بالی ووڈ فلموں میں ہیرو کے مقابلے میں اداکاراؤں کو حاصل ہوتی ہیں۔ 2017 کم کمانے والی اداکاراؤں کا ایک جھلک
فلم’ایم ایس دھونی‘کے ذریعے بالی ووڈ میں ڈیبیو کرنے والی اداکارہ دیشا
پٹانی رواں سال معاوضہ حاصل کرنے والی اداکاراؤں میں سب سے پیچھے رہیں
انہوں نے 2017 میں صرف ایک کروڑ روپے کمائے۔
دیشا پٹانی:
فلم’ایم ایس دھونی‘کے ذریعے بالی ووڈ میں ڈیبیو کرنے والی اداکارہ دیشا
پٹانی رواں سال معاوضہ حاصل کرنے والی اداکاراؤں میں سب سے پیچھے رہیں
انہوں نے 2017 میں صرف ایک کروڑ روپے کمائے۔
عالیہ بھٹ:
نامور بالی ووڈ اداکارہ عالیہ بھٹ کا شمار بالی ووڈ کی صف اول کی
اداکاراؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے بہت کم وقت میں اپنی اداکاری کا لوہا
منوایا۔ عالیہ بھٹ نے 2017 کی پہلی کامیاب فلم ’بدری ناتھ کی دلہنیا‘میں
کام کیا تاہم وہ رواں سال سب سے کم معاوضہ حاصل کرنےو الی اداکاراؤں میں
شامل رہیں۔ عالیہ بھٹ کی 2017 کی کمائی محض 4کروڑ50لاکھ تھی۔
سوناکشی سنہا:
سوناکشی سنہا کے ستارے کافی عرصے سے گردش میں ہیں۔ رواں سال انہوں نے
’نور‘اور ’اتفاق‘نامی فلموں میں کام کیا لیکن شائقین کو متاثر کرنے میں
ناکام رہیں انہوں نے 2017 میں 3 کروڑ70لاکھ معاوضہ حاصل کیا۔
شردھا کپور:
نامور بالی ووڈ اداکارہ شردھا کپور کے لیے 2017 زیادہ خاص ثابت نہیں
ہوا۔ شردھا کی رواں سال تین فلمیں’او کے جانو‘،’ہاف گرل فرینڈ‘اور ’حسینہ
پارکر‘ریلیز ہوئیں۔ جن میں سے صرف ’ہاف گرل فرینڈ ‘نے جزوی کامیابی حاصل کی
جب کہ باقی دونوں فلمیں باکس آفس پر بری طرح ناکام ہوگئیں ۔ شردھا کپور
کی رواں سال کمائی 3 کروڑ50لاکھ رہی۔
سونم کپور:
بھارتی اداکار انیل کپور کی بیٹی اور بالی ووٖڈ کی معروف اداکارہ سونم کپور نے رواں سال 2کروڑ50لاکھ روپے کمائے۔
پرینیتی چوپڑا:
نامور بالی ووڈ اداکارہ پرینیتی چوپڑا رواں سال فلموں سے زیادہ وزن کم
کرنے کے باعث خبروں میں رہیں ۔ عشق زادے‘’ہنسی تو پھنسی‘جیسی کامیاب فلمیں
دینے والی اداکارہ پرینیتی چوپڑا کی بھی اس سال دو فلمیں’میری پیاری
بندو‘اور’گول مال اگین‘ریلیز ہوئیں۔ میری پیاری بندو تو باکس آفس پر ناکام
ہوگئی لیکن گول مال اگین نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے۔ پرینتی چوپڑا نے
رواں سال اپنی فلموں کے عوض 2 کروڑایک لاکھ کا معاوضہ حاصل کیا۔
الیانا ڈی کروز:
ساؤتھ انڈین فلموں سے مقبولیت حاصل کرنے والی خوبرو اداکارہ الیانا ڈی
کروز نے بالی ووڈ میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایاہے۔ الیانا نے
’برفی‘،’میں تیرا ہیرو‘، ’پھٹاپوسٹرنکلاہیرو‘اور’رستم‘جیسی بہترین فلموں
میں کام کیا ہے۔ جب کہ رواں سال وہ دو فلموں’مبارکاں‘اور’بادشاہو‘میں
نظرآئیں اور ایک کروڑ 60 لاکھ معاوضہ حاصل کیا۔
جیکولین فرنینڈس:
فلم ’کک‘ سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی اداکارہ جیکولین فرنینڈس نے
رواں سال ’ڈرائیو‘، ’اے جینٹل مین‘ اور جڑواں2‘میں کام کیا لیکن صرف
’جڑواں2‘ہی کامیاب ہوسکی باقی دونوں فلمیں کب سینما میں لگیں اور کب
اترگئیں کسی کو پتہ نہیں چلا۔ انہوں نے 2017 میں ایک کروڑ50 لاکھ روپے
کمائے۔
