں کئی ملین ڈالرز کا بیچا۔
یہ کیس منطقی انجام تک نہیں پہنچایا گیا۔
11 بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل
300 بچوں کے اس واقعے کے بعد 5 سے 8 سال کی بچیاں غائب ہونے لگیں جنکی لاشیں چند دن بعد مل جاتیں۔ زینب 12 ویں بچی تھی۔
ملنے والی بچیوں کا ڈی این اے کروایا گیا تو کم از کم 6 بچیوں میں ایک ہی ڈی این اے کا سیمپل ملا۔
ڈی این اے کی اس رپورٹ کو ن لیگ نے پراسرار انداز میں دبا لیا اور پچھلے ایک سال سے اس پر مزید کام نہیں کیا گیا۔
کچھ لوگوں کا دعوی ہے کہ اس رپورٹ کو مقامی ن لیگی نمائندوں کے ڈی این اے سے ملایا جائے تو 24 گھنٹوں میں زینب کا قاتل پکڑا جائیگا۔
( بشرط کہ اس رپورٹ کو بھی تبدیل نہ کر دیا گیا ہو)
زینب کا کیس اور ن لیگ کی نئی وردی والی پولیس
زینب کی گمشدگی پر اس کے رشتے دار تھانے رپورٹ درج کروانے گئے تو ایس ایچ او صاحب نے موسم کی مناسبت سے ان سے مالٹے طلب کیے۔
پانچ دن بعد جب زینب کی لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملی تو ڈی پی او صاحب نے زینب کی لاش کے بدلے اس کے چچا سے 10 ہزار روپے طلب کیے اور " بدبو " کی وجہ سے گاڑی سے باہر نہ آنے کا فیصلہ کیا۔
جب واقعہ سوشل میڈیا اور میڈیا پر آیا تو ایک ایسا تفتیشی مقرر کیا گیا جو ایک ٹی وی پروگرام میں 25 ہزار روپے رشوت لیتے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔
قصور کے متاثرین احتجاج کرنے سڑکوں پر نکل آئے تو پولیس نے ان پر سیدھی گولیاں چلا کر دو بندے مزید پھڑکا دئیے۔
ن لیگ نے ملوث ڈی پی او کو سزا کے طور پر " او ایس ڈی " بنا دیا یعنی آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی۔ (جو غیر معینہ مدت کے لیے کام کیے بغیر تنخواہ لیتا ہے)
پولیس نے ملزم کا غلط خاکہ شائع کیا۔ سی سی ٹی وی میں نظر آنے والی فوٹو اور پولیس کے خاکے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اس معاملے میں پولیس کیوں عوام کو جان بوجھ کر گمراہ کرنا چاہتی ہے؟
زینب کے قتل پر لیگی راہنماؤوں کا ردعمل
رانا ثناء اللہ نے فرمایا " بچی مجرم کیساتھ خوشی خوشی گئی ہے" ۔۔۔۔۔۔ " والدین کو اپنے بچوں پر نظر رکھنی چاہیئے ورنہ بچے ایسے واقعات کا نشانہ بن سکتے ہیں"
خیال رہے کہ جب 300 بچوں کا سکینڈل آیا تھا تب اسی رانا ثناءاللہ کا بیان آیا تھا کہ " قصور والا واقعہ کوئی بڑا واقعہ نہیں۔ ایسے واقعات روز ہوتے رہتے ہیں"
طلال چودھری نے فرمایا کہ " قصور جیسے واقعات تو ہر صوبے میں ہوتے رہتے ہیں سیاسی رنگ دینا زیادتی ہے "
مائزہ حمید نے فرمایا کہ " یہ اسلام یا کسی دوسرے مذہب میں نہیں کہ اپنے بچوں کو کسی سہارے کے بغیر چھوڑیں "
ن لیگ کی ہی عائشہ گلالئی کے مطابق " زینب کے قتل کا ذمہ دار عمران خان ہے"
قصور اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ن لیگ کے کم از کم 15 کے قریب ایم این ایز اور ایم پی ایز ہیں جن میں سے کوئی ایک بھی زینب کا پوچھنے نہیں آیا۔
