Wednesday 1 June 2016

موچی کا پہلا سبق اور اسلامی ریاست۔


موچی کا پہلا سبق اور اسلامی ریاست۔


آپ جاوید چوہدری کی مثال لے لیجئے۔یہ ایک صحافی ہیں، کالم نگار ہیں، اپنے خیال میں نمبرون ہیں،مہاتماخود ہیں، ان میں گیارہ بری عادات ہیں اور ہر ایک دوسری سے بڑھ کر بری ہے مگر نو نمبر سب سے بری ہے۔اور وہ ہے ہر بات میں منہ مارنا اور بغیر پوری معلومات کے کسی بھی موضوع پر لکھ دینا۔یہ انیس سو پونے ننانوے میں اسپین گئے۔وہاں ایک مشہور شہر ہے۔ اس شہر میں ایک مشہور موچی تھا جس سے جوتے مرمت کرانے کیلئے بادشاہ کو بھی ہفتوں پہلے ٹائم لینا پڑتا تھا۔چمڑے کو ایسی مہارت سے کاٹنا کہ کٹنے کا گمان ہی نہ ہو اور اس طرح سی دینا کہ ٹانکہ نظر بھی نہ آئے یہ اسکا فن تھا۔چوہدری صاحب اس سے ملنے پہنچ گئے۔انہیں ایسی شخصیات سے ملنے اورکبهی کبهار بغیر ملے ہی ملاقات کے قصے لکھنے کا بہت شوق ہے۔ایک ماہ بعد کا وقت ملا ۔یہ وقت سے ایک منٹ پہلے پہنچ گئے۔قبل اسکے کہ یہ اس سے کوئی سوال کرتے موچی بولا۔
مسٹر چوہدری میں آپکو اچھی طرح جانتا ہوں اور یہ سارا کمال تھا ویکیپیڈیا کا۔ویکیپیڈیا بھی عجیب چیز ہے اگر آپکا بلڈپریشر ہائی ہونے اور منہ سے گالیاں چھوٹ پڑنے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں آپکو ابھی بتاتا کہ کتنی عجیب چیز ہے۔واپس موچی کی طرف آتے ہیں۔موچی بولا مسٹر چوہدری آپ مجھ سے میرے پیشے کے بارے میں سوال نہ کیجئے گا کیونکہ میں آج ہی اسے ترک کرچکا ہوں۔۔
پھر اب آپ کیا کریں گے؟
میں نے ہارٹ سرجری کا ہسپتال بنایا ہے آج اسکا افتتاح ہے۔۔
آپ موچی ہیں اور ہارٹ سرجری کریں گے؟۔۔۔
ہاں!!!
اور میں آپکو یہی گر بتانا چاہتا ہوں کہ ایک کام میں مہارت حاصل کرکے مشہور ہوجائو پھر جو کام چاہو کرو۔اب میں ہارٹ سرجری کروں گا۔ایسے کاٹوں گا کہ کٹنے کا پتا نہ چلے اور ایسا سیوں گا کہ دیکھنے والے کو بھی پتا نہ چلے -رہا میڈیکلی کام تو اسکے لئے ماہر ڈاکٹر ملازم رکھ لوں گا۔۔بس کانفیڈینس ہی سب کچھ ہوتا ہے۔
چوہدری صاحب نے موچی کو استاد مانا اسکے ہاتھ پر بوسہ دیا اور یہ سبق پلے باندھ لیا۔واپس آکر لکھنے کی مہارت حاصل کی۔معلومات جمع کرنے والے بندے ملازم رکھے اور دنیا کے ہر موضوع پر ماہرانہ رائے زنی شروع کردی۔سیاست تاریخ سائنس فلسفہ مذہب صوفیت معیشت ہر موضوع پر آپریشن کا ہسپتال کھول لیا اور نتیجہ آپکے سامنے ہے۔اور اس ساری کامیابی کے پیچھے ہے وہی کانفیڈنس۔
جھوٹ بولا ہےتواس پربھی رہوقائم ظفر
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئے

اگر کوئی "موچی" اپنے عظیم تجربات کو بروئے کار لاتے ہوئے ہارٹ سرجری کرے تو یہی کچھ کرے گا جو جاوید چوہدری صاحب نے آج کے کالم میں تاریخ اسلام کے ساتھ کیا ہے۔۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے "ریاست" قائم نہیں فرمائی۔۔۔

کمال ہے۔
پھر یہ حدود،معاہدے،جزیہ،فتوحات قوانین،بیت المال وغیرہ کس حیثیت سے؟
"ریاست بیورو کریسی قائم کرتی ہے وہ نہیں کی گئی"۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور بعد میں معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کو گورنر اور قاضی کی حیثیت سے یمن بھیجنا اور فیصلہ سازی میں رائے کا اختیار دینا، ہر غزوے کے سفر کے موقع پر مدینہ میں عامل مقرر کرنا ،فتح مکہ کے بعد وہاں سے نکلتے ہوئے عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کو گورنرمتعین کرنا یہ سب کیا تھا؟
عالمی طاقتوں کی طرف مراسلہ نگاری،انہیں دین اسلام میں داخلے کی دعوت،جزیہ کا حکم اور اسلم تسلم کی تہدید؟۔
اچھا ایسا کرتے ہیں آپکی مان لیتے ہیں کہ ریاست نہیں تھی تو چلئے اگلے کالم میں لکھئے
جہاد قیام ریاست کے بغیر جائز ہے دینی معاشرہ خود اسکا انتظام کرے۔
حدود قیام ریاست کے بغیر نافذ کی جاسکتی ہیں۔معاشرہ خود نفاذ کی ترتیب طے کرے۔
معاہدے اور عالمی معاملات طے کرنا ریاست کا کام نہیں کوئی معاشرہ بھی کرسکتا ہے۔
بیت المال ریاست کی ذمہ داری نہیں کوئی معاشرہ اپنے طور پر اسکا انتظام کرلے اور اسے چلائے۔
موت آجائے گی مگر انکا قلم یہ الفاظ نہیں لکھ سکے گا۔لیکن اس تضاد بیانی سے انکے کانفیڈینس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور وہ آئندہ بھی یہ کام کرتے رہیں گے کیونکہ انہیں موچی استاد کا سبق یاد ہے
"کانفیڈنس ہی سب کچھ ہوتا ہے"--
موچی کے اگلے دو سبق کیا تهے یہ آپکو بعد میں بتائونگا..

(سمجھ نہ آنے کی صورت میں یا تو ڈاکٹر سے رجوع کریں یا آج کا زیرو پوائنٹ پڑھ لیں)

الشیخ طلحة السيف کے گوہر بار قلم سے..

No comments:

Post a Comment