پیارے ابو جان اور امی جان
مجھے آج ملک سے باہر پانچ سال ہو گئے اور میں اگلے ماہ اپنے وطن واپسی کا ارداہ کر رہا ہوں، میں نے اپنے ویزا کے لیے جو قرض لیا تھا وہ ادا کر چکا ہوں اور کچھ اخراجات پچھلی چھٹی پر ہو گئے تھے۔ تحفے تحائف لینے میں اور کچھ دیگر اخراجات۔ اب میرے پاس کوئی بڑی رقم موجود نہیں لیکن میری صحت ابھی ٹھیک ہے اور میں خود کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ پاکستان جا کر کوئی بھی اچھی نوکری کر سکوں اور گھر کے اخراجات چلا سکوں۔ یہ جگہ مجھے پسند نہیں ہے میں اپنے گھر رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں
آپکا پیارا – جمال
پیارے بیٹے جمال
تمھارا خط ملا اور ہمیں تمھاری چھٹی کے بارے میں پڑھ کر خوشی ہوئی۔باقی تمھاری امی کہہ رہی تھی کہ گھر کی حالت بہت خراب ہو رہی ہے اور تم جانتے ہو برسات شروع ہونے والی ہے۔ یہ گھر رہنے کے قابل نہیں ہے۔ گھر چونکہ پرانی اینٹوں اورلکڑیوں سے بنا ہے اس لیے اس کی مرمت پر کافی خرچ آئے گا۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ کنکریٹ اور سیمینٹ سے بنا ہوا گھر ہو تو بہت اچھا ہو۔ ایک اچھا اور نیا گھر وقت کی ضرورت ہے۔ تم جانتے ہو یہاں کے کیا حالات ہیں اگر تم یہاں آ کر کام کرو گے تو اپنی محدود سی کمائی سے گھر کیسے بنا پاؤ گے۔ خیر گھر کا ذکر تو ویسے ہی کر دیا آگے جیسے تمھاری مرضی۔
تمھاری پیاری امی اور ابو۔
پیارے ابو جان اور امی جان
میں حساب لگا رہاتھا آج مجھے پردیس میں دس سال ہو چکے ہیں۔ اب میں اکثر تھکا تھکا رہتا ہوں، گھر کی بہت یاد آتی ہے اور اس ریگستان میں کوئی ساتھی نہیں ہے۔ میں سوچ رہا ہوں اگلے ماہ ملازمت چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے گھر آجاؤں۔ دس سال کے عرصے میں الحمدللہ ہمارا پکا گھر بن چکا ہے اور جو ہمارے اوپر جو قرضے تھے وہ بھی میں اتار چکا ہوں۔ اب چاہتا ہوں کہ اپنے وطن آ کر رہنے لگ جاؤں۔ اب پہلے والی ہمت تو نہیں رہی لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ کر کے ، ٹیکسی چلا کے گھر کا خرچ چلا لوں گا۔ اس ریگستان سے میرا جی بھر گیا ہے۔ اب اپنے بچوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کی کیا رائے ہے۔
آپکا پیارا – جمال
پیارے بیٹے جمال
تمھارا خط ملا اور ہم پچھتا رہے ہیں اس وقت کو جب ہم نے تمھیں باہر جانے دیا، تم ہمارے لیے اپنے لڑکپن سے ہی کام کرنے لگ گئے۔ ایک چھوٹی سے بات کہنی تھی بیٹا۔ تمھاری بہنا زینب اب بڑی ہو گئی ہے ، اس کی عمر ۲۰ سے اوپر ہو گئی۔ اس کی شادی کے لیے کچھ سوچا ، کوئی بچت کر رکھی ہے اس لیے کہ نہیں۔ بیٹا ہماری تو اب یہی خواہش ہے کہ زینب کی شادی ہو جائے اور ہم اطمینان سے مر سکیں۔ بیٹا ناراض مت ہونا ، ہم تم پر کوئی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔
تمھاری پیاری امی اور ابو۔
پیارے ابو جان اور امی جان