خادم اعلی رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح چھپ کر زینب کے والدین سے ملے اور تصویریں نکلوا کر چل دئیے۔
ن لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم
مریم نواز کی سوشل میڈیا ٹیم کے مطابق ۔۔۔۔۔
" زینب کا والد شیطان ہے"
" زینب کا جنازہ پڑھانے کےلیے قادری کو بلانا اس بات کی علامت ہے کہ واقعہ درحقیقت حکومت کے خلاف سازش ہے "
" مشرف دور میں جن خواتین کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں انکا کیا ہوا؟"
" ڈی آئی خان کے واقعے کے ذمہ داروں کو کب سزا ملے گی؟"
وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔
اسی طرح ن لیگ کے ترجمان چینل جیو نے بھی واقعے کا ذمہ دار والدین کو ہی قرار دیا ہے۔
صرف چند ماہ پہلے نواز شریف نے اپنے استقبال کے لیے آنے والے ایک بچے کو اپنی پروٹوکول کی گاڑی تلے کچل دیا تھا۔
پھر گاڑی صرف اتنی دیر رکی کہ بچے کو سڑک سے ہٹایا جا سکے تاکہ دوبارہ گزرنے پر گاڑی کے ٹائر خراب نہ ہوں۔
ان درجنوں گاڑیوں اور ایمبولینسوں میں سے کسی ایک نے بھی رکنے کی زحمت نہیں کی۔ یاد ہے کسی کو ؟؟؟؟؟ اگر نہیں تو زینب کو بھی آپ بھول جائنگے۔
قصور والے واقعے میں جو ن لیگ کو بے قصور سمجھتے ہیں وہ زندہ نہیں ہیں!
زینب سے پہلے قصور میں 300 بچوں کے ساتھ زیادتی اور انکی ویڈیوز بنا کر عالمی مارکیٹ میں بیچنے کا انکشاف ہوا۔
بچوں کی نشاندہی پر کئی مجرم پکڑے گئے جن کو مقامی ن لیگی قیادت کے دباؤ پر چھوڑ دیا گیا۔
متاثرہ لوگوں نے الزام لگایا کہ واقعے میں پولیس اور مقامی ایم پی اے ملک احمد سعید بھی ملوث ہیں جنہوں نے بچوں کی ویڈیوز بنا کر ان کو عالمی مارکیٹ میں کئی ملین ڈالرز کا بیچا۔
یہ کیس منطقی انجام تک نہیں پہنچایا گیا۔
11 بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل
300 بچوں کے اس واقعے کے بعد 5 سے 8 سال کی بچیاں غائب ہونے لگیں جنکی لاشیں چند دن بعد مل جاتیں۔ زینب 12 ویں بچی تھی۔
ملنے والی بچیوں کا ڈی این اے کروایا گیا تو کم از کم 6 بچیوں میں ایک ہی ڈی این اے کا سیمپل ملا۔
ڈی این اے کی اس رپورٹ کو ن لیگ نے پراسرار انداز میں دبا لیا اور پچھلے ایک سال سے اس پر مزید کام نہیں کیا گیا۔
کچھ لوگوں کا دعوی ہے کہ اس رپورٹ کو مقامی ن لیگی نمائندوں کے ڈی این اے سے ملایا جائے تو 24 گھنٹوں میں زینب کا قاتل پکڑا جائیگا۔
( بشرط کہ اس رپورٹ کو بھی تبدیل نہ کر دیا گیا ہو)
زینب کا کیس اور ن لیگ کی نئی وردی والی پولیس
زینب کی گمشدگی پر اس کے رشتے دار تھانے رپورٹ درج کروانے گئے تو ایس ایچ او صاحب نے موسم کی مناسبت سے ان سے مالٹے طلب کیے۔
پانچ دن بعد جب زینب کی لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملی تو ڈی پی او صاحب نے زینب کی لاش کے بدلے اس کے چچا سے 10 ہزار روپے طلب کیے اور " بدبو " کی وجہ سے گاڑی سے باہر نہ آنے کا فیصلہ کیا۔
