Sunday, 14 January 2018

قصور واقعہ

 " کرائے کے لبرلز" اور فسادی میڈیا
 
 قصور واقعہ کی آڑ میں "' کرائے کے لبرل' اور فسادی میڈیا ایک بار پھر اپنی اصلیت دکھا رہے ہیں۔
افسوس، افسوس۔۔۔۔ معاشرے کی تباہی اور اخلاقی دیوالیہ پن میں ان کے گھناؤنے کردار اور کھیل پر اب بات ہو گی اور کھل کر ہو گی۔
یہ لوگ تصویر کا وہی رخ دکھاتے ہیں جو ان کو سُوٹ کرے۔۔۔۔ جو ان کے ایجنڈے کو تقویت دے۔۔۔۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کچھ سال قبل ایک جعلی ویڈیو چلائی گئی جس میں دکھایا گیا کہ سوات یا فاٹا میں کسی جگہ پر 'غیرت' سے منسلک کسی واقعہ میں ایک لڑکی کو بھرے مجمعے میں کوڑے لگائے جا رہے ہیں۔۔۔۔ پاکستانی میڈیا نے کئی روز مسلسل اس کو دکھایا اور مغربی میڈیا بار بار یہ کلپ چلا کر چیخ رہا تھا کہ دیکھو اگر ان دہشت گردوں کو نہ روکا گیا تو یہ اسلام آباد پر قبضہ کر لیں گے۔۔۔ یہ پاکستان میں شریعت نافذ کر دیں گے۔۔۔۔ پاکستانی پارلیمنٹرینز خواتین و مرد حضرات کہہ رہے تھے کہ ہمارے سر شرم سے جھک گئے اب ہم دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے۔۔۔۔۔یہی پاکستانی میڈیا ہے جو طالبان کا نشانہ بننے والی ملالہ کی سٹوری تو ہائی لائٹ کرتا ہے لیکن ڈرون حملے کا نشانہ بننے والے نبیلہ کے خاندان کو اہمیت نہیں دیتا۔ اسی میڈیا نے ملالہ کے واقعہ کی آڑ میں دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ پاکستان میں تعلیم کی راہ میں اصل رکاوٹ طالبان ہی ہیں۔۔۔۔حالانکہ طالبان نے تو اسی کی دہائی میں افغان سوویت وار کے بعد یہاں قدم جمانا شروع کئے جبکہ پاکستان میں تعلیم اور ہر طرح کے سماجی ارتقاء کی راہ میں روز اول سے وڈیرہ شاہی، پنچائیتیں، نوابی کلچر، یونیفارم والوں کے سیاسی عزائم اور کچھ دیگر عوامل کارفرما ہیں۔۔۔۔ اسی میڈیا نے قندیل بلوچ کو عورتوں کی آذادی کا استعارہ بنا کر پیش کیا۔
قصور سانحہ پر بھی اصل معاملے کو لپیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عوام دشمن مفلوج سسٹم کی مکروہات پر بات کرنے کی بجائے بچوں پر جنسی تشدد اور زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا سارا ملبہ والدین پر ڈال کر یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس کا اصل سبب بچوں کا جنسی تعلیم اور آگاہی سے نابلد ہونا ہے۔۔۔۔۔
سوال یہ ہے کہ اگر گھروں یا سکولوں میں جنسی تعلیم کو متعارف کرا بھی دیا جائے تو معاشرے سے جرائم کی بیخ کنی کرنے والے نظام کی عدم موجودگی میں اس طرح کے اقدامات کہاں تک موثر ثابت ہو سکتے ہیں؟
درحقیقت یہ ناہموار معاشرہ عام آدمی کے لئے رہنے کے قابل ہی نہیں ہے۔ یہاں طبقہ اشرافیہ کی الگ دنیا ہے۔۔۔ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ کسی حکمران، پارلیمنٹرین، جج ، بیورو کریٹ وغیرہ کا بچہ قصور کی ننھی زینب کی طرح ظلم کا شکار ہوا ہو۔۔۔۔۔ یہ مخلوق تو سیکیورٹی کے حصار میں رہتی ہے جبکہ عام آدمی لاقانونیت اور ظلم کا شکار ہے ۔سماجی برائیوں اور جرائم کی پرورش میں معاشرے کے دو ستونوں میڈیا اور پولیس کا کردار انتہائی بھیانک شکل اختیار کر چکا ہے۔۔۔۔عام آدمی کو یہ بات سمجھنی ہو گی۔

زینب اور ن لیگ






زینب اور ن لیگ ۔

300 بچوں کے ساتھ زیادتی

زینب سے پہلے قصور میں 300 بچوں کے ساتھ زیادتی اور انکی ویڈیوز بنا کر عالمی مارکیٹ میں بیچنے کا انکشاف ہوا۔
بچوں کی نشاندہی پر کئی مجرم پکڑے گئے جن کو مقامی ن لیگی قیادت کے دباؤ پر چھوڑ دیا گیا۔
متاثرہ لوگوں نے الزام لگایا کہ واقعے میں پولیس اور مقامی ایم پی اے ملک احمد سعید بھی ملوث ہیں جنہوں نے بچوں کی ویڈیوز بنا کر ان کو عالمی مارکیٹ میں کئی ملین ڈالرز کا بیچا۔
یہ کیس منطقی انجام تک نہیں پہنچایا گیا۔