آج مجھے پردیس میں چودہ سال ہو گئے۔ یہاں کوئی اپنا نہیں ہے۔ دن رات گدھے کی طرح کام کر کے میں بیزار ہو چکا ہوں، کمھار کا گدھا جب دن بھر کام کرتا رہتا ہے تو رات کو گھر لا کر اس کا مالک اس کے آگے پٹھے ڈال دیتا ہے اور اسے پانی بھی پلاتا ہے پر میرے لیے تو وہ بھی کوئی نہیں کرتا، کھانا پینا بھی مجھے خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ بس اب میں ویزا ختم کروا کر واپس آنے کا سوچ رہا ہوں۔ پچھلے کچھ سالوں میں اللہ کی مدد سے ہم زندگی کی بیشتر آزمائشوں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ زینب بہنا کی شادی ہو چکی ہے اور اب وہ اپنے گھر میں سکھی ہے۔ اس کے سسرال والوں کو خوش رکھنے کے لیے میں اکثر تحفے تحائف بھی بھیج دیتا ہوں۔ اللہ کے کرم سے آپ لوگوں کو میں نے حج بھی کروا دیا اور کوئی قرضہ بھی باقی نہیں ہے۔ بس کچھ بیمار رہنے لگا ہوں، بی پی بڑھا ہوا ہے اور شوگر بھی ہو گئی ہے لیکن جب گھرآؤں گا، گھر کے پرسکون ماحول میں رہوں گا اور گھرکا کھانا کھاؤں گا تو انشاء اللہ اچھا ہو جاؤں گا اور ویسے بھی اگر یہاں مزید رہا تو میری تنخواہ تو دوائی دارو میں چلی جائے گی وہاں آ کر کسی حکیم سے سستی دوائی لے کر کام چلا لوں گا۔ اب بھی مجھ میں اتنی سکت ہے کہ کوئی ہلکا کام جیسے پرائیویٹ گاڑی چلانا کر لوں گا۔
آپکا پیارا – جمال
پیارے بیٹے جمال
بیٹا ہم تمھارا خط پڑھ کر کافی دیر روتے رہے۔ اب تم پردیس مت رہنا لیکن تمھاری بیوی زہرہ نے کچھ کہنا تھا تم سے ، اسکی بات بھی سن لو۔
(بیوی ) پیارے جمال
میں نے کبھی آپکو کسی کام کے لیے مجبور نہیں کیا اور کسی چیز کے لیے کبھی ضد نہیں کی لیکن اب مجبوری میں کچھ کہنا پڑ رہا ہے مجھے۔ آپکے بھائی جلال کی شادی کے بعد آپ کے والدین تو مکمل طور پر ہمیں بھول چکے ہیں ان کا تمام پیار نئی نویلی دلہن کے لیے ہے ، میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ وہ آبائی گھر جلال کو دینے کا سوچ رہے ہیں۔ ذرا سوچیے اگر آپ یہاں آ گئے اور مستقبل میں کبھی اس بات پر جھگڑا ہو گیا تو ہم اپنے چھوٹے چھوٹے بچے لے کر کہاں جائیں گے۔ اپنا گھر ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ آپ کو پتہ ہے سیمنٹ سریہ کی قیمتیں کتنی ہیں؟ مزدوروں کی دیہاڑی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ یہاں رہ کر ہم کبھی بھی اپنا گھر نہیں بنا سکیں گے۔ لیکن میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ آپ خود سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔
آپکی پیاری جان۔ زہرہ
پیاری شریک حیات زہرہ
انیسواں سال چل رہا ہےپردیس میں، اور بیسواں بھی جلد ہی ہو جائے گا۔ اللہ کے فضل سے ہمارا نیا علیحدہ گھر مکمل ہو چکا ہے۔ اور گھرمیں آج کے دور کی تمام آسائشیں بھی لگ چکی ہیں۔ اب تمام قرضوں کے بوجھ سے کمر سیدھی ہو چکی ہے میری ، اب میرے پاس ریٹائرمنٹ فنڈ کے سوا کچھ نہیں بچا، میری نوکری کی مدت بھی اب ختم ہو گئی ہے۔ اس ماہ کے اختتام پر کمپنی میرا ریٹائرمنٹ فنڈ جو کہ ۲۵۰۰ ہزار ريال ہےـ جاری کردے گی۔ اتنے لمبے عرصے اپنے گھر والوں سے دور رہنے کے بعد میں بھول ہی گیا ہوں کہ گھر میں رہنا کیسا ہوتا ہے۔بہت سے عزیز دنیا سے کوچ کر چکے ہیں اور بہت سوں کی شکل تک مجھے بھول گئی۔ لیکن میں مطمئن ہوں ، اللہ کے کرم ہے کہ میں گھر والوں کو اچھی زندگی مہیا کر سکا اور اپنوں کے کام آسکا۔ اب بالوں میں چاندی اتر آئی ہے اور طبیعت بھی کچھ اچھی نہیں رہتی۔ ہر ہفتہ ڈیڑھ بعد ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اب میں واپس آکر اپنوں میں رہوں گا۔ اپنی پیاری شریک حیات اور عزیز از جان بچوں کے سامنے۔