جب واقعہ سوشل میڈیا اور میڈیا پر آیا تو ایک ایسا تفتیشی مقرر کیا گیا جو ایک ٹی وی پروگرام میں 25 ہزار روپے رشوت لیتے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔
قصور کے متاثرین احتجاج کرنے سڑکوں پر نکل آئے تو پولیس نے ان پر سیدھی گولیاں چلا کر دو بندے مزید پھڑکا دئیے۔
ن لیگ نے ملوث ڈی پی او کو سزا کے طور پر " او ایس ڈی " بنا دیا یعنی آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی۔ (جو غیر معینہ مدت کے لیے کام کیے بغیر تنخواہ لیتا ہے)
پولیس نے ملزم کا غلط خاکہ شائع کیا۔ سی سی ٹی وی میں نظر آنے والی فوٹو اور پولیس کے خاکے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اس معاملے میں پولیس کیوں عوام کو جان بوجھ کر گمراہ کرنا چاہتی ہے؟
زینب کے قتل پر لیگی راہنماؤوں کا ردعمل
رانا ثناء اللہ نے فرمایا " بچی مجرم کیساتھ خوشی خوشی گئی ہے" ۔۔۔۔۔۔ " والدین کو اپنے بچوں پر نظر رکھنی چاہیئے ورنہ بچے ایسے واقعات کا نشانہ بن سکتے ہیں"
خیال رہے کہ جب 300 بچوں کا سکینڈل آیا تھا تب اسی رانا ثناءاللہ کا بیان آیا تھا کہ " قصور والا واقعہ کوئی بڑا واقعہ نہیں۔ ایسے واقعات روز ہوتے رہتے ہیں"
طلال چودھری نے فرمایا کہ " قصور جیسے واقعات تو ہر صوبے میں ہوتے رہتے ہیں سیاسی رنگ دینا زیادتی ہے "
مائزہ حمید نے فرمایا کہ " یہ اسلام یا کسی دوسرے مذہب میں نہیں کہ اپنے بچوں کو کسی سہارے کے بغیر چھوڑیں "
ن لیگ کی ہی عائشہ گلالئی کے مطابق " زینب کے قتل کا ذمہ دار عمران خان ہے"
قصور اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ن لیگ کے کم از کم 15 کے قریب ایم این ایز اور ایم پی ایز ہیں جن میں سے کوئی ایک بھی زینب کا پوچھنے نہیں آیا۔
خادم اعلی رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح چھپ کر زینب کے والدین سے ملے اور تصویریں نکلوا کر چل دئیے۔
ن لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم
مریم نواز کی سوشل میڈیا ٹیم کے مطابق ۔۔۔۔۔
" زینب کا والد شیطان ہے"
" زینب کا جنازہ پڑھانے کےلیے قادری کو بلانا اس بات کی علامت ہے کہ واقعہ درحقیقت حکومت کے خلاف سازش ہے "
" مشرف دور میں جن خواتین کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں انکا کیا ہوا؟"
" ڈی آئی خان کے واقعے کے ذمہ داروں کو کب سزا ملے گی؟"
وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔
اسی طرح ن لیگ کے ترجمان چینل جیو نے بھی واقعے کا ذمہ دار والدین کو ہی قرار دیا ہے۔
صرف چند ماہ پہلے نواز شریف نے اپنے استقبال کے لیے آنے والے ایک بچے کو اپنی پروٹوکول کی گاڑی تلے کچل دیا تھا۔
پھر گاڑی صرف اتنی دیر رکی کہ بچے کو سڑک سے ہٹایا جا سکے تاکہ دوبارہ گزرنے پر گاڑی کے ٹائر خراب نہ ہوں۔
ان درجنوں گاڑیوں اور ایمبولینسوں میں سے کسی ایک نے بھی رکنے کی زحمت نہیں کی۔ یاد ہے کسی کو ؟؟؟؟؟ اگر نہیں تو زینب کو بھی آپ بھول جائنگے۔
قصور والے واقعے میں جو ن لیگ کو بے قصور سمجھتے ہیں وہ زندہ نہیں ہیں!
No comments:
Post a Comment