" کرائے کے لبرلز" اور فسادی میڈیا
قصور واقعہ کی آڑ میں "' کرائے کے لبرل' اور فسادی میڈیا ایک بار پھر اپنی اصلیت دکھا رہے ہیں۔
افسوس، افسوس۔۔۔۔ معاشرے کی تباہی اور اخلاقی دیوالیہ پن میں ان کے گھناؤنے کردار اور کھیل پر اب بات ہو گی اور کھل کر ہو گی۔
یہ لوگ تصویر کا وہی رخ دکھاتے ہیں جو ان کو سُوٹ کرے۔۔۔۔ جو ان کے ایجنڈے کو تقویت دے۔۔۔۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کچھ سال قبل ایک جعلی ویڈیو چلائی گئی جس میں دکھایا گیا کہ سوات یا فاٹا میں کسی جگہ پر 'غیرت' سے منسلک کسی واقعہ میں ایک لڑکی کو بھرے مجمعے میں کوڑے لگائے جا رہے ہیں۔۔۔۔ پاکستانی میڈیا نے کئی روز مسلسل اس کو دکھایا اور مغربی میڈیا بار بار یہ کلپ چلا کر چیخ رہا تھا کہ دیکھو اگر ان دہشت گردوں کو نہ روکا گیا تو یہ اسلام آباد پر قبضہ کر لیں گے۔۔۔ یہ پاکستان میں شریعت نافذ کر دیں گے۔۔۔۔ پاکستانی پارلیمنٹرینز خواتین و مرد حضرات کہہ رہے تھے کہ ہمارے سر شرم سے جھک گئے اب ہم دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے۔۔۔۔۔یہی پاکستانی میڈیا ہے جو طالبان کا نشانہ بننے والی ملالہ کی سٹوری تو ہائی لائٹ کرتا ہے لیکن ڈرون حملے کا نشانہ بننے والے نبیلہ کے خاندان کو اہمیت نہیں دیتا۔ اسی میڈیا نے ملالہ کے واقعہ کی آڑ میں دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ پاکستان میں تعلیم کی راہ میں اصل رکاوٹ طالبان ہی ہیں۔۔۔۔حالانکہ طالبان نے تو اسی کی دہائی میں افغان سوویت وار کے بعد یہاں قدم جمانا شروع کئے جبکہ پاکستان میں تعلیم اور ہر طرح کے سماجی ارتقاء کی راہ میں روز اول سے وڈیرہ شاہی، پنچائیتیں، نوابی کلچر، یونیفارم والوں کے سیاسی عزائم اور کچھ دیگر عوامل کارفرما ہیں۔۔۔۔ اسی میڈیا نے قندیل بلوچ کو عورتوں کی آذادی کا استعارہ بنا کر پیش کیا۔
قصور سانحہ پر بھی اصل معاملے کو لپیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عوام دشمن مفلوج سسٹم کی مکروہات پر بات کرنے کی بجائے بچوں پر جنسی تشدد اور زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا سارا ملبہ والدین پر ڈال کر یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس کا اصل سبب بچوں کا جنسی تعلیم اور آگاہی سے نابلد ہونا ہے۔۔۔۔۔
سوال یہ ہے کہ اگر گھروں یا سکولوں میں جنسی تعلیم کو متعارف کرا بھی دیا جائے تو معاشرے سے جرائم کی بیخ کنی کرنے والے نظام کی عدم موجودگی میں اس طرح کے اقدامات کہاں تک موثر ثابت ہو سکتے ہیں؟
درحقیقت یہ ناہموار معاشرہ عام آدمی کے لئے رہنے کے قابل ہی نہیں ہے۔ یہاں طبقہ اشرافیہ کی الگ دنیا ہے۔۔۔ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ کسی حکمران، پارلیمنٹرین، جج ، بیورو کریٹ وغیرہ کا بچہ قصور کی ننھی زینب کی طرح ظلم کا شکار ہوا ہو۔۔۔۔۔ یہ مخلوق تو سیکیورٹی کے حصار میں رہتی ہے جبکہ عام آدمی لاقانونیت اور ظلم کا شکار ہے ۔سماجی برائیوں اور جرائم کی پرورش میں معاشرے کے دو ستونوں میڈیا اور پولیس کا کردار انتہائی بھیانک شکل اختیار کر چکا ہے۔۔۔۔عام آدمی کو یہ بات سمجھنی ہو گی۔