تمھارا شریک سفر – جمال
پیارے جمال
آپ کے آنے کا سن کر میں بہت خوش ہوں۔ چاہے پردیس میں کچھ لمبا قیام ہی ہو گیا لیکن یہ اچھی خبر ہے ۔ مجھے تو آپکے آنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن بڑا بیٹا احمد ہے نا، وہ ضد کر رہا ہے کہ یونیورسٹی آف لاہور میں ہی داخلہ لے گا۔ میرٹ تو اس کا بنا نہیں مگر سیلف فنانس سے داخلہ مل ہی جائے گا۔ کہتا ہے کہ جن کے ابو باہر ہوتے ہیں سب یونیورسٹی آف لاہور میں ہی داخلہ لیتے ہیں۔ پہلے سال چار لاکھ فیس ہے اور اگلے تین سال میں ہر سال تین تین لاکھ۔ اور ہم نے پتہ کروایا ہے تو یونیورسٹی والے انسٹالمنٹ میں فیس بھرنے پر راضی ہو گئے ہیں۔ اس ماہ کی ۳۰ تک فیس کی پہلی قسط بھرنی پڑے گی،
آپکے جواب کی منتطر ، آپکی پیاری جان۔ زہرہ
اس نے بیٹے کی پڑھائی کے لیے ساری رقم بھیج دی۔ بیٹی کی شادی کے لیے جہیز اور دیگر اخراجات بھیجے۔ مگر اب ستائیس سال ہو چکے تھے۔ وہ خود کو ائر پورٹ کی طرف گھسیٹ رہا تھا۔ شوگر، بلڈ پریشر، السر ،گردے و کمر کا درد اورجھریوں والا سیاہ چہرا اس کی کمائی تھا۔ اسے اچانک اپنی جیب میں کسی چیز کی موجودگی کا احساس ہوا۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر دیکھا تو وہ ایک ان کھلا خط تھا۔
یہ وہ پہلا خط تھا جو اس نے اپنی پردیس کی زندگی میں نہیں کھولا ۔
اس ویب سائٹ کا قیام 2015 میں دو مشہور ویب سائٹس oDesk اور Elance کے
اشتراق کے بعد ہوا۔ یہ اس وقت دنیا میں سب سے بڑی ویب سائٹ ہے، کمائی کے
اعتبار سے بھی اور کام کے لحاظ سے بھی۔ روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں کلائنٹس
(clients) اپنے کام کی تفصیل مہیا کرتے ہیں اور فری لانسرز ان پر اپنے
پروپوزلز ارسال کرتے ہیں، جس کا پروپوزل کلائنٹ کو پسند آجائے اسے کام مل
جاتا ہے۔
کام کرنے کی نوعیت دو طرح کی ہوتی ہے۔ یا تو پورے کام کی ایک مقررہ قیمت
طے کر لیں یا گھنٹوں کے حساب سے پیسے چارج کریں۔ البتہ دونوں صورتوں میں
کام کرنے کے پیسے بروقت ملیں گے۔ اگر کسی وجہ سے کلائنٹ پیسے نہیں دیتا تو
Upwork اس معاملے میں آپ کو پورا تعاون فراہم کرے گا۔
Fiverr
اس وقت Fiverr دنیا کی دوسری بڑی ویب سائٹ بن چکی ہے. کام ڈھونڈھنے کے
اعتبار سے Fiverr ،Upwork سے قدرے مختلف ہے۔ یہاں پر آپ اپنے کام کی ایک
سروس بناتے ہیں جسے gig کہا جاتا ہے۔ Gig میں آپ اپنے کام کی نوعیت اور
قیمت وغیرہ کی تفصیل بیان کرتے ہیں، ہر gig کی کم سے کم قیمت $5 ہوتی ہے،
لیکن اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ آپ اس سے ذیادہ نہیں کما سکتے۔ جتنا بڑا کام
ہوگا اس کے پیسے بھی اسی مناسبت سے طے کر لیے جائیں گے۔ یہاں پیسے کے
معاملات کی فکر کرنے کی بالکل ضرورت نہیں کیونکہ کام کے آغاز میں ہی Fiverr
کلائنٹ سے سارے پیسے وصول کر لے گا اور کام ختم ہونے کے بعد آپ کے پیسے
آپ کے اکاؤنٹ میں شامل ہو جائیں گے۔
ان دو ویب سائٹس کے علاوہ فری لانسنگ کےلیے بہترین ویب سائٹس