11 بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل

300 بچوں کے اس واقعے کے بعد 5 سے 8 سال کی بچیاں غائب ہونے لگیں جنکی لاشیں چند دن بعد مل جاتیں۔ زینب 12 ویں بچی تھی۔
ملنے والی بچیوں کا ڈی این اے کروایا گیا تو کم از کم 6 بچیوں میں ایک ہی ڈی این اے کا سیمپل ملا۔
ڈی این اے کی اس رپورٹ کو ن لیگ نے پراسرار انداز میں دبا لیا اور پچھلے ایک سال سے اس پر مزید کام نہیں کیا گیا۔
کچھ لوگوں کا دعوی ہے کہ اس رپورٹ کو مقامی ن لیگی نمائندوں کے ڈی این اے سے ملایا جائے تو 24 گھنٹوں میں زینب کا قاتل پکڑا جائیگا۔
( بشرط کہ اس رپورٹ کو بھی تبدیل نہ کر دیا گیا ہو)



زینب کا کیس اور ن لیگ کی نئی وردی والی پولیس

زینب کی گمشدگی پر اس کے رشتے دار تھانے رپورٹ درج کروانے گئے تو ایس ایچ او صاحب نے موسم کی مناسبت سے ان سے مالٹے طلب کیے۔
پانچ دن بعد جب زینب کی لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملی تو ڈی پی او صاحب نے زینب کی لاش کے بدلے اس کے چچا سے 10 ہزار روپے طلب کیے اور " بدبو " کی وجہ سے گاڑی سے باہر نہ آنے کا فیصلہ کیا۔
جب واقعہ سوشل میڈیا اور میڈیا پر آیا تو ایک ایسا تفتیشی مقرر کیا گیا جو ایک ٹی وی پروگرام میں 25 ہزار روپے رشوت لیتے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔
قصور کے متاثرین احتجاج کرنے سڑکوں پر نکل آئے تو پولیس نے ان پر سیدھی گولیاں چلا کر دو بندے مزید پھڑکا دئیے۔
ن لیگ نے ملوث ڈی پی او کو سزا کے طور پر " او ایس ڈی " بنا دیا یعنی آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی۔ (جو غیر معینہ مدت کے لیے کام کیے بغیر تنخواہ لیتا ہے)
پولیس نے ملزم کا غلط خاکہ شائع کیا۔ سی سی ٹی وی میں نظر آنے والی فوٹو اور پولیس کے خاکے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اس معاملے میں پولیس کیوں عوام کو جان بوجھ کر گمراہ کرنا چاہتی ہے؟



زینب کے قتل پر لیگی راہنماؤوں کا ردعمل

رانا ثناء اللہ نے فرمایا " بچی مجرم کیساتھ خوشی خوشی گئی ہے" ۔۔۔۔۔۔ " والدین کو اپنے بچوں پر نظر رکھنی چاہیئے ورنہ بچے ایسے واقعات کا نشانہ بن سکتے ہیں"
خیال رہے کہ جب 300 بچوں کا سکینڈل آیا تھا تب اسی رانا ثناءاللہ کا بیان آیا تھا کہ " قصور والا واقعہ کوئی بڑا واقعہ نہیں۔ ایسے واقعات روز ہوتے رہتے ہیں"
طلال چودھری نے فرمایا کہ " قصور جیسے واقعات تو ہر صوبے میں ہوتے رہتے ہیں سیاسی رنگ دینا زیادتی ہے "
مائزہ حمید نے فرمایا کہ " یہ اسلام یا کسی دوسرے مذہب میں نہیں کہ اپنے بچوں کو کسی سہارے کے بغیر چھوڑیں "
ن لیگ کی ہی عائشہ گلالئی کے مطابق " زینب کے قتل کا ذمہ دار عمران خان ہے"

قصور اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ن لیگ کے کم از کم 15 کے قریب ایم این ایز اور ایم پی ایز ہیں جن میں سے کوئی ایک بھی زینب کا پوچھنے نہیں آیا۔

خادم اعلی رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح چھپ کر زینب کے والدین سے ملے اور تصویریں نکلوا کر چل دئیے۔



ن لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم

مریم نواز کی سوشل میڈیا ٹیم کے مطابق ۔۔۔۔۔
" زینب کا والد شیطان ہے"
" زینب کا جنازہ پڑھانے کےلیے قادری کو بلانا اس بات کی علامت ہے کہ واقعہ درحقیقت حکومت کے خلاف سازش ہے "
" مشرف دور میں جن خواتین کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں انکا کیا ہوا؟"
" ڈی آئی خان کے واقعے کے ذمہ داروں کو کب سزا ملے گی؟"
وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔

اسی طرح ن لیگ کے ترجمان چینل جیو نے بھی واقعے کا ذمہ دار والدین کو ہی قرار دیا ہے۔



صرف چند ماہ پہلے نواز شریف نے اپنے استقبال کے لیے آنے والے ایک بچے کو اپنی پروٹوکول کی گاڑی تلے کچل دیا تھا۔
پھر گاڑی صرف اتنی دیر رکی کہ بچے کو سڑک سے ہٹایا جا سکے تاکہ دوبارہ گزرنے پر گاڑی کے ٹائر خراب نہ ہوں۔
ان درجنوں گاڑیوں اور ایمبولینسوں میں سے کسی ایک نے بھی رکنے کی زحمت نہیں کی۔ یاد ہے کسی کو ؟؟؟؟؟ اگر نہیں تو زینب کو بھی آپ بھول جائنگے۔

قصور والے واقعے میں جو ن لیگ کو بے قصور سمجھتے ہیں وہ زندہ نہیں ہیں!