افسوس، افسوس۔۔۔۔ معاشرے کی تباہی اور اخلاقی دیوالیہ پن میں ان کے گھناؤنے کردار اور کھیل پر اب بات ہو گی اور کھل کر ہو گی۔
یہ لوگ تصویر کا وہی رخ دکھاتے ہیں جو ان کو سُوٹ کرے۔۔۔۔ جو ان کے ایجنڈے کو تقویت دے۔۔۔۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کچھ سال قبل ایک جعلی ویڈیو چلائی گئی جس میں دکھایا گیا کہ سوات یا فاٹا میں کسی جگہ پر 'غیرت' سے منسلک کسی واقعہ میں ایک لڑکی کو بھرے مجمعے میں کوڑے لگائے جا رہے ہیں۔۔۔۔ پاکستانی میڈیا نے کئی روز مسلسل اس کو دکھایا اور مغربی میڈیا بار بار یہ کلپ چلا کر چیخ رہا تھا کہ دیکھو اگر ان دہشت گردوں کو نہ روکا گیا تو یہ اسلام آباد پر قبضہ کر لیں گے۔۔۔ یہ پاکستان میں شریعت نافذ کر دیں گے۔۔۔۔ پاکستانی پارلیمنٹرینز خواتین و مرد حضرات کہہ رہے تھے کہ ہمارے سر شرم سے جھک گئے اب ہم دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے۔۔۔۔۔یہی پاکستانی میڈیا ہے جو طالبان کا نشانہ بننے والی ملالہ کی سٹوری تو ہائی لائٹ کرتا ہے لیکن ڈرون حملے کا نشانہ بننے والے نبیلہ کے خاندان کو اہمیت نہیں دیتا۔ اسی میڈیا نے ملالہ کے واقعہ کی آڑ میں دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ پاکستان میں تعلیم کی راہ میں اصل رکاوٹ طالبان ہی ہیں۔۔۔۔حالانکہ طالبان نے تو اسی کی دہائی میں افغان سوویت وار کے بعد یہاں قدم جمانا شروع کئے جبکہ پاکستان میں تعلیم اور ہر طرح کے سماجی ارتقاء کی راہ میں روز اول سے وڈیرہ شاہی، پنچائیتیں، نوابی کلچر، یونیفارم والوں کے سیاسی عزائم اور کچھ دیگر عوامل کارفرما ہیں۔۔۔۔ اسی میڈیا نے قندیل بلوچ کو عورتوں کی آذادی کا استعارہ بنا کر پیش کیا۔
قصور سانحہ پر بھی اصل معاملے کو لپیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عوام دشمن مفلوج سسٹم کی مکروہات پر بات کرنے کی بجائے بچوں پر جنسی تشدد اور زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا سارا ملبہ والدین پر ڈال کر یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس کا اصل سبب بچوں کا جنسی تعلیم اور آگاہی سے نابلد ہونا ہے۔۔۔۔۔
سوال یہ ہے کہ اگر گھروں یا سکولوں میں جنسی تعلیم کو متعارف کرا بھی دیا جائے تو معاشرے سے جرائم کی بیخ کنی کرنے والے نظام کی عدم موجودگی میں اس طرح کے اقدامات کہاں تک موثر ثابت ہو سکتے ہیں؟
درحقیقت یہ ناہموار معاشرہ عام آدمی کے لئے رہنے کے قابل ہی نہیں ہے۔ یہاں طبقہ اشرافیہ کی الگ دنیا ہے۔۔۔ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ کسی حکمران، پارلیمنٹرین، جج ، بیورو کریٹ وغیرہ کا بچہ قصور کی ننھی زینب کی طرح ظلم کا شکار ہوا ہو۔۔۔۔۔ یہ مخلوق تو سیکیورٹی کے حصار میں رہتی ہے جبکہ عام آدمی لاقانونیت اور ظلم کا شکار ہے ۔سماجی برائیوں اور جرائم کی پرورش میں معاشرے کے دو ستونوں میڈیا اور پولیس کا کردار انتہائی بھیانک شکل اختیار کر چکا ہے۔۔۔۔عام آدمی کو یہ بات سمجھنی ہو گی۔