Freelancer.com ،Peopleperhour.com اور Guru.com ہیں۔ ان تینوں ویب سائٹس
پر بھی کام وافر مقدار میں موجود ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ اس وقت سینکڑوں فری لانسنگ ویب سائٹس موجود
ہیں۔ کسی بھی ویب سائٹ پر کام کرنے سے پہلے بس دو چیزیں مدِنظر رکھیں۔ ایک
تو یہ کہ روزانہ کی بنیاد پر کتنی جابس پوسٹ ہوتی ہیں، اور دوسرا کیا کام
کے پیسے ملتے ہیں یا نہیں۔ ساتھ ہی اس ویب سائٹ کی Terms of service بھی
پڑھنی چاہیے۔ عمومی طور پر کام کرنے کا طریقہ کار تو ایک سا ہوتا ہے لیکن
پھر بھی ہر ویب سائٹ کی اپنی پالیسی ہوتی ہے، اگر اس پر عمل نہ کیا جائے تو
ویب سائٹ آپ کا اکاؤنٹ بند کرسکتی ہے۔
آخر میں ایک اور غلط فہمی دور کرنا چاہوں گا کہ فری لانسنگ صرف ڈویلپمنٹ
(development)، ڈیزائنگ(designing) اور لکھنے (writing) کے کام تک محدود
نہیں۔ یقیناً ان کاموں کی ڈیمانڈ اور قیمت زیادہ ہوتی ہے لیکن اس کے علاوہ
بھی بہت سے آسان کام ہیں جنہیں کرکے اچھی کمائی کی جا سکتی ہے۔
25 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے
باوجود چھ دسمبر کی یاد آتے ہی میں خود کو مانس بھون کی چھت پر پاتا ہوں
اور بابری مسجد کے انہدام کا پورا منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔
مانس
بھون وہی دھرم شالہ جہاں میں اس واقعے سے دس سال قبل سنہ 1982 میں ایک بار
ٹھہرا تھا۔ ایک صحافی دوست نے متنازع بابری مسجد دکھائی تھی جس کے باہری
حصے میں ایک چبوترے پر کیرتن بھجن ہوتا تھا اور لوگ ’سیتا رسوئی‘ (سیتا کے
کچن) اور رام کے ’کھڑاون‘ کے خیالی مقامات کے سامنے سر جھکاتے تھے۔
اس
رام چبوترے پر طویل عرصے سے رامانندی فرقے کے نرموہی اکھاڑے کا قبضہ تھا۔
نرموہی اکھاڑا سوا سو سال سے زائد عرصے سے وہاں مندر کی تعمیر کے لیے
قانونی جنگ لڑ رہا تھا۔
مسجد کے اندر سنہ 1949 میں 22 اور 23 دسمبر کی درمیانی شب ضلع مجسٹریٹ کی مدد سے رام کی بچپن کی مورتی رکھی گئی۔
اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے مسجد سے مورتی ہٹانے کا حکم دیا لیکن ضلع مجسٹریٹ نے اس پر عمل کرنے سے انکار کردیا۔
اسی
وقت سے عدالت نے مسجد سیل کر کے نگران تعینات کر دیا۔ باہر پولیس کا پہرہ
بٹھا دیا گيا اور عدالت کا مقرر کردہ پجاری وہاں پوجا کیا کرتا تھا۔
سنگھ
پریوار یعنی ہندوتوا کے نظریات کی حامل جماعتیں طویل عرصے سے ایسے مسئلے
کی تلاش میں تھیں جس کے ذریعہ ذات پات میں منقسم ہندو برادری کو یکجا کیا
جا سکے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اسی مقصد کے تحت سنہ 1984 میں رام جنم بھومی کی
آزادی کی تحریک شروع کی گئی تھی۔
اس مہم کی وجہ سے یکم فروری سنہ
1986 میں عدالت نے متنازع احاطے کے تالے کھلوئے۔ جواب میں بابری مسجد ایکشن
کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔
دریں اثنا معاملہ ضلع عدالت سے نکل کر لکھنؤ ہائی کورٹ تک پہنچ گیا۔
سنہ
1989 کے عام انتخابات سے قبل مصالحت کی امید میں اس وقت کے وزیر اعظم
راجیو گاندھی نے مسجد سے تقریبا 200 فٹ کے فاصلے پر رام مندر کا سنگ بنیاد
رکھوا دیا۔
راجیو گاندھی کو انتخابات میں شکست ہوئی جبکہ وی پی سنگھ
اور چندرشیکھر کی حکومت میں بھی مصالحت کی تمام تر کوششیں بے کار ثابت
ہوئیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینیئر رہنما لال کرشن اڈوانی نے
گجرات کے سومناتھ مندر سے رام مندر کے لیے رتھ یاترا نکال کر سیاسی طوفان
کھڑا کر دیا۔
سنہ 1991 میں کانگریس ایک بار پھر دہلی میں بر سر
اقتدار آئی اور پی وی نرسمہا راؤ وزیر اعظم بنے لیکن رام مندر کی تحریک کے
طفیل انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں پہلی بار کلیان سنگھ کی قیادت
میں بی جے پی کی حکومت بنی۔
کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا کہ وہ مسجد کی حفاظت
کریں گے جس کے بعد عدالت نے وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کو علامتی کار سیوا
کی اجازت دے دی۔
دوسری جانب وی ایچ پی اور بی جے پی کے رہنماؤں نے ملک بھر میں گھوم گھوم کر لوگوں سے بابری مسجد کو نیست نابود کرنے کی قسم لی تھی۔
ان کی حوصلہ افزائی کے لیے کلیان سنگھ نے اعلان کیا تھا کہ پولیس کار سیوکوں پر فائرنگ نہیں کرے گی۔
اس سے قبل سنہ 1990 میں ملائم سنگھ یادو نے کار سیوکوں پر فائرنگ کرائی تھی اور مسجد کی حفاظت کی تھی۔
کلیان سنگھ حکومت نے متنازع کیمپس کے قریب مجوزہ رام پارک کی تعمیر کے لیے وی ایچ پی کو 42 ایکڑ زمین دے دی تھی۔
اس
کے علاوہ سیاحت کے فروغ کے نام پر بہت سے مندروں اور دھرم شالاؤں کی زمین
حاصل کرکے اسے ہموار کر دیا گیا تھا اور فیض آباد - ایودھیا شاہراہ سے براہ
راست متنازع مقام تک چوڑی سڑک تعمیر کر دی گئی تھی۔
ملک بھر سے آنے والے کارسیوکوں کے قیام کے لیے متازع احاطے سے ملحق
شامیانے اور ٹینٹ لگائے گئے تھے۔ انھیں لگانے کے لیے کدال، بیلچے اور
رسیاں بھی لائی گئیں جو بعد میں مسجد کے گنبد پر چڑھنے اور اسے توڑنے کے
کام میں آئیں۔
مجموعی طور پر متنازع مقام کے آس پاس کے علاقے پر کار
سیوکوں کا ہی قبضہ تھا۔ ان لوگوں نے چار پانچ دن قبل ہی بعض قریبی مزاروں
کو نقصان پہنچا کر اور مسلمانوں کے مکانوں کو آگ لگا کر اپنی جارحیت کا
اظہار کر دیا تھا۔
اس کے باوجود سپریم کورٹ کے مقرر کردہ مبصر ضلعی
جج پریم شنکر گپتا کہہ رہے تھے کہ علامتی کار سیوا پر امن طور پر کرانے کے
لیے سارے انتظام اچھی طرح سے کیے گئے ہیں۔
ایک دن قبل یعنی پانچ دسمبر کو وی ایچ پی کے رہنما نے باضابطہ یہ اعلان
کیا کہ وہاں صرف علامتی کارسیوا (پوجا) ہوگی۔ فیصلے کے مطابق کارسیوک
دریائے سرجو سے پانی اور ریت لے کر آئیں گے اور مسجد سے کچھ فاصلے پر سنگ
بنیاد کی جگہ اسے نذر کر کے واپس ہو جائیں گے۔
جیسے ہی اس کا اعلان
ہوا کار سیوکوں میں غصہ پھیل گیا۔ جب وی ایچ پی کے اعلیٰ رہنما کارسیوک
پورم پہنچے تو مشتعل کارسیوکوں نے انھیں گھیر لیا اور بہت بھلا برا کہا۔ ان
کا کہنا تھا کہ رہنما کچھ بھی کہیں وہ اصلی کارسیوا یعنی مسجد کو منہدم
کرکے ہی جائيں گے۔
شام تک کارسیوکوں نے کئی ٹی وی رپورٹرز اور کیمرہ مین کے ساتھ مار پیٹ کی۔
دوسری طرف بی جے پی کے رہنما اٹل بہاری واجپئی نے ایک عام اجلاس میں
کارسیوکوں کی یہ کہتے ہوئے حوصلہ افزائی کی کہ سپریم کورٹ نے اس کی اجازت
دی ہے۔
واجپئی شام کی ٹرین سے دہلی چلے گئے جبکہ ایل کے اڈوانی اور
ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی رات میں وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ سے بات چیت کر کے
ایودھیا پہنچ گئے۔
چھ دسمبر کی صبح جہاں ایودھیا میں ’جے شری رام‘ کے
نعرے گونج رہے تھے وہیں فیض آباد چھاؤنی کے علاقے میں بڑی تعداد میں مرکزی
نیم فوجی دستے اس تیاری میں تھے کہ جیسے ہی بلاوا آئے گا وہ ایودھیا کو
کوچ کر دیں گے۔ فوج اور فضائيہ بھی نگرانی پر تعینات تھی۔
یہ ایک
حقیقت کہ ریاستی حکومت نے ان کی تعیناتی پر اعتراض کیا تھا۔ یعنی ریاستی
حکومت کی جانب سے واضح تھا کہ کار سیوکوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کیا
جائے گا۔
مانس بھون کی چھت پر جہاں ہم صحافی یکجا تھے مسجد اس کے
بالکل سامنے تھی۔ دائیں طرف پر جنم بھومی (مقام پیدائش) کے مندر کی چھت پر
کمشنر، ڈی آئی جی اور پولیس کے اعلی افسر تھے۔
اور مانس بھون کی
بائیں جانب رام کتھا کنج میں ایک اجلاس عام رکھا گیا تھا جہاں اشوک سنگھل،
اڈوانی، جوشی، اوما بھارتی اور دیگر رہنما جمع تھے۔
مسجد اور مانس بھون کے درمیان سنگ بنیاد کے مقام کو
پوجا کا مقام بنایا گیا تھا جہاں مہنت رام چندر پرمہنس اور دیگر سادھو
سنیاسی جمع تھے۔ اسی جگہ پر گیارہ بجے سے علامتی پوجا ہونی تھی۔
آر
ایس ایس کے اراکین سر پر زعفرانی پٹی باندھے حفاظت کے لیے تعینات تھے۔ ان
کے پیچھے پولیس رسّہ لے کر تیار تھی تاکہ مخصوص لوگ ہی وہاں تک جا سکیں۔
تقریباً
10:30 بجے ڈاکٹر جوشی اور اڈوانی یگیہ کی جگہ پہنچے۔ ان کے ساتھ بہت سے
کارسیوک وہاں داخل ہونے لگے۔ پولیس نے روکا لیکن انھوں نے بات نہیں مانی۔
اس
کے بعد زعفرانی پٹی والے رضاکاروں نے ان پر لاٹھی چلانی شروع کر دی جس پر
وہاں سخت ہلچل نظر آئی۔ دیکھتے دیکھتے سینکڑوں کارسیوک مسجد کی جانب دوڑتے
نظر آئے۔ مسجد کی حفاظت کے لیے چاروں جانب لوہے کا جال لگایا گيا تھا۔
پیچھے
سے ایک گروپ نے درخت پر رسّہ پھینک کر مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ وی
آئی پی کے لیے تعینات پولیس نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن چند ہی منٹوں
میں ایک ایک کرکے بہت سے کارسیوک مسجد کے گنبد پر نظر آنے لگے۔
انھیں دیکھ کر یہ نعرے گونجنے لگے: ’ایک دھکا اور دو، بابری مسجد کو توڑ دو۔‘
جلسہ گاہ سے اشوک سنگھل اور دیگر رہنماؤں نے کار سیوکوں سے نيچے اترنے کی اپیل بھی کی لیکن ان کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
کدال، بیلچہ جس کے ہاتھ جو سامان آیا اسی سے گنبد توڑنے لگا۔ بعض ہاتھوں سے ہی چونے سرخی سے بنی اس عمارت کو توڑنے لگے۔
اور مسجد کی حفاظت پر تعینات مسلح سکیورٹی فورسز کندھے پر رائفلیں لٹکائے باہر نکل آئے۔ سارے افسران لاچار کھڑے تماشائی تھے۔
اسی
دوران کارسیوکوں کے ایک گروپ نے آس پاس کے سارے ٹیلی فون تار کاٹ ڈالے۔ ان
کا ایک گروپ مانس بھون پر چڑھ آیا اور تصاویر لینے سے منع کرنے لگا۔ میں
نے اپنا کیمرہ ایک خاتون صحافی کے بیگ میں چھپا دیا۔
لیکن بہت سے فوٹوگرافروں کے کیمرے کو چھین کر انھیں مارا پیٹا گیا۔
12 بجے تک مسجد توڑنے کا کام اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔
اڈوانی
کو یہ خدشہ تھا کہ نیم فوجی مرکزی فورس یا فوج فیض آباد سے آ سکتی ہے۔
لہذا انھوں نے لوگوں سے وہاں سے آنے والی سڑک کو جام کرنے کی اپیل کی۔
کہتے ہیں کہ کلیان سنگھ تک جب یہ خبر پہنچی تو انھوں
نے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفی دینے کی پیشکش کی لیکن اڈوانی نے انھیں یہ
پیغام دیا کہ جب تک مسجد گر نہ جائے وہ استعفی نہ دیں، کیونکہ استعفی دیتے
ہی ریاست مرکز کے کنٹرول میں چلی جائے گی۔
اسی دوران کچھ پجاری رام اور لکشمن کی مورتیاں نکال لائے۔
دیکھتے دیکھتے پانچ بجے تک مسجد کے تینوں گنبد مسمار ہو چکے تھے۔ اس کے بعد ہی کلیان سنگھ نے استعفی پیش کیا۔
شام
تک ریاست میں صدر راج نافذ ہو چکا تھا لیکن انتظامیہ کو سمجھ نہیں آیا کہ
کیا کرنا ہے؟ بہر حال کارروائی کے خوف سے کارسیوک چپکے چپکے ایودھیا سے
نکلنے لگے۔ بعض لوگ بطور نشانی مسجد کی اینٹ اپنے ساتھ لے چلے۔
اڈوانی، جوشی اور واجپئی جیسے بڑے رہنماؤں نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا۔
پولیس
نے مسجد منہدم کیے جانے پر ہزاروں نامعلوم کار سیوکوں کے خلاف ایک مقدمہ
درج کیا۔ چند منٹ بعد، بی جے پی اور وی ایچ پی کے آٹھ بڑے رہنماؤں کے
اشتعال انگیز تقریر کرنے کا مقدمہ دائر کیا گیا۔
وزیراعظم نرسمہا راؤ دن بھر خاموش تھے لیکن شام کو انھوں نے نہ صرف اس واقعے کی مذمت کی بلکہ مسجد کی دوبارہ تعمیر کی بات بھی کی۔
مرکزی
حکومت کی ہدایت پر خصوصی ٹرینیں اور بسیں چلائی گئیں، جس سے کارسیوک اپنے
گھروں کو جا سکیں اور انتظامیہ بغیر طاقت کا استعمال کیے متنازع مقام پر
کنٹرول کر سکے۔
دوسری جانب منہدم مسجد کے ملبے پر ایک گروپ نے ایک عارضی مندر کی تعمیر شروع کر دی اور وہاں مورتیاں رکھ دی گئیں۔
سات
دسمبر کی رات تک یہ جاننے کی کوشش کرتے رہے کہ انتظامیہ کب وہاں اپنا
کٹرول قائم کرتی ہے۔ اچانک صبح چار بجے کچھ ہلچل سی نظر آئي۔ جب ایودھ
پہنچے تو دیکھا کہ انتظامیہ نے باقی ماندہ چند کارسیوکوں کو بھگا کر عارضی
مندر کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔
اور نیم فوجی دستے کے سپاہی عقیدت اور احترام میں رام (کے بچپن کی مورتی) کی زیارت کر رہے ہیں اور آشیرواد لے رہے ہیں۔
ہم نے بھی کچھ تصاویر لیں اور افسروں سے بات کی۔
بی بی سی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ مسجد کے منہدم ہونے اور متنازع مقام پر انتظامیہ کے کنٹرول کی خبر سب سے پہلے اسی نے دی۔
اب
اگر آپ چھ دسمبر کے پورے واقعے پر نظر ڈالیں تو آپ پائیں گے کہ اس دن صرف
بابری مسجد نہیں توٹی بلکہ اس دن ہندوستان کے آئین کی تینوں شاخ مقننہ،
انتظامیہ اور عدلیہ کی ساکھ بھی ٹوٹ گئی۔
طاقت کو تقسیم کرنے کی وفاق
کا مفروضہ ٹوٹا، قانون کی حکمرانی کی بنیاد ٹوٹی، جمہوریت کا چوتھا ستون
یعنی میڈیا بھی کارسیوکوں کے حملے کا شکار ہوا اور اس کے ساتھ ہی سنگھ
پریوار کا ڈسپلین کا دعوی بھی ٹوٹا۔
ہر چیز کے ٹوٹنے کے باوجود گذشتہ
25 سالوں میں تنازع جوں کا توں ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی
ایودھیا کا سرا نظر نہیں آر رہا ہے۔